مہنگائی کا سدباب کیسے ممکن ہو گا؟


عام آدمی کے لیے مہنگائی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب ملک میں مجموعی طور پر معاشی صورتحال میں سنگین نوعیت کے مسائل کا سامنا ہو اور بے روزگاری جیسا سنگین مسئلہ بھی درپیش ہو۔ اس لیے جب عام آدمی ملک میں مہنگائی کی دہائی دیتا ہے تو اس کی اہمیت بھی ہے اور وہ پریشان بھی نظر آتا ہے۔ اب پٹرول کی قیمت میں دس روپے انچاس پیسے فی لیٹر اضافہ، مٹی کا تیل دس روپے پچانوے پیسے، لائٹ ڈیزل آئل آٹھ روپے چوراسی پیسے، ہائی اسپیڈ ڈیزل بارہ روپے چوالیس پیسے اضافہ یقینی طور پر ملک میں مجموعی مہنگائی میں اضافہ کا سبب بنے گا۔ یہ بات بجا کہ عالمی منڈی میں تیل اور ڈیزل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر پٹرول 37 ڈالر سے 85 ڈالر، پام آئل میں 36 فیصد، کول 60 ڈالر سے 250 ڈالر جبکہ ایل این جی میں 10 ڈالر سے 50 ڈالر اضافہ بھی ہمارے جیسے ملکوں میں تیل اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کا سبب بنا ہے۔

ادارہ شماریات پاکستان نے مہنگائی کی ہفتہ وار رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق 14 اکتوبر کو اختتام پذیر ہونے والے ہفتہ کے دوران مہنگائی کی شرح 12.66 فیصد جبکہ گزشتہ ہفتہ کے مقابلے میں یہ شرح 0.02 فیصد بڑھی ہے۔ ملک کے 17 بڑے شہروں سے 51 اشیا کی قیمتوں کا تقابلی جائزہ لیا گیا جس میں سے 22 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ جبکہ 10 اشیا کی قیمتوں میں کمی اور 19 اشیا کی قیمتوں میں استحکام رہا ہے۔ کل ہی حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں 1.39 روپے فی یونٹ اضافہ کیا ہے۔

اسی طرح یہ خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے ) آئی ایم ایف (کے ساتھ بھی سخت شرائط کا سامنا ہے جس میں ٹیکسوں کی بھرمار بھی شامل ہے۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہمیں عملاً دیکھنے کو مل رہا ہے جب پچھلے ڈیڑھ برس سے کرونا کی عالمی وبا کی صورت میں معیشت بری طرح متاثر ہوئی اور لوگوں کا کاروبار زندگی یا بے روزگاری کا بحران بھی موجود ہے۔

عام آدمی یا کم پڑھے لکھے افراد عالمی معاشی حالات، عالمی یا ملکی اعداد و شمار یا عقلی یا دلیل کی گفتگو بارے میں کوئی فہم نہیں رکھتے۔ ان کا سادہ سا مسئلہ ان کو درپیش مہنگائی، معاشی بدحالی یا بے روزگاری یا روزگار کے محدود مواقع ہیں۔ اسی بنیاد پر دی جانے والی سہولتوں یا عدم سہولتوں پر وہ حکومت کی اچھی یا بری ہونے کا تعین کرتا ہے۔ اس وقت عمومی رائے حکومت کے حق میں نہیں اور لوگوں کو لگتا ہے کہ حکومت معاشی پالیسی یا عام آدمی کو معاشی ریلیف دینے میں ناکام ہوئی ہے۔

اگرچہ حکومت میں شامل لوگ مختلف نوعیت کی سیاسی، انتظامی اور معاشی وجوہات کو پیش کرتے ہیں مگر عام آدمی کو یہ مباحث سمجھ نہیں آتے۔ اس حکومت کا بڑا چیلنج اس وقت بھی حزب اختلاف کی جماعتیں، کوئی حکومت مخالف تحریک نہیں اور نہ ہی ان کو ان سے کوئی بڑا ڈر یا خوف ہے۔ اس حکومت کا اصل بحران معاشی صورتحال میں بہتری اور عام آدمی کو زیادہ سے زیادہ معاشی ریلیف ہوتا ہے۔

یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ حکومت نے اس معاشی بحران میں مختلف نوعیت کے عام یا کمزور آدمی کے لیے مختلف پیکجز جاری کیے ہوئے ہیں جن میں کسان کارڈ، احساس پروگرام، ہیلتھ کارڈ جیسے اہم منصوبے بھی شامل ہیں۔ لیکن یہ ریلیف مجموعی طور پر مخصوص لوگوں تک ہی پہنچتا ہے۔ اس سے ملک کی مجموعی معاشی صورتحال پر کوئی بڑا اثر نہیں ہو سکتا اور یہ اثر محدود طبقہ تک ہی محدود رہتا ہے۔ ایک مسئلہ مہنگائی کا باہر سے آنے والی اشیا بھی ہیں جس کی وجہ امپورٹڈ مہنگائی بھی ہے اور لوگ ملک کی اشیا کے مقابلے میں باہر کی اشیا خریدنا چاہتے ہیں۔ لوگوں کا بنیادی مسئلہ مہنگائی کے تناظر میں بجلی، پٹرول، ڈیزل، گیس اور کچھ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ حکومت کے بقول ہم اگلے ماہ کمزور طبقات کے لیے احساس کارڈ جس کے تحت راشن، گھی، آٹا، چینی اور دالیں ملیں گی۔

18 ویں ترمیم کے بعد اصولی طور پر حکمرانی کے بحران کی کنجی وفاقی حکومت کے مقابلے میں صوبائی حکومتوں پر زیادہ عائد ہوتی ہے اور وہی اچھے یا برے کی اصل ذمہ دار بھی ہے۔ ہمارا مسئلہ کمزور صوبائی حکومتوں کا نظام ہے جس میں مہنگائی کے سدباب میں صوبائی حکومتوں کا کمزور کردار اور نا اہلی ہے۔ کیونکہ صوبائی حکومتوں کے پاس اپنے اپنے صوبہ میں ایک مربوط، خود مختار اور شفاف مقامی حکومتوں کا نظام کا نہ ہونا جو خود ان کی عدم ترجیحات کا شکار ہے مہنگائی کو قابو نہیں کیا جاسکتا۔

مہنگائی، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، گرانی پیدا کرنا اور قیمتوں میں ناجائز منافع خوری، اشیا کی کوالٹی کی نگرانی اور جوابدہی کا نظام جیسے معاملات مقامی حکومتوں کے نظام سے جڑا ہوا ہے۔ ہمارا ضلعی سطح پر سیاسی اور انتظامی نظام مکمل طور پر فرسودہ اور کرپشن سمیت نا اہلی کا شکار ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مہنگائی جیسے معاملات پر بھی سارا بوجھ صوبائی حکومتیں مرکزی سطح پر موجود حکومت پر ڈال کر خود کو بری الزمہ قرار دیتی ہیں۔ ہمارا مسئلہ مرکزیت کے مقابلے میں عدم مرکزیت یعنی زیادہ سے زیادہ سیاسی، مالی اور انتظامی اختیارات کی صوبائی سطح سے مقامی اضلاع میں منتقلی کے نظام سے جڑی ہے۔

تحریک انصاف کی مرکزی حکومت ہے اور دو صوبوں پنجاب و خیبر پختونخوا میں اسی جماعت کی حکومت ہے، جبکہ بلوچستان میں وہ مخلوط سطح کی حکومت کا حصہ ہے۔ جبکہ سندھ میں تیرہ برس سے مسلسل پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ اس لیے وفاقی حکومت اپنی صوبائی حکومتوں کی مدد سے مہنگائی اور بالخصوص بے جا مہنگائی کے نظام کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ اسی طرح وفاقی حکومت اپنی دو صوبائی حکومتوں کی جانب سے مقامی نظام کو کمزور کرنے پر بھی کوئی بڑا جوابدہ نہیں بنایا جا سکا۔

صوبائی حکومتیں اپنے ضلعی سطح کے نظام سے مارکیٹ کمیٹیاں، پرائس کنٹرول کمیٹیاں، نگرانی کے موثر نظام اور جو لوگ بھی ناجائز طور پر مہنگائی پیدا کر رہے ہیں ان کے خلاف کوئی بڑا قدم بھی دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایک طرف لوگ معاشی مسائل یا مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں تو دوسری طرف ہمیں حکومتی سطح پر بچت پر مبنی حکمرانی کا نظام بھی دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ مثال کے طور پر پنجاب کی سطح پر حکومت صوبائی وزرا، مشیر اور معاونین کے لیے 37 کے قریب نئی گاڑیوں کی خریداری کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ مجموعی طور پر حکمرانی کا نظام عملاً شاہانہ ہے اور لوگوں کو لگتا ہے کہ ایک طرف مہنگائی اور بے روزگاری تو دوسری طرف حکمرانوں کا شاہانہ انداز ایک واضح تضاد ہے جس کا عوام میں واقعی ردعمل پایا جاتا ہے۔

اس وقت وفاقی یا صوبائی حکومت کا بڑا چیلنج مہنگائی کا ہے۔ ملک میں مہنگائی کی صورتحال ایک غیر معمولی ہے اور اس کے لیے ٹھوس اقدامات بھی غیر معمولی ہونے چاہیے۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر چاروں صوبائی وزرائے اعلی کے ساتھ بیٹھ کر اس مسئلہ کا فوری حل تلاش کریں اور کچھ ایسے غیر معمولی اقدامات کریں جو لوگوں کو واقعی معاشی طور پر بڑا ریلیف دے سکیں۔ صوبائی حکومت اور ضلعی سطح پر موجود انتظامی نظام کے درمیان ایک مربوط نگرانی اور جوابدہی کی پالیسی واضح اور شفاف انداز میں نظر آنی چاہیے۔ سبسڈی کے نظام کو بھی شفاف بنانا ہو گا اور ان ہی لوگوں تک اس کی رسائی کو ممکن بنانا ہو گا جو واقعی اس کے مستحق ہیں اور جو لوگ مستحق نہیں ان کو بلاوجہ سبسڈی نظام کا حصہ نہ بنایا جائے۔

ہمارا معاشی نظام مجموعی طور پر عالمی مالیاتی نظام یا گلوبل معاشی نظام سے جڑا ہوا ہے۔ ہمارے پاس خود سے کچھ طے کرنے کے آپشن بھی محدود ہیں اور یہ عالمی نظام لوگوں پر بوجھ بن گیا ہے۔ دوسری طرف قومی سطح پر ہماری ترجیحات کا تعین اور غیر ترقیاتی اخراجات پر زیادہ زور دینے کی پالیسی سمیت وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، کرپشن، بدعنوانی کا غیر موثر نظام اور ملک میں روزگار کے محدود مواقع یا ملکی یا غیر ملکی سرمایہ میں کمی جیسے مسائل سمیت حکمرانی کے موثر اور جدید نظام سے عدم توجہی ہمارے سنگین مسائل ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمیں اپنی حکمرانی کے نظام میں ایک بڑی سرجری درکار ہے اور اس کے بغیر کچھ تبدیل نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments