مہنگائی سے تنگ سب، مگر احتجاج کون کرے؟


عوام کے مسائل ایک خاص حد عبور کر جائیں تو حکمرانی مشکل سے دوچار ہوجاتی ہے، بشرطیکہ منتخب حکومت ہو، فوجی جنتا کے خلاف آواز اٹھانا، ایک موثر اپوزیشن سے توقع کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں احتجاج کا جمہوری حق کا استعمال کبھی ناممکن نہ رہا، ماضی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب تحریکیں چلائی گئیں، ان میں سماج سے وابستہ مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والوں نے حصہ لیا، جنرل ایوب خان، جنرل ضیا الحق، جنرل پرویز مشرف کے ادوار بھی ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں، اسی طرح جمہوری منتخب حکمرانوں ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف، بے نظیر بھٹو بھی عوامی غیض و غضب سے بچ نہ پائے۔

لوگوں کے لئے ہر دور میں مہنگائی ایک ایسا معاملہ رہا ہے، جس پر اشتعال دلانے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی، قوت خرید کم ہونے کی دیر نہیں کہ ملک بھر میں ہر کوئی ردعمل دکھاتا ملے گا۔

عوام کو احتجاج پر مائل کر نا آسان بھی نہیں، محض انفرادی طور پر کوئی بات کہہ دینا اور اپنا شدید ردعمل ظاہر کرنا، ایک مختلف طرز احتجاج ہے۔ کسی بھی شعبے اور ادارے میں اپنے مطالبات کے حق میں سڑکوں پر نکل آنا، نعرے بازی، دھرنے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مڈبھیڑ تک کی نوبت آجاتی ہے۔ وکلا، طلبا، ڈاکٹر، کلرک، تاجر، نابینا افراد، ظلم زیادتی کا شکار خواتین بھی مظاہرے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اس قدر موثر ثابت ہوتے رہے کہ مطالبات تسلیم کرنا پڑے یا متعلقہ اداروں کو جھکنا پڑا۔

یہ سب باتیں، پاکستان جیسے ملک میں قصے کہانیاں لگتی ہیں، اب تو لوگوں کی پہلی ترجیح سوشل میڈیا ہے، جسے نسبتاً آسان اور سہل طریقہ احتجاج تصور کیا جاتا ہے ۔ جہاں حکومت سے لے کر کسی بھی ادارے، بشمول حساس نوعیت والے، اہم سیاسی مذہبی حتیٰ کہ روحانی شخصیات بھی ہدف تنقید بن جاتی ہیں۔ یہ سب ٹاپ ٹرینڈ تک بنتے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں حکومت بھی اسی محاذ پر بھرپور طریقے سے جواب دینے کے لئے تیار رہتی ہے۔ ترجمانوں کی ایک فوج ظفر موج ہے، جس نے آستینیں چڑھائی ہوتی ہیں، بس کہیں سے کوئی بات ہو جائے، اب ضروری نہیں وہ حکومت کے خلاف ہو، بس اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا جیسے جنون ہے۔ کسی نے خوب کہہ دیا ہے کہ حکمرانی میڈیا کے زور پر چلتی ہے۔ کچھ کریں یا نہ۔ صرف چرچا کرنے کی ضرورت ہے۔

جلسے، جلوس، مظاہرے، دھرنے اب تھوڑا مشکل اور کافی خرچے والا کام لگتا ہے۔ اپوزیشن رہنما ہوں یا حکمران جماعت کے وزرا، سب کے لئے میڈیا کے کیمروں کے سامنے آ کر تقریر اور لفظوں کی نت نئی تک بندیاں پیش کرنا پہلی ترجیح ہوتا ہے۔ اب تو مزید آسانی پیدا کر لی، کیمرہ بھی اپنا اور بات بھی مرضی کی۔ تیار کر کے میڈیا کو بھجوا دیں اور پھر سب ہی اسے خشوع اور خضوع سے نشر کرتے ہیں۔ یہی حکومتی موقف ہوتا ہے اور پھر احتجاجی مظاہرہ یا جلوس کا متبادل ٹھہرتا ہے۔

دونوں جانب سے عوام کی نمائندگی بھی ایسے ہی ہوجاتی ہے۔ ان کا براہ راست سامنا حکومت کے لئے مشکل تو ہے، لیکن اپوزیشن بھی گریزاں رہتی ہے۔ شاید انہیں بھی عوامی جذبات کو سنبھالنا کوئی پہاڑ سر کرنے سے کم نہیں۔

دوسری جانب حکومت کے مسلسل وعدے وعید ختم ہونے کا نام نہیں لیتے، مہنگائی پیچھے مڑ کر دیکھنے کا نام تک نہیں لے رہی، عوام کی پریشانی جانچنے کا کوئی پیمانہ نہیں رہا۔ اس ساری صورتحال میں اپوزیشن کبھی اتحاد بناتی، کبھی اختلاف کرتی، مقتدر قوتیں سب کے زور بازو کا الگ سے جائزہ لیتی ہیں۔ اس سب میں عوام کے مسائل پھر کہیں ایک طرف لگ کے رہ جاتے ہیں۔ لوگوں کو راہ دکھا کر غائب ہو جانے کی جیسے بیماری ہے یہ سیاسی جماعتیں بھی شارٹ کٹ کے چکر میں پوری قوم کو نظریہ ضرورت کے تحت گھن چکر بنائے رکھتی ہیں۔

کوئی سڑک پر نکل آتا ہے کسی کا فیصلہ ہونا باقی ہے کوئی ملک سے باہر قیادت پر نگاہیں جمائے بیٹھا ہے۔ کسی کو ابھی تک سمجھ نہیں کہ کون سا راستہ اختیار کرے۔

لوگ نعروں کی گونج سن رہے ہیں اس شور میں کب عملی قدم اٹھایا جائے گا۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ حکمران جماعت کے حمایت یافتگان بھی ناک ناک تک تنگ آئے ہیں۔ لگتا ایسے ہے کہ اپوزیشن میڈیا پر ہی تحریک چلائے گی۔ آخر تبدیلی کے منتظر لوگوں کو سڑکوں پر آنا پڑے گا۔

مہنگائی سے تنگ سب ہیں صرف سوال یہ ہے احتجاج کون کرے؟

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments