مقامی جمہوری حکومتیں اور سیاسی ترجیحات کا تعین


سیاست، جمہوریت، حکمرانی اور سیاسی استحکام کے لیے مقامی حکومتوں کا نظام پہلی اور بنیادی سیڑھی کا کردار ادا کرتی ہے۔ بنیادی اصول یہ ہی ہے کہ جس ملک میں مقامی حکومتوں کا سیاسی اور جمہوری نظام موجود نہیں وہاں جمہوریت نہ تو پنپ سکتی ہے اور نہ ہی لوگوں کے بنیادی حق یا حقوق کی ضمانت دے سکتی ہے۔ اسی بنیاد پر یہ قول بار بار دہرایا جاتا ہے کہ مقامی جمہوری حکومتوں کے نظام کے بغیر جمہوریت نامکمل ہوتی ہے۔ اس لیے آج پاکستان میں یا ماضی میں جو بھی جمہوری نظام موجود رہا وہ اپنے بنیادی جمہوری یعنی مقامی حکومتوں کے نظام سے عملی طور پر محروم رہا ہے۔

مسئلہ محض مقامی حکومتوں کے انتخابات کا نہیں اور نہ ہی انتخابات مقامی جمہوریت کو مستحکم کرتے ہیں۔ انتخابی عمل پہلی سیڑھی تو ہو سکتی ہے مگر جب تک ہم سیاسی، جمہوری اور قانونی فریم ورک میں اپنے ریاستی یا سیاسی نظام میں اس بنیادی اصول یعنی تیسرے درجے کی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے، مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ وفاق اور صوبائی حکومتوں کے بعد مقامی حکومت کا نظام محض سیاسی مجبوری نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں کی یہ آئینی اور قانونی ذمہ داری بھی ہے۔

حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر پنجاب میں سابقہ مقامی حکومتوں کا نظام بحال ہوا ہے۔ حکومت نے اگرچہ تاخیری حربے اختیار کیے مگر عملاً ان کو ان اداروں کو عدالتی حکم کی بنیاد پر بحال کرنا پڑا۔ صوبائی حکومت نے اپنی خوشی سے ان اداروں کو بحال نہیں کیا بلکہ عدالتی حکم کی کڑوی گولی کے تحت یہ ادارے بحال ہوئے ہیں۔ مگر ان اداروں کی بحالی محض 31 دسمبر 2021 تک ہی محدود رہے گی۔ کیونکہ سابقہ نظام کی مدت 31 دسمبر 2021 تک ہی محدود ہے۔

محض 70 دن کے لیے ان اداروں کی بحالی سے مقامی حکومتوں کے نظام کی مضبوطی پر کوئی بڑا مثبت اثر نہیں پڑے گا۔ یہ ادارے محض مصنوعی طور پر بحال ہوئے ہیں اور اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ موجودہ حکومت کے سیاسی مخالفین کو کسی بھی سطح پر ان ستر دنوں کے لیے کوئی سیاسی، انتظامی یا مالی اختیارات مل سکیں گے۔ پنجاب میں سابقہ مقامی حکومتوں کے نظام کی مجموعی عوامی نمائندوں کی اکثریت مسلم لیگ نون کی ہے۔ لیکن بطور جماعت مسلم لیگ نون کی بھی ان اداروں کی بحالی میں کوئی بڑی گرم جوشی دیکھنے کو نہیں ملی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ سب جانتے ہیں کہ ان اداروں کی بحالی سے کوئی بڑا سیاسی اثر کسی کو بھی نہیں مل سکے گا اور سب ہی روایتی طور طریقوں کی بنیاد پر اسی نظام سے مقررہ مدت تک جڑے رہیں گے۔

کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ پنجاب میں مقامی حکومتوں کے نظام کی عدالتی حکم کے تحت بحالی سے مستقبل میں ان اداروں کی معطلی، بندش یا خاتمہ کی بات دوبارہ نہیں دہرائی جا سکے گی۔ یہ سوچ محض خوش فہمی پر مبنی ہے۔ کیونکہ جب تک ہم اپنے 1973 کے دستور میں ان مقامی سطح کی حکومتوں کو مکمل طور پر اور شفاف انداز میں آئینی تحفظ نہیں دیں گے یہ سیاسی تلوار ہمیشہ مقامی حکومتوں کے نظام پر مسلط رہے گی۔ اس میں ہمارے سامنے ایک اچھی مثال بھارت کی ہے جہاں اس کے آئین میں باقاعدہ مقامی حکومتوں کے نظام کے حوالے سے ایک مکمل باب یا حوالہ موجود ہے۔

ایسی ہی ترمیم ہماری سیاسی، انتظامی اور آئینی ضرورت ہے اور اسی پر ہماری بھرپور توجہ ہونی چاہیے۔ کئی کئی برسوں سے اس ملک میں چاروں صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کے نظام کی تشکیل اور ان کو خودمختاری دینے کا عمل تعطل کا شکار رہتا ہے۔ لیکن کوئی صوبائی سطح پر موجود حکومتوں کے آمرانہ طرز عمل، غیر جمہوری سوچ اور انتخابات سے مسلسل فرار یا مقامی سطح پر سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات دینے کی پالیسی سے گریز پر وہ کہیں بھی سیاسی نظام میں جوابدہ نہیں۔

کیونکہ مقامی حکومتوں کا نظام صوبائی مسئلہ ہے تو وفاق اس نظام میں براہ راست کوئی مداخلت نہیں کر سکتا۔ آخری راستہ سیاسی قوتوں یا سول سوسائٹی کے پاس عدالتی یا قانونی ہی رہ جاتا ہے۔ لیکن عدالتی نظام میں چلنے والے مقدمات کی کارروائی سمیت فیصلوں میں تاخیری حربے یا عمل کا فائدہ بھی براہ راست صوبائی حکومتوں کو ہی ہوتا ہے۔ عدالتی فیصلے بھی عملی طور پر پاکستان میں مضبوط مقامی حکومتوں کے نظام کی تشکیل کو یقینی بنانے میں ناکام رہے ہیں۔

اس لیے مسئلہ محض کسی ایک جماعت یا حکومت کا نہیں بلکہ ہمارے ریاستی یا حکومتی ڈھانچوں میں موجود ان خرابیوں کا ہے جس کی وجہ سے اس ملک میں یا صوبائی سطح پر مضبوط، مربوط، منصفانہ اور شفاف مقامی حکومتوں کا نظام ہماری سیاسی ترجیحات کا حصہ نہیں بن سکا۔ سب سے زیادہ قصور صوبائی حکومتوں سمیت ارکان قومی یا صوبائی اسمبلی کے ممبران کا ہے جو عملی طور پر مقامی حکومتوں کے سیاسی و جمہوری نظام کو اپنی سیاسی بقا، اختیارات اور ترقیاتی فنڈز کے حصول میں ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔

جب تک قومی سیاست میں سیاسی اور آئینی یا قانونی فریم ورک میں یہ بنیادی مسئلہ یعنی ترقیاتی فنڈز میں ممبران اسمبلی کی شمولیت، دلچسپی یا طاقت کے معاملات کو حل نہیں کیا جاتا یا اس میں کوئی توازن پر مبنی پالیسی نہیں بنتی تو یہ مقامی جمہوری نظام اہل سیاست، سیاسی جماعتوں اور صوبائی حکومتوں کے درمیان سیاسی تماشا کا منظرنامہ پیش کرتا رہے گا اور ہم محض بے بسی کے ساتھ یہ تماشا تسلسل سے دیکھتے رہیں گے۔

جو بنیادی اصول دنیا نے مقامی جمہوری حکومتوں کے نظام کے لیے اختیار کیے یا ان کی مدد سے اپنے اپنے ملکوں میں یہ نظام چلایا جا رہا ہے تو ہمیں ان سے ضرور سیکھنا چاہیے۔ بنیادی بات جو ہمیں سیکھنی ہوگی کہ سیاست اور جمہوریت میں حکمرانی کے نظام کی شفافیت اور عام یا کمزور آدمی کی ترجیحات کا تعین، مسائل کی درست نشاندہی، جمہوریت کا استحکام اور قانون کی حکمرانی سمیت منصفانہ وسائل کی تقسیم اور نگرانی کے عمل سمیت جوابدہی کا نظام کا براہ راست تعلق مقامی حکومتوں کے نظام سے ہے۔

یہ جو ہم تسلسل کے ساتھ ملک میں بری حکومت، گورننس کا حکمرانی کے بحران کا رونا روتے ہیں اس کی بھی بڑی وجہ مقامی حکومتوں کے نظام سے جڑی عدم ترجیحات کا ہے۔ سیاسی سطح پر مقامی حکومتوں کا نظام موجودہ روایتی، فرسودہ اور پرانے خیالات یا طرزعمل سمیت نام نہاد قانون سے نہیں چل سکے گا۔ ہمیں سیاسی محاذ پر ایک بڑی سیاسی جنگ مقامی حکومتوں کے نظام کے حق میں لڑنی ہے۔ یہ لڑائی اگرچہ سیاسی جماعتوں کی سطح پر ہونی چاہیے تھی اور یہ ہی ان کی ترجیحات کا حصہ ہوتا۔

مگر اب یہ بڑی ذمہ داری سول سوسائٹی، میڈیا اور اہل دانش یا علمی یا فکری محاذ پر کام کرنے والے تھنک ٹینک کی زیادہ ہے کہ وہ حکومتوں اور سیاسی جماعتوں پر دباؤ کی پالیسی ایک بڑے پریشر گروپ کے طور پر ڈالیں کہ وہ اس نظام کو اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ اگرچہ یہ صوبائی معاملہ ہے مگر وفاق کو ایک بنیادی فریم ورک تشکیل دینا ہو گا جس کی مدد سے صوبائی حکومتیں اس نظام کی تشکیل کو یقینی بنا کر انتخابی نظام کے تسلسل کو قائم رکھ سکیں۔

بالخصوص جب تک وفاق، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے نظام کی مدت ایک جیسی نہیں ہوگی یا آئینی طور پر صوبائی حکومتوں کی تشکیل کے بعد فوری طور 120 دنوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کو لازمی قرار دینے کی شرط نہیں ہوگی، یہ نظام تسلسل سے نہیں چل سکے گا۔ 1973 کے دستور کی شق 140۔ Aاور 32 کے تحت ان مقامی حکومتوں کی سیاسی، انتظامی اور مالی خودمختاری کو یقینی نہیں بنایا جائے گا کچھ بہتر نہیں ہو گا۔ سیاسی جماعتوں کی مقامی حکومتوں کے نظام کے بارے میں عدم دلچسپی، ترجیحات اور مفادات کے ٹکراؤ کی پالیسی نے عملی طور پر پاکستان میں مقامی سطح کی جمہوریت کے مقدمہ کو کمزور کیا ہے اور یہ جمہوری نظام اپنی سیاسی ساکھ کو قائم نہیں کر سکا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں، حکومتوں اور ریاستی اداروں کے درمیان مقامی نظام کی مضبوطی کے لیے ایک نیا سیاسی، انتظامی، قانونی، آئینی فریم ورک درکار ہے جو فریقین کے درمیان اتفاق رائے پر مبنی ہونا چاہیے۔

ایک بڑے مشہور مورخ کا قول ہے کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہی ہے کہ کسی نے بھی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ایسا ہی لگتا ہے کہ ہماری سیاسی اور جمہوری قوتوں نے بھی ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور دنیا میں جو اختیارات کی نچلی سطح پر سیاسی، انتظامی اور مالی تقسیم کی بحث، مقامی نظام حکومت کی مضبوطی کی چل رہی ہے ہم اہل سیاست اس سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں اور یہ ہی ہمارا سیاسی اور جمہوری المیہ بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments