افغانستان، طالبان اور داعش کی تکون


جمعہ 15 اکتوبر 21 کو قندھار شہر کے مرکزی علاقے میں واقع امام بارگاہ میں چار خودکش دھماکوں اور فائرنگ سے 45 سے زائد افراد جاں بحق اور اس سے زیادہ تعداد میں زخمی ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ذرائع ابلاغ نے بتائے ہیں جبکہ مقامی افراد و عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جاں بحق اور زخمیوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔ قبل ازیں جمعہ 8، اکتوبر 21 کو قندوز کی ایک امام بارگاہ میں بھی دھماکہ ہوا تھا جس میں 90 افراد شہید جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔

8، اکتوبر کو ہوئے دھماکے کی ذمہ داری داعش خراسان نے قبول کی تھی۔ ہو سکتا ہے قندھار دھماکے میں بھی داعش خراسان ملوث ہو۔ مقامی افراد نے بتایا کہ پہلا دھماکہ دروازے میں ہوا۔ دوسرا وضو خانے تیسرا بیت الخلا کے پاس اور چوتھا مسجد کے اندرونی حصے میں ہوا۔ دھماکوں کے شدید فائرنگ بھی ہوئی تھی۔ دہشت گردی کے دونوں واقعات دل دہلا دینے والے ہیں جو دلخراش ہونے کے علاوہ افغانستان میں داعش کی بڑھتی دہشت گردی کی نشاندہی کرتے ہیں۔

اور داعش خراسان کی سرگرمیوں میں حالیہ اضافہ کئی اعتبار سے تشویشناک ہے ان سانحات کے علی الرغم افغانستان میں داعش کی سرگرم موجودگی اور کارروائیوں میں اضافہ پورے خطے کے لیے سنجیدہ بحران کی دستک ہے۔ داعش عراق پر امریکی و اتحادی افواج کی یلغار کے بعد عراقی عسکری مشینری کی مغربی حملہ آوروں کے ہاتھ تباہی اور پھر بعث پارٹی کی جگہ اہل تشیع کی حکومت کے قیام سے عراق کا معاشرہ فرقہ وارانہ فساد و تقسیم کی بھیانک زد میں آ گیا تھا۔

ایران عراق میں قائم ہونے والی اس حکومت کا علاقائی اتحادی بنا، جس سے خطے کے دیگر عرب سنی ممالک میں تشویش پیدا ہوئی دراصل تشویش کا اصل سبب ایرانی انقلاب کے اثرات کی نوعیت اور حکومتی نعرے تھے جن میں خطے میں موجود شہنشائیت کے خاتمے کی گونج سنائی دیتی تھی چنانچہ عرب بادشاہتوں میں بوجوہ سراسیمگی پیدا ہوئی۔ ایرانی حکومت اپنے انقلاب کی توسیع پسند سوچ کا برملا اظہار کرتی رہی۔ وہ ٹراسٹکی کے انقلاب مسلسل کے تصور کی پیروی کرنے کا عزم ظاہر کر رہی تھی چنانچہ ایران کی نئی حکومت کے خلاف امریکی آشیر باد سے عرب ممالک نے ایران کے مقابل عراق کو میدان جنگ میں اتارا دونوں ملکوں کی طویل جنگ سے جہاں دونوں ملکوں کی عسکری قوت ختم ہوئی وہیں پر مشرق وسطی میں کشیدگی اور عدم استحکام کے ایک نئے عنصر کا احیا ہو گیا۔

تاریخی فقہی تنازعہ دوبارہ ابھرا۔ سنی شیعہ فقہی اختلافات سیاسی کشمکش میں بدلے اور ایران سعودیہ اور اس کے اتحادی خلیجی ممالک کے درمیان مبارزت باقاعدہ عسکری کشیدگی اختیار کرتی چلی گئی۔ عراق پر صدام حسین کے بعد اہل تشیع کے اقتدار کو سنی عرب ممالک نے اسے فقہی سوال کے طور پر دیکھا۔ بعد ازاں شام میں بشار الاسد کی علوی حکومت سمیت عراق میں اہل تشیع اور ان کی حکمرانی کے خلاف داعش کے نام کی بھیانک مسلح تنظیم ابھری امریکہ اور اتحادی بالخصوص اسرائیل شام کی عسکری قوت ختم کرنے کے درپے تھے۔ داعش نے اسد حکومت کے خلاف مسلح کارروائیوں کا آغاز کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے شام کے کئی شہر ملبے کا ڈھیر بن گئے لاکھوں کی تعداد میں شامی مہاجرین ترکی کے راستے یورپ کی طرف پناہ پر مجبور ہوئے۔

یہ سچ ہے کہ عراق و شام میں داعش کی آبیاری پیٹرو ڈالر کی مرہون منت تھی جبکہ شامی مہاجرین یورپ کی طرف چلے تو یورپ میں بھی داعش کو عوامی حمایت میسر آنے لگی مغربی مفکرین حکمران اور سیاسی رہنماؤں کی فکر و عمل میں سراسیمگی اور خوف نے ڈیرے جما لئے۔ نئی صورتحال میں مغربی دنیا نے نیا بیانیہ تشکیل دیا داعش کو عالمی امن اور سلامتی کے لیے ایک بھیانک خطرہ قراردیا گیا، اس کے خلاف کارروائیاں شروع ہوئیں جب عراق و شام میں داعش کمزور ہو گئی تو حکمت عملی کے تحت اسے افغانستان میں افغان طالبان کے سامنے لایا گیا داعش کے قافلے کوچز کے ذریعے عراق و شام سے کوچ کر گئے مغربی ذرائع ابلاغ نے اس منتقلی عیاں کیا افغانستان میں طالبان کو اسلامی عقیدے کے تناظر میں عوامی تائید۔

حاصل تھی جو حملہ آور اتحادی افواج کے لیے ہزیمت کا سبب بنتی تھی چنانچہ اس عوامی حمایت کے تدارک کے لئے وہاں طالبان جیسی مگر بہت زیادہ سنگدل اور بھیانک تنظیم کو منتقل کیا گیا تھا جہادی رجحان کی تقسیم اور طالبان و داعش کو ایک دوسرے کے مقابل لڑایا جانا حکمت عملی کا حصہ تھا، داعش 2012 کے بعد افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں اپنا نیٹ ورک بنا چکی تھی اسے مقامی طور پر افرادی قوت میسر تھی۔ کیونکہ مذہبی انتہا پسند متشدد رجحان کے حامل افراد کو محض نئے جھنڈے کی اطاعت قبول کرنی تھی جس کے پاس زیادہ مادی وسائل بھی موجود تھے اور وہ عالم ٍ کفر کے کانٹے کی طرح کھٹکتی بھی تھی جیسا کہ میڈیا نے ان کی کاروائی کی رپورٹنگ سے داعش کا چہرہ پیش کیا تھا، اس نے افغانستان میں داعش خراسان کے نام سے کارروائیوں کا آغاز کیا افغانستان میں داعش نے امریکی و نیٹو افواج کی موجودگی میں اپنے پنجے گاڑے ہیں یہی پہلو اس قیاس کو تقویت دیتا ہے کہ داعش کی وہاں منتقلی، تنظیم سازی اور اقدامات امریکی فوجی حکمت عملی کا شاخسانہ تھا۔

15 اگست 2021 کے بعد افغانستان میں کثیر الجہت اور دو رس سیاسی تبدیلی آئی ہے امریکہ نے اپنا بیشتر جنگی ساز و سامان افغان طالبان کے سپرد کیا اور دوحہ معاہدے کی آڑ میں افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی ختم کرلی۔ یہ معاملہ دوطرفہ اتفاق رائے کا نتیجہ تھا جسے متحارب فریقین میں سے کسی کی فتح یا شکست قرار دینا غیر حقیقی تھا۔

میرا بنیادی نقطہ نظر یہ ہے کہ امریکہ نے طویل المدتی پالیسی اور جنوب ایشیا میں چین کے خلاف حصار بندی اس کی معاشی توسیع و نمو کاری کا راستہ روکنے کے لئے افغانستان کو خطے میں کشیدگی کا مرکز بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے افغانستان افغان طالبان کے سپرد کیا ہے یوں وہ طالبان اور اس کے ساتھ وہاں جمع کی گئی داعش کے ذریعے دہشت گردی کے اقدامات تصادم اور طالبان کی روایتی حکمرانی کے تناظر میں افغان معاشرے سمیت جنوب اور وسط ایشیا کے قلب افغانستان میں برادر کشی کی ایس مہم شروع کرچکا ہے جو آگے چل کر عالمی اور علاقائی امن کے لئے تباہ کن نظر آئے گی۔

مغربی قوتیں افغانستان کے بحران کو دہشت گردی کی مختلف کارروائیوں اور طالبان کے اقدامات کے ذریعے خطے میں ابھرتے ہوئے بین المملکتی باہمی تعاون کے امکانات کو تنازعات میں بدل دیں گی، طالبان کی جانب سے گزشتہ ایک ہفتے سے طور ختم اور چمن کے بارڈر کی بندش اور اس کا اعتراضی موقف اس کس عمل نقطہ آغاز ہے۔ طالبان کی جانب سے بندش اور ڈیورنڈ لائن کے تناظر میں افغان تحفظات اور موقف کا بیانیہ ہے اس بندش سے چمن بارڈر کے پار انار کی تازہ فصل جو پاکستان پہنچنے کی منتظر ہے تجارتی بحران پیدا کرے گی اگر بارڈر کی بندش مزید دس پندرہ روز برقرار رہتی ہے تو افغان کاشتکار اور پاکستانی تجار کو زبردست مالی نقصان پہنچے گا جو دنوں جانب عوامی تشویش، دباؤ اور پرتشدد رجحانات کا باعث بن سکتا ہے توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ طالبان کا یہ موقف حتمی نتیجے میں سرحد کے آر پار سیاسی درجہ حرارت بڑھائے گا، ممکن ہے کہ اس سے طالبان افغان عوام میں ایک مختلف ملی و قومی امنگوں کے لئے جہد کار بھی بن جائیں۔

متذکرہ صورتحال کا سنگین اور پیچیدہ پہلو حکومت پاکستان کی جانب سے انتہائی اعلیٰ سطحوں پر دنیا کو طالبان حکومت تسلیم کرانے کے لئے دیے گئے بیانات میں جو بظاہر تشویش کا حوالہ رکھتے ہیں لیکن ان بیانات میں پوشیدہ دھمکی یا خوف پیدا کرنے والا عنصر بہت خطرناک پیلو رکھتا ہے پیغام دیا جا رہا ہے کہ اگر دنیا نے طالبان حکومت کی امداد نہ کی تو افغانستان داعش کا مرکز بن سکتا ہے، 8 اور 15 اکتوبر کو ہونے والے بم دھماکے اس تنبیہ کے امکانی خدشے یا دھمکی جو بھی لفظ آپ پسند کریں اس کی عملی صورت گری کر رہے ہیں۔ دنیا بد گمانی محسوس کر سکتی ہے کہ پاکستان اپنے بیانات میں مرقوم موقف کو درست ثابت کرنے کے لئے خدانخواستہ سب کچھ کرا رہا ہے۔

امریکہ جہاں کانگریس میں پاکستان کے ساتھ حساب چکانے کے لئے سنگین اقدامات کے لیے قانونی بل کا مسودہ جمع کرایا جا چکا ہے وہ ملک کے لئے امڈتے ہوئے انتہائی گہرے سیاہ بادلوں کے مترادف ہے۔ ماضی بعید میں مشرق سے سرخ آندھی آنے کا حوالہ دیا جاتا ہے کیا اب کے سیاہ بادل ہماری جانب آرہے ہیں؟ جنہیں امریکہ و مغرب افغانستان میں موجود اپنے پراکسی کے ذریعے مرحلہ وار ڈیورنڈ لائن سے جنوب کی طرف دھکیل رہا ہے۔ تاکہ پورا خطہ باہمی تنازعات اور کشیدگی کے چنگل میں الجھ کر غیر مغربی سرمایہ کاری کا مرکز نہ بن سکے۔

ایشیا عالمی معیشت میں مسلسل ثانوی سطح پر رہے اور چین کے گرد بھارت امریکہ اور برطانیہ کا تشکیل کردہ حالیہ اتحاد، چین اور پاکستان کے باہمی تعاون کو سبوتاژ کرسکے۔ حالانکہ موجودہ حکومت پہلے ہی سی پیک کو مفلوج کر چکی ہے۔ پالیسی کا المیہ ہے کہ بیجنگ نے تو اسلام آباد کو تاحال گود میں نہیں لیا مگر امریکہ اور مغرب نے سرد جنگ کے طویل دور میں اپنے لے پالک سے نظریں پھیر لی ہیں۔ دریں حالات پاکستان کو سلامتی ملکی اقتدار اعلی کے تحفظ معاشی سیاسی استحکام یقینی بنانے میں درپیش چیلنجز جیسے خوفناک خطرات سے بچانے کے لئے جس مستحکم جرات مند اور صاحب نظر دوراندیش معاملہ فہم حکومت کی ضرورت ہے وہ سرے سے ہی موجود نہیں۔ میری بات کی تائید ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری و تبادلے کے معاملے پر سامنے آنے والی عاقبت نااندیش صورتحال کرتی ہے۔ کیا اس طرز اور استعداد کار کی مالک حکومت مستقبل قریب اور لمحہ موجود کے خطرات سے عہدہ برا ہو سکتی ہے۔ ؟ میرا جواب تو نفی میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments