وزیراعظم اور کندھوں کے ستاروں کی خفیہ چال


میں اپنی زندگی سے شروع کروں گا۔ فلمی اور غیر فلمی ستاروں کی رو سے مجھے اب یہ بات کرنے کی اجازت ہے۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ میرا مطلب ہے کہ میں اپنے بچپن میں کوئی وزیراعظم وغیرہ نہیں تھا اور جب انہوں نے مجھے وزیراعظم بنایا، میں تب بھی نہیں تھا۔ مجھے اپنی شیروانی سے لگتا تھا کہ میں ہوں لیکن چپل دیکھ خیال بدل جاتا۔

جب تک میں وزیراعظم نہیں تھا میں بہت بزی تھا۔ کوئی فکر ہی نہیں تھی۔ میں نے بہت کام کیا جس کا پاکستان کو بہت فائدہ ہوا۔ میں نے پٹرول سٹیشنز پر بنائے گئے ٹائلٹ صاف کرا دیے تو سیاحت کو فروغ ملا اور دنیا بھر سے سیاح پاکستان پہنچ گئے۔ میں نے بھینسیں بیچ دیں اور نوجوانوں کو مرغبانی کے ماڈرن اسلامی طریقے خود سکھائے کیونکہ محکمہ زراعت اور لائیو سٹاک کے فیلڈ اسسٹنٹ یہ کام ٹھیک سے نہیں کر رہے تھے۔ میں نے کسانوں کو چھوٹے کٹے بیچنے سے منع کیا۔

کرپشن ختم کی تو ہر روز ملک سے باہر جانے والے دس ارب ڈالر بچ گئے۔ ٹیکس لگانے یا اکٹھا کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہی لوگوں نے دیکھا کہ ایمان دار حکومت آ گئی ہے تو انہوں نے ٹیکس ادا کرنا کم کر دیے۔ اسی لیے اب انکم ٹیکس پہلے سے بھی کم اکٹھا ہوتا ہے۔ یہ سب کرنے سے ہماری اکانومی اب سیدھے راستے پر آ چکی ہے۔ اب ہم ترقی یافتہ ملک بن چکے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ہاں تمام ضروری اشیا کی قیمتیں اب امیر ممالک سے کسی طرح بھی کم نہیں۔ غور سے دیکھیں تو ادھر بھی فتح ہماری ہی لگتی ہے۔ فتح سے یاد آیا کہ افغانستان اور طالبان کا ذکر اس تقریر میں بھی آئے گا۔

میں نے ریاست مدینہ بنا کر اسے چین، امریکہ، انگلینڈ، ناروے اور جاپان کے طرز پر چلایا اور افغانستان میں طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ دیں۔ ریاست مدینہ اور اسلام کا اصلی چہرہ دیکھ کر دنیا حیران رہ گئی۔ صدر جو بائیڈن بالکل پریشان ہو گیا اور اب اندر ہی اندر مجھے فون کرنے کے بہانے تلاش کر رہا ہے۔ میں بھی انتظار تو کرتا ہوں تاکہ کندھوں پر چمکنے والے ستاروں کی چال کچھ بہتر ہو جائے۔

ہم نے ترقی کی تمام منزلیں طے کر لینے کی باوجود ابھی تک امیر ملکوں کی لسٹ میں اپنا نام نہیں لکھوایا کیونکہ ہم افغانستان سے آگے نہیں جانا چاہتے۔ میرا ارادہ ہے کہ افغانستان کا نام امیر ممالک کی لسٹ میں آ جائے تو پھر ہم اپنا نام بھی شامل کرا لیں گے۔

افغانستان کے لیے میں دنیا کو کہہ رہا ہوں کہ طالبان کی مالی مدد کرو۔ ڈالر دو ورنہ وہ بھی ہمارے ساتھ ہی بھوکے مر جائیں گے۔ جب افغانستان میں ایک اسلامی ریاست قائم ہو جائے گی تو پھر ہمارے پشتون بھی طالبان کی صفوں سے نکل کر امن کی زندگی گزارنا شروع کر دیں گے۔ ظاہر ہے یہ تبھی ممکن ہے جب ویسٹ افغانستان کو اتنا جان لے جتنا میں ویسٹ کو جانتا ہوں۔ میں نے بائیس گرمیاں ویسٹ میں اور پچھلی تین سردیاں افغانستان میں گزاری ہیں۔

میں نے افغانستان کے قبائل، تاریخ اور اس کے ساحلی علاقوں پر بہت گہری ریسرچ کی ہے۔ افغانستان کے ایک قبیلے حقانی گروپ کے بارے میں تو مجھے اکوڑہ خٹک والوں نے بھی بتایا تھا۔ اسی لیے میں ویسٹ کو بتا رہا ہوں کہ افغانستان نے کبھی کوئی جنگ نہیں ہاری۔ یہی تو ان کی ترقی کا راز ہے۔ اب ویسٹ کو چاہیے کہ ان کی امداد کرے ورنہ افغانستان کی پچانوے فیصد آبادی بھوک سے مر جائے گی۔ کیونکہ طالبان اور ہم فاتح ہیں ”ذرا وکھری ٹیپ دے“ ۔ یہ ساری کامیابیاں اس وقت کی ہیں جب میں وزیراعظم نہیں بنا تھا۔

یہ تو پچھلے ہفتے اچانک ایسا ہوا کہ انہوں نے ہمارے سر سے چھتری اٹھا دی۔ مجھے لگا کہ جو فیض ہمیں حاصل تھا وہ اب نہیں رہا۔ تو میں وزیراعظم بن گیا اور میں نے کسی سے اجازت بھی نہیں لی۔ ستاروں کی حرکت پر گہری نظر ہی کافی تھی۔

آپ بھی پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر دیکھ ہی رہے ہوں گے کہ میں اجازت لینے کے موڈ میں ہی نہیں۔ میرا مطلب ہے کہ ایمپائر اہم ہوتا ہے لیکن جب آپ فیلڈنگ کر رہے ہوں اور ایمپائر کی انگلی کے اشارے پر آپ اپنے کزن مولانا صاحب اور اپنے سیاسی گرو شیخ رشید کے ساتھ سڑکوں پر نکلے ہوں۔ پھر اس انگلی کے سہارے آپ محفل لگائے بیٹھے ہوں اور اسی انگلی کے نظارے کے منتظر ہوں۔ لیکن اب ہم نے یہ سب کچھ چھوڑ دیا ہے۔

اب میں آتا ہوں اپنی سیاسی جدوجہد کی جانب۔ آپ نوجوانوں کو تو علم نہیں کہ پچیس سال قبل میں نے یہ پارٹی بنائی تھی تو ارادہ تھا کہ پاکستان میں انصاف لائیں گے۔ یہ میں آپ لوگوں کو اس لیے بتا رہا ہوں کیونکہ آپ اس وقت پارٹی کا حصہ نہیں تھے۔ اس وقت جو لوگ پارٹی کا حصہ تھے وہ بالکل بیکار نکلے۔ ان کا تو کوئی خریدار ہی نہیں تھا۔ میرا مطلب ہے کہ وہ تو فری تھے۔ کچھ عرصے کے بعد میں نے سوچا کہ یہ کام فری میں چلنے والا نہیں۔ تو پھر آپ لوگوں کو فون کیے آپ جیسے مہنگے لوگوں کو لے کر آئے۔ آپ جیسے قیمتی لوگوں کو آتا دیکھ کر فری والے خود ہی پارٹی چھوڑ کر چلے گئے۔

اور اب تین سال ہو گئے ہیں ہماری حکومت کو۔ اب یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ لوگ چوروں کو پکڑنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ہم کچھ لوگوں کو چور کہہ کہہ کر تھک گئے ہیں اور لوگ ہیں کہ انہی کو ووٹ ڈال آتے ہیں۔ اسی لیے تو میں بھی شکر کرتا ہوں کہ ہم نے چور پکڑے ہی نہیں۔ ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ ہی اخلاقیات، نشہ آور ادویات اور الیکشن میں دھاندلی کا ہے۔ کوئی الیکشن پاکستان میں ٹھیک نہیں ہوتا۔ الیکشن میں دھاندلی اس لیے ہوتی ہے کیونکہ وہ دھاندلی کرنا چاہتے ہیں اور کر بھی لیتے ہیں۔

اور ان کا کوئی برا بھی نہیں مناتا۔ ہم نے تو سیالکوٹ والے الیکشن میں کچھ کیا بھی نہیں تھا اور الزام لگنا شروع ہو گئے کہ بیس پریزائیڈنگ افسر اغوا ہو گئے ہیں۔ حالانکہ اغوا صرف انیس ہوئے تھے ایک تو خود ہی لیٹ ہو گیا تھا۔ اب اگلا الیکشن تو ہم نے جیتنا تھا کہ ملک مزید ترقی کر سکے لیکن صورت حال سازگار نہیں رہی۔ میں اپنی کل والی تقریر میں اس سلسلے میں بھی کچھ اشارے دوں گا۔ کندھوں کے ستاروں کی چال کا حساب ابھی خفیہ ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments