مہنگائی: اب تو دریا، کوئی جھرنا، کوئی برکھا مولا!


میں عوام ہوں، وہ بھوکی پیاسی، غربت کی ماری پبلک، میں وہ ہوں جس کو کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملا۔ ہر فرد نے مجھے اپنی مرضی کے خواب دکھا کر مجھے اپنے مفادات پر قربان کر دیا۔ کبھی وطنیت لے نام پر تو کبھی اسلام کے نام پر میرے حصے بخرے کیے گئے۔ مجھے کبھی روٹی، کپڑا، اور مکان کے نام پر بہلایا گیا تو کبھی ڈنڈے کے زور پر بھوکا رکھا گیا۔ کبھی اسلام کے نام پر لوٹا گیا تو کبھی تبدیلی کے نام پر بھوک کے روزے رکھوائے گئے۔

تقسیم سے لے کر آج تک ہر آنے والے حاکم نہ صرف کفن چور نکلے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ میری پیٹھ پر ایک ڈنڈا بھی رسید کرتے گئے۔ میں وہ کماؤ پوت ہوں، جس کی خون پسینے کی کمائی سے نہ صرف حاکم وقت نے اپنی تجوریاں بھریں بلکہ میرا تن، من، دھن اغیار کے پاس گروی رکھوا کر اپنے گھوڑوں اور کتوں کا راتب لیتے رہے۔ کسی نے جزیرے خریدے تو کسی نے آف شور کمپنیاں بنا لیں۔ میرا گھر کا سارا اثاثہ جس کے ہاتھ لگتا ہے وہ اٹھا کر چلتا بنتا ہے لیکن سرائیکی کی ایک مثال ہے کہ ”گھا، نت ساوا تے گھاہی نت بکھا“ یعنی گھاس ہمیشہ سرسبز رہتی ہے لیکن اس کو کاٹ کر کھانے والے ہمیشہ بھوکا رہتا ہے۔ اس ملک کی غریب عوام کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا ہے، لوٹنے والے قلیل المدت منصوبے لے کر آتے ہیں، سبز باغ دکھاتے ہیں اور لوٹ کریہ جا وہ جا، لیکن کسی نے بھی عوام کی پیٹھ پر مزدوری کے داغ اور ہاتھوں کے چھالوں پر مرہم رکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی 74 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ اشرافیہ نے عوام کو ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے ساتھ ساتھ ان کی جمع پونجی پر اس قدر مہارت سے ہاتھ صاف کیا کہ وہ ہمیشہ ہاتھ ملتے رہ گئے اور اشرافیہ اور حاکمین وقت کے خزانوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ خواب خرگوش کے مزے لوٹتی عوام کو خبر اس وقت ہوتی ہے جب غیر ملکی میڈیا ہمارے حکمرانوں کے کرتوتوں سے کبھی پانا مہ لیکس تو کبھی پنڈورا لیکس کی صورت میں پردہ اٹھاتا ہے۔

موجودہ حکمران کو بھی جب پلیٹ میں رکھ کر اقتدار یوں پیش کیا گیا کہ کنٹینر کی تقریروں کے ذریعے عوام کو ان کے بلند بانگ دعوؤں اور معیشت سدھار فارمولہ جات پر مبنی بیانات کو میڈیا کے ذریعے عوام کے دماغ میں نقش کر دیا گیا کہ اب قوم کو ایک ایسا مصلح اور ایمان دار حکمران ملنے والا ہے جس کے ہاتھ میں جادو کی چھڑی ہے اور اس کے قبضے میں اللہ دین کے چراغ کا جن ہے، جس نے آپ کے ہر مسئلے کو چٹکی بجاتے ہی حل کر دینا ہے۔

جیسے ہی کپتان اقتدار میں آئے تو این آر او نہیں دوں گا، چوروں کو نہیں چھوڑوں گا، سابقہ کرپٹ حکمرانوں سے ایک ایک پائی وصول کریں گے جیسے شور دار بیانات سے عوام کو نہ صرف جینے کی امنگ دی بلکہ مجھے آج تک واشنگٹن کی وہ تقریر یاد ہے جس میں کپتان نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان جاتے ہی ان کے زندان سے ٹیلی ویژن اور ائر کنڈیشنر اتروا دوں گا، یہ چیزیں اتارنا تو کجا چور 50 روپے کے سٹامپ پیپر پر سانپ کی طرح نکل گئے اور ہمارے پر جوش عوام لکیر پیٹتے رہ گئے۔

اب چوروں کی لوٹی ہوئی دولت کا حساب عوام سے مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھر مار کی صورت میں یوں وصول کیا گیا کہ اشیائے صرف کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں، آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کی چھ ماہ کی بے جا ضد نے ہمارے ملک کی معیشت کا بھرکس نکال دیا جس کا سارا نزلہ غریب اور سفید پوش طبقے پر پڑا، میں اس بات کا گواہ ہوں کہ میں نے مزدور، دیہاڑی دار اور رکشہ ڈائیور حضرات کے منہ سے سوائے بد دعاؤں کے، موجودہ حکمران طبقے کے لئے کبھی اچھے الفاظ نہیں سنے۔

بجلی، گیس، ایل پی جی اور سی این جی کی قیمتیں جب آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی تو لامحالہ اس کا اثر روزمرہ کی اشیائے صرف مثلاً گھی، چینی، صابن، سرف۔ دالوں اور سبزیات پر پڑے گا۔ جس کا نتیجہ افراط زر اور مہنگائی کی صورت میں نکلے گا لیکن صبر کریں ہمارا موجودہ حکمران تو ایمان دار ہے ناں! آپ چاہے بھوکے مر جائیں لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ ہمارا حکمران ایک وجیہہ شخص ہے جس نے پوری دنیا میں اپنی تقریروں سے دھاک بٹھائی ہوئی ہے۔

ہمارے لئے زندگی بچانے والی ادویات 200 سے 400 فیصد تک مہنگی ہوجائیں تو کوئی بات نہیں، ہم تو صرف اس آس پر زندہ ہیں کہ سابقہ کرپٹ حکمران عنقریب انصاف کے کٹہرے میں ہوں گے۔ لیکن یاد رکھیں تاریخ کسی کی معاف نہیں کرتی، اپنے کیے کی سزا ہر شخص اس دنیا میں ہی پا کر جاتا ہے۔ اوپر والے کی انصاف کی چکی گو دیر سے اور دھیرے دھیرے چلتی ہے لیکن وہ پیستی باریک ہے۔

دنیا کے ایک گلوبل ویلج بننے اور انٹر نیٹ کے تعارف کے ساتھ سوشل میڈیا کے میدان عمل میں آنے سے نہ صرف دھوکہ دہی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا بلکہ کمپیوٹر بوٹ کے ذریعے اپنی مرضی کے پراپیگنڈہ کو وائرل کرنے جیسے جدید ہتھکنڈے بھی سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ ادوار میں مہنگائی ہوتی تھی تو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ اپنی مرضی کی حکومت لانے اور گرانے والی خفیہ قوتیں بھی فعال ہو جاتی تھیں لیکن جب سہاگن ہی پیا من بھانے والی ہو تو اس کی ناقص کارکردگی کو بھی مختلف ہیلوں بہانوں سے چھپانے کی بھر پور سعی کی جاتی ہے۔

جیسا کہ پٹرول کو مہنگا کرنے میں عالمی معیشت کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے جبکہ کسی نے بھی عوام کی آمدنی اور مزدور کی دیہاڑی پر کوئی بحث نہیں کی اور نہ ہی عوام کے معیار زندگی موضوع بحث بنایا ہے۔ ہمیں مثالیں تو یورپ جیسے پر امن اور معاشی طور پر مستحکم ملک کی دی جاتی ہیں لیکن زمینی حقائق پر بات کرنے اور سننے والا کوئی نہیں ہے۔ اگر ہم سابقہ ادوار میں مہنگائی کا موازنہ موجودہ حکومت کے دور سے کریں تو ہم دیکھیں گے کہ جولائی 2018 سے اب تک بجلی کے نرخ میں 40 فیصد اضافہ کیا گیا۔

حکومتی ذرائع کے مطابق بجلی کے بنیادی نرخ 2018 ء میں 11 روپے 72 پیسے تھے جو اب 4 روپے 72 پیسے کے اضافے کے بعد 16 روپے 44 پیسے ہو چکے ہیں، مزید شنید یہ ہے کہ عنقریب بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہونے والا ہے۔ اس کے علاوہ مئی 2018 میں پٹرول کی قیمت 87.76 روپے فی لیٹر تھی اور آج 138.10 روپے فی لیٹر ہے۔ جبکہ 2013 ء میں نواز شریف دور میں پٹرول کی قیمت 62.81 روپے سے بڑھنا شروع ہوئی تھی

سی این جی گیس کی قیمت مئی 2018 ء میں 81.70 روپے فی لیٹر تھی جب کہ اب وہی سی این جی ہمیں 124.30 فی لیٹر مل رہی ہے

چینی کی قیمت 56.99 روپے فی کلو گرام تھی جو اب بڑھ کر 110 روپے فی کلو گرام ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ ضروریات زندگی کی ہر چیز ڈالر کی قیمت بڑھنے سے بڑھی ہے اور کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو صارف کو کم قیمت پر دستیاب ہو۔

پرانے زمانے سے ایک لطیفہ سنتے آ رہے ہیں کہ کسی ملک کے بادشاہ کی وفات کے بعد اس کا کوئی وارث نہیں تھا تو فیصلہ کیا گیا کہ صبح صبح فصیل شہر میں داخل ہونے والے شخص کو بادشاہ بنا دیا جائے، صبح جیسے ہی ایک گدا گر شہر میں داخل ہوا تو مبارک سلامت کی صدا میں اس کے سر پر بادشاہت کا تاج سجا دیا گیا۔ بادشاہ سلامت نے عوام کو مطمئن کرنے کے لئے ایک پر جوش تقریر کی اور ان کے تمام مسائل کے حل کی یقین دہانی یوں کروائی کہ عنقریب پورے ملک میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوں گی۔

ہر طرف امن ہی امن ہو گا۔ چوروں اور لٹیروں کو ان کے کیے کی بھرپور سزا دی جائے گی اور لوٹ گیا مال ان کے پیٹ سے برآمد کروایا جائے گا اور ساتھ ہی حکم دیا کہ حلوے کی دیگیں پکائی جائیں، کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ہمسایہ ممالک کی نظر ملکی سیاست پہ تھی اس لئے دشمن بادشاہ نے دارالخلافہ کی طرف پیش قدمی شروع کی۔ نئے بادشاہ سلامت کے چند مشیران اور دانش مندان و خیر خواہان قوم نے بادشاہ سلامت کو نیند سے خبردار کیا کہ امتحان کی گھڑی ہے کچھ کریں لیکن بادشاہ سلامت بضد تھے کہ حلوہ پکایا جائے۔

ادھر غنیم فصیل شہر تک پہنچے اور ادھر حلوہ بھی تیار ہو گیا۔ بادشاہ سلامت نے بجائے تلوار سونت کر میدان عمل میں کودنے کے، حکم شاہی صادر کیا کہ حلوہ لایا جائے، شاہی دستر خوان پر مختلف میوہ جات سے سجا حلوہ پیش کیا گیا۔ بادشاہ سلامت نے پیٹ بھر کر حلوہ کھایا اور باقی ماندہ اپنے کشکول اور گدڑی میں ڈالا اور مشیروں وزیروں کو ایک کمرے میں جمع کر کے جانے کی اجازت چاہی اور کہنے لگا ”ہماری بادشاہت بس اسی حد تک تھی، ہم حلوہ کھانے آئے تھے، وہ کھا چکے، اب اجازت دیں، آپ جانیں اور آپ کا ملک جانے“ مجھے بھی اب بس یہی خوف ہے کہ موجودہ حاکم کے پانچ سال پورے ہونے کے بعد پھر ساری ذمہ داری ہم عوام کے نازک شانوں پر پڑنے والی ہے اور اولین اپنی ناقص کارکردگی کا مورد الزام سابقین کو ٹھہرا کر ہمیں اپنے ظلم کی چکی میں یونہی پیستے رہیں۔ اب تو پورے ملک کا پسا ہوا طبقہ یہی کہتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

عمر کی شام ہوئی اور میں پیاسا مولا!
اب تو دریا، کوئی جھرنا، کوئی برکھا مولا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments