پاکستان اگر ریاست مدینہ ہے تو اس کا مکہ بھی لازمی ہے


پاکستان کی آزادی کا پچھترواں سال شروع ہو گیا ہے۔ یعنی ہم اپنی آزادی کے ’ڈائمنڈ جوبلی‘ سال سے گزر رہے ہیں (محمود شام) جسے ہم آج کل مدینہ ریاست کے حوالے سے منانے کے داعی ہیں۔ لیکن یہ ہمیں بالکل نہیں پتہ کہ ہم جس مکہ سے نکال دیے گئے وہ کہاں پیچھے باقی ہے اور جس کو دس سال بعد واپس لینا مدینہ ریاست یا میثاق مدینہ کی تاریخی سنت ہے۔ شاید اس لیے کہ میثاق مدینہ کی سنت کا آغاز تو میثاق لکھنؤ سے طے ہوا تھا جب کہ ہم نے قیام پاکستان کے بعد میثاق لکھنؤ کے معنی ’نظریہ پاکستان‘ سے جوڑ لیے اور نظریے کا پیمانہ اسلام سے منسوب کر لیا، تا کہ اسلام کے نام پر اپنے اپنے نظریوں کی علیحدگی پسندی منانے اور مچانے کی ’پٹاری‘ ضرورت کے ہر نظریے پر فٹ کر کے لگائی جا سکے۔

مدینہ ریاست کے قیام اور پاکستان ریاست کے قیام کی واقعاتی اور معنوی مماثلت اس لحاظ سے تو اظہر من الشمس ہے کہ ہر دو موقع پر مسلمان ہی اپنے اپنے مادر وطن سے غیر مسلموں کی فیصلہ کن قوتوں کے زور استبداد کے زیر اثر، قصداً نہیں بلکہ جبراً، وطن بدری سے دوچار کر دیے گئے تو اس کے نتیجے میں آگے مدینہ اور پھر پاکستان ان کی آباد کاری کے نئے ٹھکانے ایک ہی طرح سے ہاتھ آنے رہ گئے تھے۔

دوسرے لفظوں میں مدینہ کا قیام ’ہجرت مدینہ‘ کے واقعے میں مضمر ہے تو پاکستان کا قیام ’تقسیم ہند‘ کے واقعے میں مضمر ہے۔ معنوی اعتبار سے بھی اول الذکر کا قیام میثاق مدینہ کی رو سے طے ہوا تو ثانی الذکر کا قیام ’میثاق تقسیم ہند‘ کی بنیاد پر طے ہوا۔

یعنی، اگر واقعاتی مماثلت کو ملحوظ رکھا جائے تو پاکستان کا قیام بھی مدینہ ریاست کی طرح ’ہجرت‘ جیسے دیس نکالے گئے اضطراری فیصلے کے آگے سرنگوں ہونے کا نتیجہ ہے، اور اسی طرح جب معنوی مماثلت کو ملحوظ رکھا جائے تو پاکستان کا قیام بھی میثاق مدینہ کی تقلید میں میثاق پاکستان کے معنوں پر استوار ہے، نہ کہ نظریہ پاکستان کے بیانیے پر کہ جس کے معنی نظریہ اسلام سے جوڑ لینے ٹھہرا لئے گئے کیونکہ اس صورت میں قیام پاکستان کا مطلب یہ سمجھا جائے گا گویا مسلمانان ہند قصداً و عمداً متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے خود ذمہ دار ہیں اور علیحدگی پسندی شاید ان کے مذہب اسلام کا دینی تقاضا ہے۔ دوسرے، اس کا مطلب یہ بھی بنتا ہے کہ شاید کانگریسی مسلمانوں کا ضابطۂ اسلام تقسیم کی شکل میں کانگریس کے ساتھ اتحادی بن کر بھارت کے حصے میں رہ گیا اور باقی نظریہ اسلام کی شکل میں لیگی مسلمانوں کے ساتھ پاکستان میں جا بنا، جبکہ واقعتاً اور معناً ایسا بالکل نہیں ہے۔

کیوں کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی اولین ترجیح شروع سے دو قومی تفریق کے دستوری میثاق پر مبنی متحدہ ہندوستان کا قیام رہی تھی، جس کی خاطر مسئلہ ہند کے حل کا آغاز انہوں نے کانگریس کے ساتھ میثاق لکھنو کی تاریخی دستاویز کی شرائط سے طے کیا، اور جسے منوانے اور ماننے کی خاطر وہ میثاق تقسیم ہند کے آخری اور بیٹن پلان تک کار بند اور ور مصر رہے۔ میثاق لکھنو کا چارٹر 1916 میں طے ہوا۔ 1928/29 میں نہرو رپورٹ نے جس پر پانی پھیر دیا، تو 1940 میں قرارداد لاہور کی دوسری ترجیح آگے لگا دی جس میں 1946 تک دانستہ پاکستان کے نام کا ابہام کھلا رکھ چھوڑا گیا۔

آخر میں کابینہ مشن پلان آیا، جس میں پاکستان کے نام کا کوئی ذکر موجود نہ تھا، تو اس کو بھی اس لئے منظور کر لیا گیا کہ کم از کم اس کی شرائط میں ہندو اکثریتی صوبوں کی گروپ بندی کے مقابل مسلم اکثریتی صوبوں کی گروپ بندی بھی لائی گئی تھی اور جس پر آئین سازی کے لیے جو عبوری کابینہ تشکیل پائی تھی اس میں چھ کانگریسی وزراء کے بالمقابل پانچ لیگی وزراء کی نامزدگی بھی منوا لی گئی تھی۔

اب یہ فیصلہ کن مرحلہ تھا جب کانگریس اپنی پارلیمانی عددی اکثریت کا وزن متحدہ ہندوستان کی سالمیت کے حق میں استعمال کر کے کابینہ مشن پلان کی شرائط کے عین مطابق دستور سازی کو متنازعہ اس بناء پر نہ ہونے دیتی جو اس نے کابینہ مشن پلان کی شرائط سے انحراف باند کر من مانی شرائط سے یک طرفہ آئین سازی کی بساط بچھانے پر کمربستہ رہ کر تنازعہ چھیڑ دیا اور جس پر قائداعظم کو بائیکاٹ کا راستہ اختیار کرنا پڑ گیا۔ یہی پارلیمانی عددی اکثریت اگر اس وقت مسلم لیگ کو حاصل ہوتی تو ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہونے دیا گیا ہوتا۔

اس کے بعد بیٹن پلان آیا تو کانگریس کی طرف سے سب سے پہلا لیڈر سردار ولبھ بھائی پٹیل تھا جس نے اس کی تائید میں پوری کانگریس کو بھی یہ اعتراف باندھ کر ہمنوا بنا لیا کہ خواہ ہمیں (کانگریسی اکابرین) پسند ہو نہ ہو، ہندوستان کی دو قومیں موجود ہیں۔ یہاں بھی کانگریس کے واحد مسلم لیڈر ابوالکلام آزاد اگر اس وقت نہرو کی جگہ صدر کانگریس ہوتے، جو اس سے قبل سات سال سے مسلسل صدر کانگریس چلے آرہے تھے، تو وہ بھی کابینہ مشن پلان کی ناکامی ہرگز نہ ہونے دیتے، جس کا عندیہ انہوں نے اپنی کتاب انڈیا ونز فریڈم میں برملا لکھ کر جتا رکھا ہے۔

جس سے بخوبی ثابت ہوجاتا ہے، اور تاریخ کی گواہی بھی یہی ہے کہ مسلم کانگریسی اور لیگی لیڈر شپ دونوں طرف متحدہ ہندوستان کے حق میں تھی جبکہ ہندو لیڈرشپ لالا لجپت رائے سے لے کر نہرو اور پٹیل تک سب مسلمان ہند کے جداگانہ وجود کی اکائی سے چھٹکارا پانے کی اولین ترجیح پر کمربستہ تھی یا دوسری ترجیح کے مطابق وہ مسلمانان ہند کو ہندوتواء کے اندر مدغم، ضم یا گم کر دینے پر تلی ہوئی تھی۔ اور یہی وجہ ہے کہ 3 جون 1947 کو کانگریس ایک طرف تقسیم ہند کے بیٹن پلان کے میثاق کو طے کرنے میں بھی فریق تھی تو دوسری طرف 14 جون 1947 کو اکھنڈ بھارت کی لگن اکسانے کی قرارداد بھی دہکانے کی علمبردار بن گئی کہ ’جب تک علیحدہ ہونے والے علاقے دوبارہ بھارت کے اندر لاکر اکھنڈ بھارت کے اندر (بزور طاقت) ضم نہیں کرلئے جاتے، اس وقت تک خطے میں امن و استحکام نہیں ہو پانے دیا جائے گا (شہاب نامہ) ۔ بدقسمتی سے اکھنڈ بھارت کے علانیہ نصب العین کو کھل کھیلنے کی چھوٹ پاکستان کی طرف سے اس کے نظریہ پاکستان سے مل گئی، جس کے واضح معنی یہ نکلتے ہیں کہ بھارت میں مسلم مادر وطن کے رہ جانے والے باقی حصے پر مسلمان از خود دستبرداری قبول کر چکے ہیں۔

مدینہ ریاست اپنے مادر وطن مکہ سے دستبرداری قبول کرنے پر کبھی آمادہ نہ ہوئی تھی اور دس سال بعد فی الواقعہ مکہ اپنے مدینہ سے جوڑ لینے کی منزل بھی پا لی، کیونکہ مدینہ ریاست کے معنی میثاق مدینہ پر مبنی تھے۔ اس لحاظ سے پاکستان کو بھی اگر مدینہ ریاست ہونے کی تقلید منانا ہے، تو پاکستان کے لیے پھر مکہ کی تقلید میں اپنے مادر وطن بھارت سے دستبرداری مول نہیں لینی چاہیے، بلکہ میثاق مدینہ کی رو سے میثاق پاکستان کے معنی طے کرنے چاہئیں، تا کہ بھارتی ہندوتوا انگیزی کی بولتی بند ہو اور اس کی جگہ ہندو۔ مسلم دو قومی متحدہ ہند کی بحالی کا علم سربلند ہو۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو بنگلادیش، مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے اندر مسلم کشی کا میدان ہندوتوا انگیزی کے لیے کھلا رہے گا۔ اس ضمن میں مدینہ ریاست کی حرمت کا تقاضا بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ پاکستان کی حکمرانی ناجائز اولاد کے پدرانہ داغ سے موسوم نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments