سرجیکل اسٹرائیک۔ فائدہ کسے پہنچے گا


چند دن پہلے ہندوستان کے وزیر داخلہ نے پاکستان کو خبردار کیا کہ ہندوستانی فوج آزاد کشمیر کے اندر گھُس کر فوجی کارروائی کرے گی۔ بھارتی حکومت ایسے حملوں کو سرجیکل اسٹرائیک کا نام دیتی ہے۔ اِس دھمکی کا پس منظر گزشتہ چند دنوں میں کشمیری حریت پسندوں اور ہندوستانی فوج کے درمیان جھڑپیں ہیں، جن میں سات ہندوستانی فوجی مارے گئے۔

اُنہوں نے پاکستان کو یاد دلایا کہ ہم پہلے بھی سرجیکل اسٹرائیک کر چکے ہیں اور پاکستان آئندہ بھی اِس کے لئے تیار رہے، ہندوستانی حکومت کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لئے نِت نئی تدبیریں تلاش کرتی رہتی ہے۔ دو سال پہلے مودی حکومت نے آئینی تبدیلی کے ذریعے کشمیر کی حیثیت تبدیل کی۔ واحد مسلم اکثریتی صوبے کو وفاق کے زیرِ انتظام علاقہ قرار دیا گیا۔

کشمیر کی مخصوص قانونی حیثیت کے برعکس غیر کشمیریوں کو جائیداد خریدنے اور شہریت حاصل کرنے کی سہولت دی گئی۔ اِس مخصوص انتظام کے ذریعے مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا منصوبہ ہے۔ اِن اقدامات کے خلاف وادی میں کشمیریوں کے جذبات بھڑک اُٹھے۔

مجھے سرکاری نوکری کے دوران کئی دفعہ ہندوستان جانے کا اتفاق ہوا۔ ہندوستان کی سول سروس کے اراکین کے علاوہ صنعت و تجارت سے منسلک لوگوں، دانشوروں اور معاشی ماہرین سے خیالات کے تبادلے کا موقع ملا۔

یہ حقیقت ہے کہ کئی دہائیوں سے ہندوستان کی حکومتوں نے پاکستان دُشمن پروپیگنڈے کو رائے عامہ کی گُمراہی کے لئے استعمال کیا مگر ماضی میں بھارت کا ایک روشن خیال طبقہ اُن کی سماجی اور سیاسی سوچ میں اہم کردار ادا کرتا تھا۔

ہندوستان کے سیکولر آئین اور گاندھی کی تعلیمات سے متاثر دانشور اقلیتوں کو سماج کے دھارے میں شامل کرنے کے خواہشمند تھے۔ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران ہندوستان کی معاشی ترقی کے سفر کی رفتار تیز ہو گئی۔

اِس کے نتیجے میں مڈل کلاس کی تعداد بڑھنے لگی۔ اِس نئی اُبھرتی ہوئی مڈل کلاس کی سوچ قدرے مختلف ہے۔نئی نوجوان نسل وطن پرستی کے جذبات کی رو میں بہہ رہی ہے۔

مودی سرکار کے حکومت سنبھالنے سے پہلے بھی ہندو اکثریت اپنے ملک کو دُنیا کے اُفق پر ایک بہت بڑی عالمی معاشی اور عسکری طاقت کے رُوپ میں دیکھتی تھی مگر اب ورلڈ پاور بننے کا خواب اُن کی سوچ پر پوری طرح حاوی ہو چکا ہے۔

پاکستان کے ساتھ تعلقات میں چونکہ جارحیت کا عنصر شامل ہے، اِس لئے پاکستان دُشمنی اور اُن کے جذبۂ حُب الوطنی میں تفریق ممکن نہیں۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں۔

مودی حکومت نے گزشتہ سات سال کے دوران سوچ کے نئے دھاروں کو اپنے حق میں رواں کرنے کے لئے ’’ہند توا‘‘ کے نظریے کو بہت مؤثر طریقے سے استعمال کیا۔ وطن پرستی کے ساتھ ساتھ پاکستان دُشمنی کو پروان چڑھانے میں ہندوستانی فلموں نے ہمیشہ منفی کردار ادا کیا ہے۔

اکتوبر 2016 میں کشمیری مجاہدین نے ہندوستانی فوج کے ’’اُوڑی‘‘کیمپ پر حملہ کیا۔ ہندوستانی حکومت نے ہمیشہ کی طرح پاکستان پر الزام لگایا اور بدلہ لینے کی دھمکی دی۔

تقریباً ایک سال بعد ستمبر 2017 میں ہندوستانی میڈیا نے خبر نشر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ رات کی تاریکی میں ہندوستانی فوج نے سرجیکل اسٹرائیک کے ذریعے آزاد کشمیر میں فوجی چوکیوں کے علاوہ اُن مجاہدین کےکیمپ تباہ کر دیے ہیں جو سرحد پار کرکے ہندوستان کے زیرِ قبضہ کشمیر میں داخل ہونے کی تیاری کر رہے تھے۔

اِس اہم خبر کے نشر ہونے کے بعد میں نے اپنے ایک واقفِ حال سے پوچھا تو اُنہوں نے کوئی خاص اہمیت نہ دی اور کہا ’’کیسا حملہ، کیسی سرجیکل اسٹرائیک۔ یہ صرف ایک پولیٹکل اسٹرائیک تھی۔

مودی حکومت کا پروپیگنڈہ۔ اِسکے علاوہ کچھ بھی نہیں‘‘۔ مزید وضاحت کے لئے اُنہوں نے میری توجہ ہندوستان سے نشر ہونے والی اِس خبر پر دلائی کہ سرجیکل اسٹرائیک کرنے والے فوجیوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ اِس کارروائی میں ہندوستانی فوج کا جانی نقصان نہیں ہونا چاہئے۔

یہ بھی ریکارڈ کی بات ہے کہ کمانڈ ہیڈ کوارٹر کے آفیسر انچارج نے یہ اعلان بھی کیا کہ جب تمام فوجی بحفاظت واپس آ گئے تو ہم نے سُکھ کا سانس لیا۔ میرے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر، دوست نے ہنستے ہوئے تبصرہ کیا۔ ’’جب مشن کی کامیابی کا معیار حملہ آوروں کا جان بچا کر واپس آنا ٹھہرے تو اُن کی تمام تر توجہ اِسی ہدف پر رہے گی۔

ممکن ہے کہ وہ رات کی تاریکی میں سرحد پار کرکے تھوڑا اندر آئے ہوں اور اپنے گولے بارُود کا بوجھ پہاڑیوں پر ہلکا کرکے واپس بھاگ گئے ہوں‘‘۔ حقیقت چاہے کچھ بھی ہو، ہندوستانی فوج کے دعویٰ کا کوئی ثبوت اُن کے پاس نہیں تھا مگر مودی حکومت نے بھرپُور سیاسی فائدہ اُٹھایا۔

امیت شا کے نئے بیان سے مجھے اِس واقعے پر بننے والی ہندوستانی فلم ’’اوڑی۔ دی سرجیکل اسٹرائیک‘‘ یاد آ گئی۔ جب مجھے پہلے پہل اِس فلم کے بننے کا علم ہوا تو خیال آیا کہ ایک ایسے پھس پھسے حملے کے بارے جس کی کامیابی حملہ آوروں کے زندہ بچ جانے سے منسلک ہو، کیا کہانی لکھی گئی ہو گی۔ اِس نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کو کس طرح پیش کیا گیا ہو گا جس کا کوئی ثبوت ہی موجود نہ ہو ۔

میرا خیال تھا کہ یہ فلم بُری طرح ناکام ہو گی۔ اتفاق سے بیرونِ ملک سفر کے دوران جہاز میں یہ فلم دیکھنے کا موقع ملا۔ اگر ہندوستانی فلم بین، اندھی حُب الوطنی کے جذبے کو اپنی فہم سے علیحدہ کردیں تو یہ فلم جنگی مہم جوئی کی پیروڈی نظر آتی ہے مگر حیرت انگیز طور پر 25 کروڑ ہندوستانی روپوں میں بننے والی فلم نے 342 کروڑ کا بزنس کیا ہے جو ہندوستان کی فلم انڈسٹری کا ایک ریکارڈ ہے۔

فلم کی غیرمعمولی کامیابی سے اندازہ ہوا کہ ہندوستانی فلم بینوں کی اکثریت وطن پرست حب الوطنی سے سرشار ہو چکی ہے مگر بدقسمتی سے اُن کا جذبۂ حُب الوطنی عقل سے عاری ہے۔ مجھے یہ علم نہیں کہ ہندوستان آئندہ سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ کرے گا یا نہیں مگر اِس موقع پر مجھے ’’الف نون‘‘ پروگرام میں الن اور ننھا کی گفتگو یاد آ گئی۔

ننھا بیمار ہے اور الن ڈاکٹر کو بلانے کی بات کرتا ہے۔ ننھا کہتا ہے کہ اب ڈاکٹر کو بُلانے کا فائدہ نہیں ہوگا۔ جس پر الن کا جواب تھا ’ننھے تمہارا فائدہ ہو نہ ہو ڈاکٹر کاتو ضرور ہوگا‘۔ اگر ہندوستان نے پہلے جیسی ایک اور سرجیکل اسٹرائیک کی تو مُجھے یقین ہے کہ بالی وڈ کو ایک اور کامیاب فلم بنانے کا موقع مل جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments