دس کتابوں کا قصہ


مبین سے میری دوستی یونیورسٹی کے زمانے میں ہوئی۔ مگر میں اسے کالج کے وقت سے جانتا تھا۔ ہم دونوں کا تعلق ایک ہی شہر سے تھا۔ انجینئرنگ اور اس کے بعد کئی ہوسٹلوں میں ہم ساتھ رہے۔ سو ہماری رہائش، کھانا پینا اور آنا جانا ایک ساتھ تھا۔ یوں ہماری دوستی زیادہ گہری اور بے تکلف ہو گئی۔

کہیں جاتے ہوئے کتابوں کے اسٹور دیکھ کر میں اکثر غائب ہو جاتا۔ مبین سمیت میری یہ عادت میرے دوسرے دوستوں اور کزنوں کو ناگوار گزرتی۔ میں عادت سے مجبور تھا۔ وہ بھی مجبوراً اندر آ جاتے۔ میں کتابوں کو دیکھ کر اپنی علمی پیاس بجھاتا۔ اور وہ کتابوں کے صفحے الٹ پلٹ کر زہر مار کرتے۔

تعلیم کے بعد میں نے ایک جاب شروع کر دی۔ اور مبین نے اپنا سیٹ اپ لگا لیا۔ میں ایک بڑی سی کمپنی میں ایک چھوٹے سے عہدے پر تھا اور مبین ایک چھوٹی کمپنی میں ایک بڑے عہدے پر۔ میں نے ائرپورٹ کے پاس گھر لے لیا اور مبین نے ٹھوکر کے قریب۔ یوں ہم شہر کے دو مختلف کونوں میں بس گئے۔ ہمارا ملنا جلنا بھی کم ہو گیا۔

ایک روز مبین مجھ سے ملنے آیا۔ میری ٹیبل پر ”پر اثر لوگوں کی سات عادات“ دیکھ کر اس نے آج پڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے اسے بخوشی کتاب ساتھ لے جانا کا کہا۔ کچھ دیر ہم گاڑی میں بے مقصد سڑکوں پر گھومتے رہے۔ پھر اس نے مجھے گھر ڈراپ کر دیا۔ میں گاڑی سے اترنے لگا تھا کہ مبین بولا، ”یار تم بہت کتابیں پڑھتے ہو۔ مجھے بھی کچھ اچھی کتابیں تجویز کرو۔ میں پڑھنا چاہتا ہوں۔“

سامنے گاڑی کے ڈیک پر ”پر اثر لوگوں کی سات عادات“ پڑی ہوئی تھی۔ یہ میں نے پچھلے سال پنجاب یونیورسٹی کے سالانہ بک فیئر سے خریدی تھی۔ اور بالکل نئی کنڈیشن میں تھی۔ مجھے مبین کی بات سن کر خوش گوار حیرت ہوئی۔ میں نے اسے کہا کہ میں تمہیں دس کتابوں کی ایک لسٹ بنا کر دیتا ہوں۔ میں کتابیں خریدنے میں بھی تمہاری مدد کر سکتا ہوں۔ وہ بخوشی راضی ہو گیا۔

”میں پڑھنا چاہتا ہوں۔“ مبین نے یہ الفاظ ایسے انداز میں کہے کہ گویا وہ کسی مشکل میں ہو۔ ایک پیاسے کی طرح جو خود چل کر کنویں کی طرف آیا ہو۔ سو میں نے سوچا کہ مجھے جلد مبین کی مدد کرنی چاہیے۔ ایک کتاب تو میں اسے پہلے ہی دے چکا تھا۔ باقی صرف نو کتابوں کا مسئلہ تھا۔

میں اپنی کتابیں بہت سنبھال کے رکھتا تھا۔ مجھے ”پر اثر لوگوں کی سات عادات“ پر ترس آنے لگا۔ جب یہ کتاب مجھے واپس ملے گی تو شاید اس کی کنڈیشن نئی نہیں رہے گی۔ اس پر جگہ جگہ ہائی لائٹس اور نوٹس کا اضافہ ہو چکا ہو گا۔ پھر مبین کی حالیہ شدت کو دیکھتے ہوئے، وہ اگر دن رات، اٹھتے بیٹھتے یہ کتاب پڑھے گا تو پیپر بیک کے صفحے ڈھیلے پڑ جائیں گے۔ دوست کے نئے شوق کی آبیاری کے لیے مجھے کتاب کی قربانی منظور تھی۔ اور میں کتابوں کی تلاش میں لگ گیا۔

میں نے کتابوں کی جو لسٹ مبین کے پڑھنے کے لئے تیار کی ان کے نام نیچے دیے گئے ہیں۔
The 7 Habits of Highly Effective People by Stephen R. Covey
Animal Farm by George Orwell
The Clash of Civilizations by Samuel P. Huntington
Thinking Fast and Slow by Daniel Kahneman
The Age of Faith by Will Durant
Men Are from Mars, Women Are from Venus by John Gray
Education and the Social Order by Bertrand Russell
Getting Things Done by David Allen
Man ’s Search for Meaning by Viktor E. Frankl
The 10 Rules of Happiness by Mridula Agarwal

کتابوں تو بہت سی تھیں۔ ہر کیٹگری کی بہت سی کتابیں ذہن میں آ رہی تھیں۔ مگر مجھے دس کتابیں تک محدود رہنا تھا۔ نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ۔ مجھے یہ بھی ذہن میں رکھنا تھا کہ یہ کتابیں مبین پڑھے گا۔ اس نے یقیناً ساری عمر ٹیکسٹ بکس کے علاوہ کوئی کتاب نہیں پڑھی ہوگی۔ اور اب ایک دم کسی نامعلوم وجہ سے اس میں پڑھنے کا جوش پیدا ہوا تھا۔ سو میں نے بہت سی کتابیں خواہش کے برعکس ڈراپ کر دیں۔

میں نے سوچا کہ میں کہیں جا تھوڑی رہا ہوں۔ ابھی یہ کتابیں مبین کو پڑھنے کے لیے دیتا ہوں۔ پہلے وہ یہ پڑھ لے، پھر اسے کتابیں پڑھنے کے لیے مل جائیں گی۔ میں نے اس کی ہر طرح کی مدد کے لیے پختہ عزم باندھ لیا تھا۔

اور پھر میں نے واٹس ایپ پر اسے لسٹ میسج کر دی۔ چیٹ ونڈو میرے سامنے کھلی ہوئی تھی۔ پانچ سیکنڈ کے بعد میسج اسے موصول ہو گیا۔ وہ آن لائن تھا۔ پانچ سیکنڈ کے بعد اس نے میسج سین کر لیا۔ میرے میسج کے جواب میں اس نے کچھ ٹائپ بھی کیا۔ مگر ڈیلیٹ کر دیا اور کچھ نہیں بھیجا۔

میں نے سوچا کہ ہو سکتا ہے غلطی سے کچھ پریس ہو گیا ہو۔ یا پھر وہ پہلے تسلی سے لسٹ دیکھے گا اور پھر اپنے تاثرات کا اظہار کرے گا۔ میں اسے پورا وقت دینا چاہتا تھا۔ شکریہ، تھینک یو اور مہربانی والا ہمارا رشتہ تھا نہیں۔

بات آئی گئی ہو گئی۔ کچھ دن بعد مجھے مبین کی کال آ گئی۔ ”ہیلو، یار میں تھوڑی دیر میں تمہارے گھر کے پاس سے گزروں گا۔ تم تیار رہنا۔ میں کھڑے کھڑے نکل جاؤں گا،“ وہ بولا۔ ”اوکے،“ میں نے صبر و شکر کے ساتھ جواب دیا۔

تھوڑی دیر بعد مبین آ گیا۔ اس نے مجھے گاڑی میں ہی بلا لیا۔ ہم نے ایک دوسرے سے حال احوال پوچھا۔ پھر وہ چلنے کی اجازت چاہنے لگا۔ میں دروازہ کھول کر باہر آ گیا۔ ”اچھا، یہ کتاب رکھ لو۔ خدا حافظ،“ اس نے گاڑی کو ریس دی دی۔ ”پر اثر لوگوں کی سات عادات“ بالکل نئی کنڈیشن کے ساتھ میرے ہاتھ میں تھی۔ یقیناً مبین نے اسے کھول کر بھی نہیں دیکھا تھا۔ اور دس کتابوں کی لسٹ کے بارے میں بات کرنے کا تو موقع ہی نہیں ملا۔

فرحان خالد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

فرحان خالد

فرحان خالد تعلیمی اعتبار سے انجنیئر ہیں. ایک دہائی سے سافٹ ویئر انڈسٹری سے منسلک ہیں. بچپن سے انہیں مصوری، رائٹنگ اور کتابیں پڑھنے کا شوق ہے. ادب اور آرٹ کے شیدائی ہیں.

farhan-khalid has 40 posts and counting.See all posts by farhan-khalid

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments