سلطان عرف ”سٹی کورٹ کا مالک“ اور مہنگائی


سلطان عرف ”سٹی کورٹ کا مالک“ ایک دیوانہ قسم کا آدمی ہے وہ سٹی کورٹ میں اپنا اوڑھنا بچھونا رکھتے ہیں پٹے پرانے کپڑوں میں ایک خستہ حال بیگ کے ساتھ روز اپنے ساتھ اونچی آواز میں باتیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ وہ اس سٹی کورٹ کی زمین کا اصل مالک ہیں اور یہ سٹی کورٹ کی عمارت ان کے باپ دادا کی زمین پر تعمیر کی گئی ہے اس لئے کبھی کبھار لوگ ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں اور ان کو غصہ بھی دلاتے ہیں بلکہ یہ اب ان کی چھڑ بن چکی ہے کہ جب کوئی ان کے ساتھ خود کو سٹی کورٹ کے احاطے کا ہم شریک ظاہر کرتا ہے تو وہ اس پر بڑا شدید ردعمل دکھاتے ہیں اور پھر گھنٹوں گھنٹوں اونچی آواز میں اپنے ساتھ بولتے رہتے ہیں۔

ایک پرانا اخبار ان کے ہاتھ میں ہمہ وقت موجود رہتا ہے اور جس جگہ بیٹھ جائے اس اخبار کے اوپر لکیریں مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ صاف اور کھری باتیں پاگل کرتے ہیں یا پھر سادہ لوح۔ عام لوگوں کا سلطان کے بارے میں خیال ہے، جس طرح کہ ہمارے ملک میں اس طرح کے شخص کے بارے میں لوگ رکھتے ہیں کہ اس طرح کے بندے کو کسی ایجنسی کا بندہ سمجھتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب لوگ ان کو تنگ کرتے ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں کہ سلطان بتاؤ تم کس ایجنسی کے لئے کام کرتے ہو؟

اور تمھارا کس ایجنسی سے تعلق ہے؟ تو وہ فٹ سے بول پڑتے ہیں کہ ہاں میں ایجنسی کا بندہ ہوں میرا تعلق خیبر ایجنسی سے ہے جس سے سن کر لوگ الگ الگ طرح کی تفریح لیتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ روزمرہ حالات واقعات پر دل کھول کر اونچی آواز میں اپنے درویشانہ انداز میں بے لاگ تبصرہ کرتے رہتے ہیں نہ وہ ٹی وی دیکھتے ہیں اور نہ کوئی اور ان کے پاس سورس اف انفارمیشن سوائے اس خستہ حال اخبار کے ہوتا ہے جس پر یہ سلطان لکیریں کھینچتا رہتا ہے لیکن ہر واقعے کے بعد صبح یہ درویش منش سلطان اونچی آواز میں اس کے خلاف اپنے انداز میں تجزیاتی تبصرہ پیش کر ہاً ہوتا ہے اور لوگ ان کو دیوانہ سمجھ کر ایک دوسرے کو مسکرا کر ان کے پاس سے گزرتے جاتے ہیں۔

لیکن میں چند لمحوں کے لئے ان کے قریب کھڑا ہوجاتا ہوں لیکن ان پر یہ ظاہر نہیں کرتا ہوں کہ میں ان کی باتوں کو سننے کے لئے ہی کھڑا ہوں کیونکہ میں نے دیکھا ہے کی جب کوئی ان کے باتوں کو توجہ دیتا ہے تو پھر ان کے بولنے کا انداز بدل جاتا ہے۔ آج جب پیٹرول دس روپے مزید مہنگا ہو گیا تو سب لوگ اپنے اپنے خیالات کا اظہار احتجاجی لہجے میں کر رہے تھے لیکن آج سلطان بالکل خاموش تھا اور اپنے ساتھ بھی باتیں نہیں کر ہاً تھا۔

چلتے چلتے کسی بندے نے ان کو پن کیا ( یہ جب بولتے ہیں تو وہاں عام لوگوں کا کہنا ہوتا ہے کہ آج پھر کسی نے سلطان کو پن کیا ہے ) اور پیٹرول۔ گھی اور بجلی کی مہنگائی پر خاموشی کا طعنہ دیا جس پر سلطان جو غضبناک ہوئے اس سے پہلے میں نے سلطان کو اس حالت میں بولتے ہوئے کبھی نہ سنا اور نہ دیکھا تھا۔ سلطان بولا میں کب تک تم لوگوں کے لئے زندہ رہوں گا۔ تم لوگ بولتے کیوں نہیں، کھاتے پیتے تم ہو بجلی گیس تم استعمال کرتے ہو۔

لیکن تم سب خاموش ہو۔ فلسطین میں کوئی واقعی ہوجاتا ہے تو تم سب یہاں سراپا احتجاج ہو جاتے ہو، ڈنمارک میں واقعہ ہوجاتا ہے تم یہاں اپنے املاک کو گراتے اور جلاتے ہو۔ اپنی سیاسی پارٹیوں کے جلسے جلوسوں میں سارے جوک در جوک نکلتے ہو راستے اور سڑکوں کو گھنٹوں گھنٹوں بند کرتے ہو۔ مسلکی بنیادوں پر ہر جلسے جلوسوں میں دنوں دنوں اور ہفتوں ہفتوں دھرنے دیتے ہو۔ اس طرح وطن پرستی اور قوم پرستی کے نام پرایک ہی اعلان پر اکٹھے ہو جاتے ہو اگر عقیدہ، مسلک، نظریہ، قوم پرستی اور وطن پرستی اپ لوگوں کا مجموعی مسئلہ بن سکتا ہے تو کیا یہ مہنگائی آپ لوگوں کا اجتماعی مسئلہ نہیں کیا مہنگائی تم میں سے برسر اقتدار یا کسی خاص مسلک مذہب وطن یا قوم کا فرق کرتی ہے یا سب پر ایک طرح سے نافذالعمل ہوتی ہے اگر سب پر ایک طرح نافذالعمل ہوتی ہے تو پر اس کے خلاف اکٹھے کیوں نہیں ہوتے ہو اس کے خلاف یکجا ہو کر کیوں آواز اٹھا نہیں دیتے ہو یا تمھارے لئے آواز اٹھانے کے لئے کوئی اور لوگ کسی اور دنیا سے آئیں گے مہنگائی کے خلاف آواز اٹھانے میں تم پر کسی مسک، کسی مذہب کسی عقیدے کسی وطن اور کسی قوم کا لیبل بھی نہیں لگتا اور یہ صرف اور صرف انسانی مسئلہ ہے اور انسانیت کی بات ہے اور جب انسان زندہ ہوتا ہے تو انسان کہلاتا ہے جب وہ بولتا اور عمل میں دکھائی دیتا ہے تو انسان کہلاتا ہے ورنہ خاموش بے عمل بے حرکت جسم کو مردہ کہا جاتا ہے اور مردوں کو کھانے پینے کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ وہ احتجاج کرتے ہیں اب یہ تم پر ہے کہ تم مردے بنتے ہو یا پھر جیتے جاگتے انسان۔ جو لوگ سلطان کی ان دیوانہ باتوں کو سننے کے لئے وہاں جمع ہو گئے تھے سب ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگے کہ ہے تو دیوانہ پر بول ٹھیک رہا ہے اور ایک ایک کر کے مجمع چھوڑ کر نکل رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments