فوج میں تقرریاں اور آئین پاکستان


جس طرح کسی زمانے میں بڑھی بوڑھیاں بچوں کو کوہ قاف کے قصے سنایا کرتی تھیں، اسی طرح آج کل ہم سول اور عسکری قیادت کے اختلافات یا ان کے ایک پیج پر ہونے کے قصے سن رہے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی کون بنے گا کون نہیں بنے گا؟ کون کس کور کا چارج سنبھالے گا یا نہیں سنبھالے گا ؟ اس معاملے میں ملک کے سالار اعلیٰ اور وزیر اعظم کے درمیان اتفاق رائے ہو گیا ہے یا ابھی اختلافات کی خلیج بڑھ رہی ہے؟ ہر صحافی اور یو ٹیوب پر تبصرہ کرنے والا تجزیہ نگار، ہر مجلس میں شریک ہو کر گپ شپ کرنے والے احباب اس بارے میں اپنی مفت آراء سے قوم کو نواز رہے ہیں۔

وقفے وقفے سے فواد چوہدری صاحب اہل وطن کو تسلی دیتے ہیں کہ اس بارے میں نتیجہ خیز مشاورت ہو گئی ہے اور جلد حتمی اعلان کر دیا جائے گا۔ دوسری طرف حکومت مخالف طبقہ اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے قوم کو یہ راز کی خبر سناتا ہے کہ اختلافات کی خلیج اور بڑھ گئی ہے۔

مناسب ہوگا اگر موجودہ حکومت اور عمران خان صاحب کے بارے میں اپنی رائے کے ایک طرف رکھ کر یہ جائزہ لیا جائے کہ کیا وزیر اعظم عمران خان صاحب یا ملک کے کسی اور وزیر اعظم کے پاس کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری یا افواج پاکستان میں ہونے والی تقرریوں میں کسی قسم کا دخل دیں۔ یا یہ اختیار مکمل طور پر افواج پاکستان کے سربراہ کے ہاتھ میں ہے۔ جب تک اس بنیادی سوال کا جائزہ نہ لیا جائے اس ملک میں کسی قسم کی پائیدار حکومت قائم نہیں رکھ سکتی۔ کیونکہ بد قسمتی سے پاکستان میں مارشل لاء لگنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اگر اتنے سانحوں کے بعد بھی ہم اس بنیادی سوال کے بارے میں واضح نہیں تو پھر کسی پائیدار نظام کو قائم کرنے کی کیا امید کی جا سکتی ہے؟

اس شور شرابے میں روزنامہ ڈان نے اس بنیادی سوال کی طرف توجہ کی۔ روزنامہ ڈان میں ایک تجزیہ شائع ہوا کہ کم از کم ایسا کوئی قانون قوم کے علم میں نہیں ہے کہ آئی سی آئی کا سربراہ کس طرح مقرر کیا جائے گا۔ اگر ایسا کوئی طریقہ کار طے ہوا ہے تو اسے خفیہ رکھا گیا ہے۔ اگر اس بارے میں کوئی قانون موجود نہیں ہے تو یہ ایک قانونی خلا ہے جسے مناسب قانون سازی سے پر کرنا چاہیے۔

لیکن اگر آئی سی آئی وزیر اعظم کے تحت کام کرتی ہے تو کیا یہ مناسب ہوگا کہ اس کا سربراہ وزیر اعظم کی مرضی کے بغیر مقرر کر دیا جائے۔ تحریک انصاف کے عامر ڈوگر صاحب نے ایک انٹرویو میں یہ کہا کہ طریقہ کار یہ ہے کہ وزیر اعظم کو تین نام بھجوائے جاتے ہیں اور وزیر اعظم کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ ان میں سے کسی ایک نام کا انتخاب کریں۔ لیکن اس کے ساتھ بعض تجزیہ نگاروں نے یہ اظہار کیا کہ اگرچہ آئی سی آئی وزیر اعظم کے تحت کام کرتی ہے لیکن مختلف فوجی افسران کی تبدیلیوں کا اختیار پاکستان کی فوج کے سربراہ کے پاس ہوتا ہے۔

لیکن اس غل غپاڑے میں کوئی تجزیہ نگار اس ضروری پہلو کی طرف توجہ نہیں کر رہا کہ کیا آئین پاکستان اس قسم کے سوالات پر کچھ روشنی ڈالتا ہے کہ نہیں۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آئین پاکستان کی رو سے پاکستان کی مسلح افواج کی کمان اور اس کا کنٹرول کس کے ہاتھ میں ہے؟ کیونکہ اگر کسی اور سولین یا عسکری قانون میں کوئی ایسی شق ہے بھی جو کہ آئین پاکستان کی کسی شق سے متصادم ہو تو یہ قانون یا ضابطہ کالعدم ہوگا اور آئین پاکستان کی متعلقہ شق پر عمل کرنا ضروری ہوگا۔ اور ان قوانین یا ضوابط کی جو بھی تشریح کی جائے گی وہ آئین پاکستان کی اس شق کی روشنی میں کی جائے گی۔

پاکستان کے آئین کی شق 243 میں اس بات کا ذکر ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کی کمان اور کنٹرول کس کے ہاتھ میں ہوگا۔ آئین کی یہ شق ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے:

وفاقی حکومت کے پاس مسلح افواج کی کمان اور کنٹرول ہوگا۔

پورے آئین میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ چیف آف آرمی سٹاف یا کسی اور اعلی ٰ فوجی افسر کے پاس افواج پاکستان کی کمان یا کنٹرول ہو گا۔ یہ اختیار صرف اور صرف وفاقی حکومت کے پاس ہے۔ اور آئین کی شق 90 کی رو سے وفاقی حکومت سے مراد وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ ہے جو وزیر اعظم کی ذریعہ کام کرے گی۔ اور اس سے آگے آئین کی شق 243 میں یہ لکھا ہے:

قبل الذکر حکم کی عمومیت پر اثر انداز ہوئے بغیر مسلح افواج کی اعلیٰ کمان صدر کے ہاتھ میں ہوگی۔

اسی شق کی رو سے مسلح افواج میں کمیشن دینے کا اختیار صدر پاکستان کے پاس ہے اور اسی طرح فوج کے نئے دستے قائم کرنے کا اختیار بھی صدر پاکستان کے پاس ہے۔ یہ بات حیرت میں ڈالتی ہے کہ وہ صحافی حضرات جو کہ اب تک آئین کی بالا دستی کا پرچار کرتے رہے ہیں وہ بھی اپنے پروگراموں میں اس بات پر ہنستے دکھائی دے رہے ہیں کہ یہ خبریں سننے میں آ رہی ہیں وزیر اعظم ڈی جی آئی سی آئی کے لئے تجویز کئے گئے تین جرنیل صاحبان کا انٹرویو کریں گے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فوج کی کمان اور کنٹرول وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہے تو وہ ان جرنیل صاحبان کا انٹرویو کیوں نہیں کر سکتے۔ کچھ صحافی حضرات اس بات پر انگلیاں دانتوں میں دبا رہے ہیں کہ وفاقی کابینہ میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری پر بات ہوئی ہے۔ حضرات افواج پاکستان کی کمان اور کنٹرول صرف وفاقی حکومت کے پاس ہے اور وفاقی حکومت سے مراد وفاقی کابینہ اور وزیر اعظم ہے۔

اب محترمہ مریم نواز صاحبہ کے اس بیان کا جائزہ لیتے ہیں کہ ہم نے کبھی عمران خان صاحب کو آئینی وزیر اعظم تسلیم ہی نہیں کیا۔ اگر ہم یہ بات عملی طور پر تسلیم کر لیں کہ اس وقت ملک میں کوئی وزیر اعظم نہیں ہے تو پھر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا ملک میں کوئی وفاقی حکومت بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس حکومت نے جو بھی تقرریاں کی ہیں بشمول مسلح افواج کے سربراہ کی توسیع کی وہ بھی کالعدم ہیں۔ اس طرح تو پاکستان میں کوئی نظام باقی نہیں بچے گا۔

اگر یہ سب کچھ تسلیم کر لیا جائے تو پھر کیا خاکم بدہن کوئی دشمن یہ اعتراض نہیں کر سکتا پاکستان کی ریاست کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اور ہم اس علاقے میں ہر قسم کی مداخلت کر سکتے ہیں۔ موجودہ تنازعہ ایک وقتی مرحلہ ہے۔ آج عمران خان صاحب وزیر اعظم ہیں تو کل کو مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی یا کسی اور پارٹی کا وزیر اعظم ہوگا۔ پھر اس کے دور میں وزیر اعظم کے احکامات کو نظر انداز کر کے تقرریاں کی جائیں گی۔ اور مثال کے طور پر آج کل کے چلنے والی کج بحثی کو بطور دلیل پیش کیا جائے گا۔ اور پھر یہی صحافی صاحبان اس بات کا رونا روئیں گے کہ ملک میں حقیقی سولین بالا دستی یا پائیدار جمہوری روایات کیوں نہیں پنپ رہیں۔

پرانی تاریخ دہرانے سے یہی بہتر ہے کہ آپ عمران خان صاحب کی مخالفت ضرور کریں لیکن اس اصولی اور آئینی موقف پر قائم رہیں کہ مسلح افواج کی کمان اور کنٹرول وفاقی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ اگر یہ کمان اور کنٹرول وفاقی حکومت کے ہاتھ میں ہے تو پھر فوج میں اعلیٰ عہدوں پرتقرریوں پر حتمی فیصلے کا اختیار کس کے پاس ہونا چاہیے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments