دادا، میرا بچپن اور …. قضیہ ایک کتے کا!


 میں تیسری جماعت میں تھا ۔ ہمارا گھر ایک ڈھوک یا جھوک تھی یعنی گاﺅں سے دور کھیتوں اور درختوں میں کہ جہاں چار دیواری نہیں تھی اور یوں ہمارا صحن افق تک پھیلا تھا۔ اسکول بھی ڈھوک طرز پر ہی دو کچے کمرے تھے۔ اسکول جانے کے لیے کپڑے سے بنا ایک جھولا نما بستہ جو کاندھے پر لٹکانے کے باوجود زمین پر گھسٹتا، اس کے اند ر ایک تختی جو چلتے وقت گھٹنوں سے ٹکراتی رہتی اور ایک گندم کی خالی بوری ہوتی جس کو اسکول میں بچھا کر بیٹھا جاتا۔ کچھ کھیتوں اوردرختوں کے جھنڈ عبور کرنے کے بعد اسکول آ جاتا۔

میں اسکول سے واپس آتا تو کتاب نکال کر دادا کو ڈھونڈتا جو دور کہیں جانوروں کو چرانے گیا ہوتا۔ دادا 1947ءتک فوج میں رہے اور اس کے بعد گاﺅں آکر زمین سنبھالی اور علاقے سے باہر نہیں گئے۔ ڈھوک کے آس پاس مسجد بھی نہیں تھی کہ چلیے مولوی کی کچھ سن لیں یا کچھ لوگوں سے ملاقات ہی ہو جائے۔

البتہ جمعہ پڑھنے گدھے پر بیٹھ کر چھ کلومیٹر دور گاﺅں جاتے جو اس وقت بمشکل 60 گھروں پر مشتمل ہو گا اور اس گاﺅں میں کچھ دکانیں تھیں اور 60 گھروں کی وجہ سے گلیاں بن گئیں تھیں جن کو ہم حیرت سے دیکھتے تھے ۔ یہاں تک یاد ہے کہ ڈھوکوں سے اگر کوئی گاﺅں جاتا تو کہا جاتا کہ وہ ’شہر‘ گیا ہوا ہے ۔ وہ ہمارے لیے کسی شہر سے کم کیوں ہو کہ جہاں دکانیں تھیں اور ان میں مالٹے والی ٹافیوں کی مہک آتی تھی ۔اور جہاں کی خواتین مہندی اور دنداسے لگاتی تھیں۔

چھوڑیے۔۔میں اسکول سے واپس آ کر دادا کو ڈھونڈتا جو جوہڑ کے پیچھے ایک جنگل میں مجھے مل جاتا ‘ دادا مجھے دور سے دیکھتے ہی ہوا میں بازو پھیلاتا اور کہتا۔۔اوہ دیکھو دیکھو میرا پوتا آ گیا ۔۔دوست آگیا!

دادا کے پاس فوج میں نوکری کی بہت سی معصوم کہانیا ں تھیں لیکن ’کتابوں والی باتوں‘ کا علم نہیں تھا ‘

پوتا تیسری جماعت میں تھا تو سوچیے کیا کچھ پڑھ چکا ہو گا ‘ دادا ان پڑھ تھے لیکن میری کتابوں اور ان پر چھپی تصویروں کو غور سے دیکھتے تھے ۔

۔۔۔اور اسکول بھیجے جانے والے بچوں سے کیا امیدیں وابستہ ہوتی تھیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب میں چھٹی جماعت میں گیا تو میری امی بہت خوش تھیں کہ گاﺅں میں ہر خاص و عام کو پتہ تھا کہ چھٹی جماعت سے انگریزی زبان بھی تدریس کا حصہ بن جاتی ہے ۔ تو مجھے یاد ہے چھٹی جماعت میں پہلا دن گزارنے کے بعد جب میں گھر واپس گیا تو ریڈیو پر انگریزی خبریں چل رہیں تھیں اور میری امی نے مجھ سے پوچھا یہ کیا کہہ رہا ہے؟ میں نے کہا مجھے کیا معلوم؟

تو امی نے تیوری چڑھاتے ہوئے کہا کہ چھٹی سے انگریزی پڑھا دی جاتی ہے اور تم خاک پڑھ کر آئے ہو۔۔

تو دادا کو بھی پوتے پر کچھ مان یقینا ہوں گے۔ میں دادا کو کتابوں سے کہانیاں سناتا جو وہ کمال توجہ سے سنتے ، میں سناتا کہ حضرت علی ؓنے کیسے خیبر کا دروازہ اکھاڑ دیا اور دادا جذباتی ہو جاتے۔ ان کی آنکھوں میں نمی تیرتی اور تھوڑی کانپنا شروع ہو جاتی ۔ میں کہتا کہ ’ حضرت علیؓ نے شجاعت کا عظیم مظاہرہ کیا۔ اور سچ پوچھیے تو لفظ ’شجاعت ‘ مجھے بہت اچھا لگتا تھا ۔ یہاں تک کہ لفظ ’شجاعت‘ کے حسن اور جلال کی تاب نہ لاتے ہوئے میں کتاب کو ایک ہاتھ میں بند کرتا اور دوسرے ہاتھ سے ہوا میں چھڑی کو تلوار فرض کر کے چلاتا اور ’ہو ہا‘ کی آوازیں نکالتا اور یہ عملی مظاہرہ صرف اس لیے کرتا تاکہ دادا لفظ ’شجاعت‘ کو ہلکا نہ لے۔

میرے بار بار ان عملی مظاہروں سے جلد ہی میں اور دادا ۔۔لفظ ’شجاعت‘ کے برابر مداح ہو گئے۔

دادا کو حضرت عمرؓ اور نبی پاکﷺ کی باتیں سناتا ‘ وہ ساتھ ساتھ چارے پر ٹوکہ چلاتے رہتے اور سنتے رہتے۔ چند ہی تو ’سبق‘ تھے ۔ نہ ان کو بار بار دہرانے سے کبھی میں تھکا اور نہ ہی دادا بار بار سننے سے تھکے۔ ان کی اپنی فرمائش اکثر ’شیر خدا‘ سننے کی ہوتی جو حضرت علیؓ کے حوالے سے ایک’ سبق‘ تھا۔

رات کو دادا کی چارپائی کھیتوں میں بچھتی اور میں دادا کے پاس ہی سوتا تھا۔ شایدمیں آج فرنگی لباس پہنے دفتر میں کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا ، پاﺅڈر والے چائے کی سڑکیاں لیتا اس تجربے کو بیان کرنے سے قاصرہی ہوں کہ تاروں بھرے آسمان کے نیچے پسینے کی خوشبو لیے محنت کش دادا کے پاس سونا کیسا تجربہ تھا۔ چاند نکلتا تو کس دھج سے نکلتا۔ خاموشی ایسی کہ دادا پوتا ایک دوسرے کی سانسوں کی آواز میں تمیز نہ کر سکتے۔ اس خاموشی کو دور کبھی کوئی گیدڑ توڑتا۔

صبح ہوتی تو سورج کی تاب دیکھنے والی ہوتی ۔

کھیتوں میں موجود گھر وںمیں جو صبح اترتی ہے وہ بہت نڈر ہو کر اترتی ہے ۔

پاﺅں پاﺅں نہیں اترتی ۔بے دریغ اترتی ہے

ایسے اترتی ہے جیسے رگ وید میں اترتی ہے۔

صبح اپنی سرخ اور سنہری روشنیاں آسمان پر نچھاور کر رہی ہے۔ صبح ایک دور کے محل سے ایک رتھ میں بیٹھ کر نیچے اترتی ہے اس کے رتھ کو بیس گائیں کھینچتی ہیں

سب سے پہلے بستروں سے اٹھنے والی خواتین ایمر جنسی نافذ کر دیتی تھیں ۔

دن کے چوبیس گھنٹوں میں یہ وہ واحد وقت تھا جب ان کی رفتاردیکھنے قابل ہوتی ۔

دادی کو دہی بلوہنے کی فکر ہوتی تو بہوئیں بستر سنبھال رہی ہوتیں۔ بابا پانی لانے کے لیے کنویں پر جانے کی تیاری میں مصروف ہو جاتا۔

ایسے ہی ایک گمان ہے کہ فطرت اپنے ہاتھوں بنائے گڈے ، گڈیوں کو حرکت میں دیکھتے خوش ہوتی ہو گی۔

مرغیوں کو ڈربے سے نکالا جاتا تو ایک اور ہی قیامت آ جاتی۔ مرغی اپنے چوزوں کے ساتھ جیسے ہی پنجرے سے نکلتی تو ناک کی سیدھ میں کچھ وقت کے لیے میرا تھن دوڑتی ۔ کہیں پچاس میٹرکے بعد ہی اس کو مشکل سے یقین آتا کہ وہ پنجرے سے آزاد ہو چکی ہے۔

میرے مرغ دوست چاہے پنجرے کے اندر ہوں یا باہر ۔ہمیشہ ایک رکھ رکھاﺅ رکھتے ۔ایک دل پذیر چال کے ساتھ پنجرے سے باہر آتے اور بھاگتی مرغی اور چوزوں کی اس بے صبری اور ہلڑ بازی کو ناقدانہ انداز سے دیکھتے۔

کتا صبح صبح بھاگنے میں کچھ اس لیے سر گرم دکھائی دیتا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ اس کے باندھے جانے کا وقت قریب آچکا ہے۔

یا شاید وہ مالکوں کو بتانا چاہتا تھا کہ اس نے رات اسی مستعدی سے چوکیداری کی ہے۔

ہر ڈھوک پر ایک افرا تفری کا عالم ہوتا۔

مرغ سمجھتا تھا کہ اس ساری قیامت کی ذمہ دار مرغی اور اس کے چوزوں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ تھا ۔

میں سمجھتا تھا کہ کنویں سے پانی بھرنے کے لیے جاتے ٹین بجاتے گدھے اور خواتین کی اچانک نافذ کی گئی ایمر جنسی اس کا سبب تھی۔

لیکن پانی کے چند چھینٹے چہرے پر مارنے کے بعد کائنات تھم سی جاتی۔

رنگ واضح ہو جاتے اور چائے کا پہلا گھونٹ حلق سے نیچے اترتے ہی جانوروں کی ہلڑ بازی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی رنجش ختم ہو جاتی۔

اف بات کہاں کی کہاں نکل گئی

رات کو سونے سے پہلے دادا مجھے نماز زبانی یاد کرواتے اور سبق کے بعد میری فرمائش ہوتی کہ بابا امرتسر اور فیروز پور کی کہانیاں سناﺅ ۔ان شہروں میں بابا جوانی میں فوجی نوکری کے حوالے سے تعینات رہے۔ مجھے آج بھی لاہور میں فیروز پور روڈ سے خاص انسیت ہے کہ فیروز پور کا نام دادا سے بھی سنا اور اپنی کم گو دادی سے بھی ۔

دادی کو دادا ایک دفعہ ساتھ فیروز پور لے گئے تھے تو یوں دادی کی ستر سالہ زندگی میں فیروز پور ۔۔گاﺅں سے باہر وہ واحدتجربہ تھا۔ میں سوچتا ہوں کہ میری سادہ جنت مکانی دادی نے جب ٹرین دیکھی ہو گی یا بڑے شہر دیکھے ہوں گے تو بچوں کی طرح اس کے چہرے پر کیسے حیرت والے تاثرات بکھرے ہوں گے۔

یاد آ تا ہے کہ تاحد نظر بارانی کھیتوں میں ستر سالہ دادے اپنے پانچ سالہ پوتوں کو کندھوں پر بیٹھائے ہل چلاتے تھے عمروں میں ساٹھ پینسٹھ برس کا فرق، زندگی کو دیکھنے اور سونگھنے کے اندازکو کس قدر بدل دیتا ہے ۔ ۔۔ہل میں جکڑے بیل اس حقیقت سے واقف نہیں تھے۔

وہ توسر نیہوڑے کھیت میں لکیروںکی تعداد پوری کرنے میں لگے تھے۔

جتے ہوئے بیلوں کو دادا کی دی جانے والی مخصوص ٹٹکاری مجھے اچھی طرح یاد ہے۔

”تہہ تہہ تہہ سجے سجے تہہ تہہ تہہ شابا تہہ تہہ داندا“

دادا کے ایک ہاتھ میں ہل اور دوسرے ہاتھ میں وہ دانے ہوتے جو وہ کمر سے باندھی پوٹلی میں سے نکالتا اور نالی میں ڈالتا تھا۔ ہر تھوڑے وقفے کے بعد آسمان پر ٹٹیری ظاہر ہو کے پانی کے لیے فریاد کرتی اور میں ہر دفعہ افق کی طرف بادلوں کی تلاش میں دیکھتا۔ ٹٹیری غائب ہو جاتی اور میں پہلے سے بھی زیادہ مضبوطی سے دادا کے سر پر بندھی پگڑی کو پکڑ لیتا،

 میری دونوں ٹانگیں دادا کی گردن کے گردتوریوں کی طرح لٹک رہی ہوتیں ۔

تازہ ہل چلائی مٹی سے اٹھتی سوندھی خوشبو کچھ خاص اثر انداز نہیں ہوتی تھی۔

بس ایسے لگتا تھا کہ یہ سب کچھ ایسا ہی ہے جیسا ہونا چاہئے۔۔

میرے لیے اس وقت پوری کائنات…. ایک ٹٹیری اور اسکی فریاد، دادا اور اس کی ٹٹکاری، ہل میں جتے بیل اور قدرے سیدھی کھیت پر بنتی لکیروں پر مشتمل ہونی چاہیے تھی اور وہ بالکل ایسے ہی تھی ۔

میں مطمئن تھا، خوش تھا۔

لیکن

ایک چیز اضافی تھی۔میں، بیل، دادا اور ہل ایک ساتھ حرکت کرتے تھے ۔میں جانتا تھا ہم ایک ہیں۔ کسی چیز سے بندھے ہیں۔ اکٹھے حرکت کرتے ہیں

لیکن ہمارے پیچھے ، بالکل ہماری رفتار سے دوڑنے والا کتا، ۔۔میں اس کو اپنی اس ’حرکت گاڑی ‘سے علیحدہ سمجھتا تھا ۔

یہ ہمارا حصہ نہیں تھا ۔۔۔جیسے ٹٹیری ہمارا حصہ نہیں تھی۔ ۔۔جیسے دوسرے کسان ہمارا حصہ نہیں تھے

 جیسے خودرو پیلے پھولوں اور باریک کانٹوں والی پوہلی ہمارا حصہ نہیں تھی۔ جیسے سر پہ کھاری اٹھائے، ہمارے لیے کھانا لاتی دادی ہمارا حصہ نہیں تھی۔

کیونکہ یہ سب ہماری مخصوص حرکت گاڑی کا حصہ نہیں تھے ۔

لیکن یہ کتا ہمارا حصہ نہ ہونے کے باوجود ہمارا حصہ کیوں ہے۔ یہ ہم سے بندھا تو نہیں ہے۔ یہ بالکل ہماری رفتار سے ہمارے ساتھ کیوں چل رہا ہے؟

میں دادا کے کندھے پر بیٹھا آگے نہیں، پیچھے دیکھتا تھا۔

کھانا لاتی دادی ، ٹٹیری، دادا، ہل اور بیل …. سب ثانوی تھے ۔

کتا قضیہ سب سے اہم تھا۔

نظام شمسی کا پانچواں بڑا سیارہ 29.79 کلومیٹر فی سیکنڈ کے حساب سے اڑا جا رہا تھا۔

اس قضیے سے بے خبر جوہل چلاتے دادا کے کاندھے پر بیٹھے…. پوتے کو درپیش تھا

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments