مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی


جی ہاں یہ زبان زد عام شعر اقبال کا ہی ہے جنھوں نے جب اپنے آبا کی کتابیں برٹش لائبریری کے جنوبی ایشیا سیکشن میں سجی دیکھیں تو انھیں بہت دکھ ہوا۔ مشرق سے مغرب کی طرف نادر کتابوں کا یہ سفر آج سے تقریباً اڑھائی سو سال قبل شروع ہوا جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر پاک و ہند میں اپنے قدم جمانے شروع کیے۔ کمپنی کے انگریز ملازمین نے جو تاریخی کتاب ہاتھ لگی چوری چھپے یا زور زبردستی یہاں سے برطانیہ منتقل کی اور اپنے ذاتی کتاب خانوں میں سجا دی، یا پھر تاریخی نوادرات کے شوقین کسی لینڈ لارڈ کے ہاتھ بیچ دی۔ جیسے کیسے بالآخر یہ کتابیں لندن میں برٹش لائبریری کی زینت بنیں۔

یہ کتابیں ہمارا سرمایہ تھیں اور ان کا برطانیہ پہنچنا یقیناً ہمارے لیے دکھ کی بات ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم کبھی بھی ان کتابوں کے قابل نہیں تھے۔ یہ اچھا ہی ہوا کہ یہ کتابیں وقت پر یہاں سے نکال لی گئیں اور انگریز کے ہاتھوں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئیں ورنہ تو کب کی صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہوتیں۔

اور پھر انگریز بھی اپنی چال میں برصغیر کے لوگوں کو ان نوادرات سے محروم کر رہے تھے جن پر یہاں کی پبلک کا جائز حق تھا مگر درحقیقت ایک چال اوپر والا بھی چل رہا تھا۔ اور اللہ کی چال یقیناً غالب ہی ہوتی ہے۔ اللہ نے چاہا کہ یہ تاریخ محفوظ ہو جائے تو انگریز کو اس کا ذریعہ بنا دیا ورنہ ہم سے تو یہ میراث سنبھالنے نہیں سنبھلنی تھی اور بقول وسعت اللہ خان اب تک ان کتابوں کے صفحات میں پکوڑے بندھ چکے ہوتے۔

ذرا فاسٹ فارورڈ کریں تو آپ کو اللہ تعالی کی اس میں حکمت سمجھ آ سکے گی۔ آج برٹش لائبریری کے ڈیجیٹلائزیشن پروجیکٹ کے تحت ان نادر و نایاب کتابوں کو اعلی کوالٹی سکین کے ساتھ انٹرنیٹ پر ڈال دیا گیا ہے۔ اور کوئی بھی شخص جس کے پاس ایک عدد کمپیوٹر اور انٹرنیٹ ہے وہ گھر بیٹھے ان کتابوں کے صفحات الٹ پلٹ سکتا ہے اور انھیں پڑھ سکتا ہے۔ اس ڈیجیٹلائزیشن پروجیکٹ کے تحت اب تک پندرہ ہزار سے زائد نادر و نایاب کتب، مخطوطات، تصاویر اور پینٹنگز ڈیجیٹلائز ہو کر انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ ان میں فلسطین، اسرائیل، مصر، یونان اور اٹلی سے لے کر برصغیر پاک و ہند اور انڈونیشیا تک کے ممالک سے برطانیہ لائی گئی تاریخی کتابیں اور مخطوطات شامل ہیں۔

ہماری دلچسپی چونکہ برصغیر سے لائی گئی یا قرون وسطی مین مرتب کی گئی کتب ہیں، لہذا راقم نے اس ضخیم کیٹلاگ کی آن لائن چھانٹی کے بعد چند دلچسپ کتب کے رابطے ( لنک) معلوم کیے ہیں اور ہر کتاب کے مختصر تعارف کے ساتھ یہاں پیش کر رہا ہے۔ تا کہ جو لوگ ان کتابوں میں دلچسپی رکھتے ہوں وہ کیٹلاگ کی سرچ پر اپنا قیمتی وقت ضائع نا کریں کیونکہ یہ سرچ فنکشن کچھ اچھا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کتابوں کے نام عربی یا فارسی میں ہیں اور یا پھر رومن عربی یا فارسی میں۔ انگریزی میں سرچ سے کچھ خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ بہت سی عربی اور فارسی کتابیں جو اپنی اصلی حالت میں تو باقی نا رہیں مگر ان کے لاطینی یا عبرانی زبان میں ہوئے تراجم محفوظ رہ گئے۔ یہ تراجم بھی اسی ذخیرہ میں دستیاب ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے حکومتی سطح پر مترجمین کا ایک گروہ مقرر کیا جائے جو بغیر کسی مسلکی یا مذہبی جانبداری کے، ان کتابوں کا از سر نو ان کے اصلی ماخد سے اردو میں ترجمہ کرے۔ ان تراجم سے نا صرف ہمیں اپنی تاریخ کا صحیح شعور نصیب ہو گا بلکہ اپنی عظمت رفتہ کی ان نئی جہات سے بھی پردہ اٹھے گا جو ، ان کتابوں تک ہماری رسائی نا ہونے کی وجہ سے، ہماری آنکھوں سے اوجھل تھیں۔

گماں مبر کہ بپایاں رسید کار مغاں
ہزار بادۂ نا چشیدہ در رگ تاک است

( یہ نا سوچ کہ معنوں کا کام ختم ہو گیا ہے کیونکہ انگور کے خوشے میں ابھی تک ہزاروں نا کشیدہ شرابیں موجود ہیں )

یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم مسلمانوں میں ایک بار پھر احیائے علوم کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔

نوٹ : ہم یہاں صرف عربی اور فارسی یا اردو کتب کا تذکرہ کریں گے۔

یار رہے کہ تمام کتابوں کی سکین تصاویر انتہائی اعلی کوالٹی کی حامل ہیں۔ اگر آپ کی انٹرنیٹ کی رفتار خاطر خواہ تیز نہیں ہے تو پھر کتاب کا صفحہ کھلنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔

انوار سہیلی۔ 1504 ء میں تیموری امیر نظام الدین شیخ احمد سہیلی کی درخواست پر کمال الدین ابن علی کاشفی کی کتاب۔ یہ کتاب خوبصورت تصاویر سے مزین ہے جن میں ہر کہانی کو تصویری انداز میں دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ در اصل اس سے بھی تقریباً دو سو سال پہلے 1307 ء میں عباسی دور خلافت میں مرتب کی گئی کلیلہ و دمنہ کا نظر ثانی شدہ فارسی ایڈیشن ہے۔

دیوان معزی۔ اس مخطوطے میں دسویں اور گیارہویں صدی عیسوی کے پانچ شعرا کے دیوان جمع کر دیے گئے ہیں۔ ان میں دیوان معزی 1048 ء، دیوان اثیر الدین آخسیکتی، دیوان ادیب صابر 1048 ء تا 1147 ء، دیوان قمر 1210 ء، دیوان شمس طبسی اور دیوان ناصر خسرو 1004 ء تا 1088 ء شامل ہیں۔ علاوہ ازیں یہ مخطوطہ رنگیں پینٹنگز اور تصاویر سے مزین ہے۔ مندرجہ ذیل تصویر میں ایک شاعر منگول بادشاہ کے سامنے اپنا کلام سناتے ہوئے۔

جامع التواریخ رشید الدین ہمدانی 1247 تا 1318 کی 1305 میں مرتب کرتا تاریخ۔ یہاں اس کتاب کی دو جلدیں موجود ہیں۔ اس کتاب میں چین سے لے کر یورپ تک کے ممالک کا کلچر اور واقعات رقم ہیں۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں منگولوں کی تاریخ بھی مرتب ہے۔

کشف الحقائق (پندرویں صدی کی کتاب۔ نامعلوم مصنف)

جلال الدین اسکندر کا 1410 ء میں مرتب کردہ ایک ضخیم مخطوطہ ( 1000 سے زائد صفحات) بائیس دوسری کتابوں کا مجموعہ ہے۔ جن میں سے چند قابل ذکر کتابیں ان کے انفرادی رابطے کے ساتھ مندرجہ ذیل ہیں۔

الاھی نامہ، منطق الطیر از نظامی گنجوی
پانچویں صدی ہجری سے نویں صدی ہجری تک تقریباً تین سو شعرا ء کی بیاض
شاہنامہ فردوسی سے منتخب ابواب
فقہ در مذہب شعیہ
فقہ ابی حنیفہ
معرفت تقویم و اسطرلاب
گھوڑوں کی بیماریوں پر مختصر رسالہ
ادویات پر رسالہ
جام جم از رکن الدین اوحدی
مختصر در علم اقلیدس از جمشید ابن مسعود
سعادت نامہ از محمود بن عبدلکریم
رسالہ کبریت احمر۔ سلطان جلال الدین اسکندر کے حکم پر لکھا گیا کیمیا پر ایک رسالہ
مختصر در علم حیات۔ علم فلکیات پر ایک مختصر رسالہ از جمشید ابن مسعود کاشی
مدخل منظوم۔ علم فلکیات (آسٹرولوجی ) پر رسالہ۔

تحفتہ الغرائب۔ نامعلوم مصنف کی اشیا اور ان کے خواص اور انسان پر اس کے جادوئی اثرات کے بارے میں کتاب۔

نظام التواریخ۔ از عبداللہ ابن عمر بیضاوی

الغرض اس کتاب میں اتنا مواد ہے کہ اگر آج کی کتابوں کے حجم کے لحاظ سے اندازہ ہے کہ تقریباً 5000 صفحات پر مشتمل کتاب ہو گی۔

دیوان حافظ۔ بادشاہ اکبر کے زمانے میں مرتب کیا گیا، تصاویر سے مزین حافظ شیرازی کا دیوان۔

ترجمتہ المسالک والممالک (سلطنتوں اور شاہراہوں کی کتاب) ۔ یہ کتاب ابن خرادادبہ 820 ء تا 912 ء نے عربی میں لکھی۔ 15 صدی میں اس کا عربی سے فارسی میں ترجمہ کیا گیا۔ یہ ڈیجیٹلائزڈ مخطوطہ فارسی ترجمے کا ہے۔ اصلی کتاب شاید معدوم ہو چکی۔

کلیات سعدی۔ 1625 میں مرتب کیا گیا شیخ سعدی کا تمام کلام۔ یہ 800 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے اور تصاویر سے مزین ہے۔ اس میں شیخ کے رسائل، گلستان، بوستان، قصائد عربی، قصائد فارسی، غزلیات، صاحبیہ، ملمات و مثنویات، مقطعات، خبیثات، ہزلیات، مزحکات، رباعیات اور مفردات شامل ہیں۔

شاہنشاہ نامہ از صبا فتح علی محمد۔ 1822 میں لکھی گئی یہ کتاب ایران کے شاہان کی منظوم تاریخ ہے۔

کبوتر نامہ۔ 1788 میں لکھی گئی یہ نادر و منفرد منظوم کتاب کبوتروں کی اقسام، ان کے رنگوں اور خصوصیات کے بارے میں ہے جو سید محمد موساوی ولی نے لکھی۔ کتاب کا ہر صفہ کبوتروں کی رنگین تصاویر سے مزین ہے۔

سند باد نامہ۔ ایک نا معلوم مصنف کی لکھی ہوئی سند باز جہازی کے کارناموں پر مشتمل منظوم کتاب۔ گمان ہے یہ کتاب 1575 ء میں لکھی گئی۔

شاہنامہ فردوسی۔ یہ کتاب کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ یہاں موجود مخطوطہ رنگین تصاویر سے مزین ہے اور اس تاریخ نا معلوم۔ تاہم اس سے مرتب کردہ انداز سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ بھی باقی تصاویر سے مزین کتابوں کی طرح چودہویں صدی میں مرتب کی گئی۔

دیوان خاقان۔ شاہ ایران فتح علی شاہ قاجار ایران کا دیوان
دساتیر آسمانی۔ ایک ایرانی فلاسفر اور راہب آذر کیوان کی اسلام سے قبل کے انبیاء بارے کتاب۔

خسرو و شیریں۔ از نظامی گنجوی۔ یہ خوبصورت اور تصاویر سے مزین مخطوطہ نظامی گنجوی کی منظوم کہانی خسرو و شیریں بیان کرتا ہے۔

نصرت نامہ۔ نامعلوم مصنف کا لگ بھگ 1563 ء میں مرتب کردہ (اصلی کتاب 1502 ء میں لکھی گئی ) اس نایاب نسخہ میں تصاویر کی مدد سے چنگیز خان سے لے کر شیبانی خان تک کی تاریخ رقم ہے۔

واقعات بابری۔ بابر بادشاہ کے واقعات جو اصل میں چغتائی زبان میں لکھے گئے تھے۔ اکبر کی درخواست پر عبد الرحیم خان خانان نے اس کا فارسی میں ترجمہ 1589 ء میں کیا اور یہ 1593 ء میں مکمل ہوا۔ ایک ہزار سے زیادہ صفحات اور تقریباً 143 تصاویر پر مشتمل یہ ان نایاب کتب میں سے ایک ہے جو اکبر کے حکم پر لکھی گئیں یا ترجمہ کی گئیں۔

مراۃ العارفین۔ اسلامی فلسفے، صوفی ازم اور ما بعد الطبیعات پر خواجہ مسعود کی کتاب جو 1397 ء میں لکھی گئی۔

دیوان فانی۔ 1510 ء مرتب کیا گیا مختلف شعراء کا فارسی کلام۔
دیوان حافظ سعد۔ 1466 ء شیراز میں مرتب کیا گیا حافظ سعد کا دیوان۔

گشاسپ نامہ۔ ابو نصر علی بن احمد اسدی طوسی کا لکھا 9 ہزار سے زائد شعروں پر مشتمل رزمیہ جس میں بحر متقارب میں رستم کے باپ گشتاسپ کے حالات بیان کیے ہیں۔

جواہر الموسیقات محمدی۔ عبدالکریم القادری جونپوری کے ہاتھ سے لکھی موسیقی پر کتاب جسے انھوں نے محمد عادل شاہ کے لیے وقف کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments