سانحہ کارساز



قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جن کی خاطر جہانگیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی تاریخ لازوال جدوجہد اور قربانیوں سے مزین ہے لیکن ”18 اکتوبر 2007“ ایک ایسا المناک دن ہے جس کا سورج محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی طویل جلاوطنی کے خاتمے سے کراچی اپنے وطن آمد پر طلوع ہوا اور اس کا غروب ایک خون آشام اختتام پر ہوا پیپلز پارٹی کے ان لاکھوں جیالوں پر مشتمل قافلے کو جو اپنی لیڈر کے والہانہ استقبال کے لیے پورے پاکستان سے جوش و خروش اور ایک نئے جذبے سے اکٹھا ہوا اس کو ایک منظم دہشت گردی کے ذریعے خون میں ڈبو دیا گیا۔

ان نہتے عوام کو جو اپنی لیڈر بینظیر بھٹو کو صرف خوش آمدید کہنے آئے تھے ان کی لاشیں اور اعضاء شاہراہ فیصل پر بکھری پڑی تھیں۔  یہ ہولناک دہشت گردی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے لئے ایک واضح پیغام تھا کہ وہ مصالحت کے جس سمجھوتے کو طے کر کے پاکستان آئی ہیں فیصلہ کن قوتیں اس کو پاش پاش کرنے کے لیے بالکل تیار بیٹھیں ہیں محترمہ بینظیر بھٹو اس حملے میں خود تو بال بال بچیں لیکن سینکڑوں جیالے شہید ہوئے، گھائل ہوئے اور کئی بعد میں معذور ہو گئے احمد فراز کے ان شعروں کی سی صورت حال تھی

سارا شہر بلکتا ہے
پھر بھی کیسا سکتہ ہے
گلیوں میں بارود کی بو
یا پھر خون مہکتا ہے
سب کے بازو یخ بستہ
سب کا جسم دہکتا ہے

راقم خود بھی اس استقبالیے میں شریک تھا اور کراچی سے واپسی پر ایک مضمون ”18 اکتوبر اور اس کے اسباق“ کے عنوان سے لکھا جس میں پیپلز پارٹی کی قیادت کو خبردار کرتے ہوئے چتاونی دی کہ یہ سانحہ ان کے لئے خطرے کا واضح الارم ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ریاست کی ان فیصلہ کن قوتوں سے مصالحت کبھی نہیں ہو سکتی اگر ہوتی تو پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر نہ چڑھایا جاتا اور بعد میں ان کے بیٹوں شاہنواز بھٹو اور میر مرتضی بھٹو کو شہید نہ کیا جاتا اور یہ کہ کسی تحریک اور جدوجہد میں ”قیادت کے درست فیصلے انہیں منزل کی طرف گامزن کرتے ہیں اور غلط فیصلے انہیں خون میں ڈبو دیتے ہیں“۔

لیکن ہونی نہ ٹل سکی اور 27 دسمبر 2007 کو محترمہ بینظیر بھٹو کو بھی شہید کر دیا گیا ان ساری شہادتوں کا قرض اگر اس ریاست پر واجب ہے تو خود پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت پر بھی فرض ہے کہ ماضی کی پچھلی ساری غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اپنے اس نعرے پر ڈٹ جائیں کہ ”طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں“ نہ کہ اسٹیبلشمنٹ سے بھیک میں ملی ہوئی لولی لنگڑی حکومتیں جو عوام کا ایک بھی حقیقی بنیادی مسئلہ حل نہ کر سکیں۔

پیپلز پارٹی کئی اقتدار حاصل کرنے کے باوجود بھی ”روٹی کپڑا اور مکان“ کا بنیادی مسئلہ حل نہیں کر سکی جو اب محض نعرہ ہے پاکستان کی آبادی کی اکثریت آج بھی زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہے صحت اور تعلیم جو کبھی سرکاری سہولت تھی اب ایک بیوپار بن چکا ہے اور ایک عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہے پیپلز پارٹی کی قیادت کو اب یہ سمجھنا ہو گا کہ اس سرمایہ دارانہ نظام کا سہارا لے کر محنت کش طبقے کا ایک بھی بنیادی مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا۔

اسے اپنے اولیں بنیادی سوشلسٹ منشور کی طرف لوٹنا ہو گا آج پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس نظام کے بدترین تحفے ”کرپشن“ کے الزامات سے باہر آنا ہو گا اگر وہ واقعی یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ محنت کش طبقے کی آواز ہے موجودہ مالیاتی بحران، مہنگائی اور بے روزگاری سے محنت کش طبقہ گومگو کا شکار ہے کہ وہ اپنے مسائل کے حل کی خاطر کس سیاسی پارٹی کی طرف رجوع کرے اگر پیپلز پارٹی اپنے نظریاتی اور تنظیمی ڈھانچے کو محنت کش طبقے کی امنگوں کے مطابق نہیں ڈھالتی اور اپنے منشور میں ان کے دیرینہ مسائل کا حقیقی حل پیش نہیں کر پاتی تو تب تک وہ پہلے جیسی عوامی پذیرائی اور مقبولیت کبھی بھی حاصل نہیں کر پائے گی۔

چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو ایسی نوجوان صاف ستھری قیادت تیار کرنا ہو گی جو کرپشن کا طوق پارٹی چہرے سے اتار کر حقیقی معنوں میں عملی پروگرام دے کر عوامی مسائل حل کروا سکے کیونکہ یہ شہید بھٹوز اور 18 اکتوبر کے جیالوں کے خون کا قرض ہے جو پاکستان میں محکوم طبقے کو طاقت ور بنا کر اور محنت کش طبقے کے بنیادی مسائل حل کر کے ہی پورا کیا جا سکتا ہے ورنہ 18 اکتوبر کو شمعیں جلا کر فوٹو سیشنز کرنے اور جلسے جلوس نکال کر یہ خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments