یہ عقیدے کی جنگ ہے یا سیاسی بازی گری


لاہور آج میدان جنگ بنا ہؤا تھا۔ کالعدم قرار دی گئی تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں کے ساتھ مڈھ بھیڑ میں پولیس کے تین اہلکار جاں بحق ہوئے ہیں اور متعدد کو زخمی حالت میں ہسپتال داخل کیا گیا۔ ٹی ایل پی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پولیس تشدد اور آنسو گیس کی شیلنگ سے تحریک کے سینکڑوں کارکن زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس نے پنجاب کے مختلف علاقوں سے ٹی ایل پی کے درجنوں لیڈروں اور کارکنوں کو گرفتار بھی کیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ آج رات کے دوران ٹی ایل پی کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا اور اس کے بیشتر لیڈروں کو گرفتار کرکے احتجاج دبانے کی کوشش کی جائے گی۔

تحریک لبیک پاکستان نے منگل کو عید میلاد النبیؑ کے موقع پر منعقد ہونے والے اجتماع کو پہلے دھرنے میں تبدیل کیا، اس کے بعد جمعہ کواسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ تنظیم کا مطالبہ ہے کہ فوری طور سے اس کے لیڈر علامہ سعد رضوی کو رہاکیا جائے اور گزشتہ سال ہونے والے معاہدے کے مطابق گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے۔ حکومت اس سلسلہ میں مختلف حیلے تراشتی رہی ہے تاہم اپریل کے دوران مظاہرے روکنے کے لئے، پہلے سعد رضوی کو گرفتار کیا گیا تاہم دھرنے اور مظاہروں میں شدت کے بعد تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کردی گئی۔ پابندی کے اعلان کے باوجود یہ واضح نہیں ہوسکا کہ حکومت نے اس تنظیم کا انتظامی ڈھانچہ تحلیل کرنے، اس کے فنڈز ضبط کرنے اور قیادت کو کسی غیر قانونی سرگرمی سے روکنے کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں۔

اپریل سے آج تک حالات کی جو تصویر سامنے آتی ہے اس کی روشنی میں یہی سمجھا جاسکتا ہے کہ ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کے باوجود اس کی سرگرمیوں کو روکنے اور وسائل پر کنٹرول کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے جاسکے۔ حتی کہ اعلان کرنے کے باوجود پابندی کے بعد اس تنظیم کو تحلیل کرنے کا فیصلہ بھی سامنے نہیں آیا۔ وزیر داخلہ شیخ رشید اس حوالے سے مسلسل غیر واضح بیان بازی کرتے رہے ہیں ۔ ایک مرحلہ پر یہ بھی کہا گیا کہ اگر تحریک کی طرف سے پابندی ختم کرنے کی درخواست کی گئی تو اس پر غور کیا جائے گا۔ تاہم ایک کالعدم تنظیم ہونے کے باوجود ابھی تک الیکشن کمیشن نے اس کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد نہیں کی ۔ اسی لئے گزشتہ ماہ کے دوران کنٹونمنٹ انتخابات میں ٹی ایل پی کے 200 سے زائد امیدواروں نے شرکت کی اور بعض نے کامیابی بھی حاصل کی۔ حکومت بدستور یہ وعدہ بھی دہراتی رہی ہے کہ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا معاملہ قومی اسمبلی میں پیش کیاجائے گا اور وہاں فیصلہ کے بعد اس سلسلہ میں اقدام ہوگا۔ تاہم ٹی ایل پی کا تازہ دھرنا شروع ہونے کے بعد گزشتہ روز وزیر داخلہ شیخ رشید نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرانسیسی سفیر کو ملک سے نہیں نکالا جاسکتا کیوں کہ اس طرح پاکستان کے یورپ کے ساتھ تعلقات ختم ہوجائیں گے۔ تاہم سوال کیا جاسکتا ہے کہ جب ایک دھرنا ختم کروانے کے لئے حکومت اس بارے میں تحریری وعدہ کررہی تھی تو کیا اس وقت اسے سفارتی تقاضوں اور عالمی کنونشنز کے بارے میں علم نہیں تھا؟

پنجاب حکومت نے البتہ کسی نہ کسی حیلے سے تحریک کے سربراہ سعد رضوی کو گرفتار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اب بھی سعد رضوی کی حراست ہی درحقیقت حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان تصادم کا سبب بنی ہے۔ سعد رضوی کی گرفتاری کو لاہور ہائی کورٹ نے غیر قانونی قرار دیا تھا۔ پنجاب حکومت یہ معاملہ سپریم کورٹ لے گئی۔ عدالت عظمی نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم کرنے یا اس کی توثیق کی بجائے، اس معاملہ کو لاہور ہائی کورٹ کو از سر نو غور کے لئے ریفر کردیا۔ اس لئے سعد رضوی اب تک زیر حراست ہے۔ عید میلاد النبیؑ کے دن سے شروع ہونے والے دھرنے کا مقصد دراصل سعد رضوی کی رہائی ہی تھا لیکن اس میں ایک بار پھر فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا معاملہ شامل کرلیا گیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے جمعہ کی صبح وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کے بعد صوبائی کابینہ کے ارکان راجہ بشارت اور چوہدری ظہیرالدین پر مشتمل دو رکنی وفد کو ٹی ایل پی سے مذاکرات کے لئے نامزد کیا تھا۔

بظاہر اس طریقہ سے حکومت صرف مزید وقت حاصل کرنا چاہتی تھی تاکہ احتجاج اور دھرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کی حکمت عملی تیار کی جاسکے۔ یعنی حکومت کے پاس اس مسئلہ کا کوئی سیاسی حل موجود نہیں تھا اور نہ ہی پنجاب حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے پاس ٹی ایل پی کو کوئی رعایت دینے کا اختیار تھا۔ بات چیت کے دوران جب سعد رضوی کی رہائی سے انکار کیا گیا تو مذاکرات معطل ہوگئے اور تحریک کے لیڈروں نے کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کردیا ۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق مظاہرین نے ملتان روڈ پر واقع مرکز سے ریلی کی صورت میں آگے بڑھنا شروع کیا ۔ ایم اے او کالج کے قریب پولیس نے انہیں روکنے کے لیے آنسو گیس کے گولے چلائے ۔ اس دوران ایم اے او کالج سے داتار دربار تک کا علاقہ جھڑپوں کا مرکز بنا رہا ۔ ان جھڑپوں میں تین پولیس اہلکار جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔ ٹی ایل پی کے زخمی کارکنوں کی درست تعداد سامنے نہیں آسکی اگرچہ اس کے قائدین کا دعویٰ ہے کہ سینکڑوں افراد شدید زخمی ہوئے ہیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب اور پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکار مشتعل ہجوم کے پتھراؤ اور آتشیں بم پھینکنے سے جاں بحق ہوئے جبکہ ٹی ایل پی کسی قسم کے تشدد سے انکار کرتی ہے۔ اس کی قیادت کا کہنا ہے کہ پولیس نے آنسو گیس پھینکی جس سے کارکنوں میں بھگدڑ مچ گئی اور متعدد لوگ زخمی ہوئے۔ اسی افراتفری میں پولیس اہلکار بھی کچلے گئے۔ ٹی ایل پی کی شوریٰ نے کہا ہے کہ ہم ملک اور اس کی ہر چیز کے رکھوالے ہیں۔ اور مسئلہ کا پر امن حل چاہتے ہیں لیکن اب مذاکرات سعد حسین رضوی کی قیادت میں ہی ہوں گے۔ ان کی رہائی سے پہلے حکومت سے کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔

تحریک لبیک پاکستان کے ناجائز مذہبی مطالبے کے مقابلے میں وزیر اعظم عمر ان خان کی حکومت نے خود مذہبی حرمت و وقار کا زیادہ بڑا نمائندہ بن کر سامنے آنے کی کوشش کی ہے۔ گزشتہ اپریل میں ہونے والے تصادم کے بعد سے حکومت مسلسل یہ بتانے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ عمران خان اسلاموفوبیا اور حرمت رسولﷺ کے لئے دنیا بھر میں آواز بلند کررہے ہیں اور سب مسلمان ملکوں کو ساتھ ملاکر یورپ اور امریکہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں تاکہ توہین مذہب کا مرتکب ہونے والے لوگوں کو سزائیں دلوئی جاسکیں۔ یہ دعوے مغربی ممالک کی اقدار اور اصولوں سے متصادم ہیں۔ دیگر مسلمان ممالک میں بھی ایسی باتوں کو کوئی خاص پذیرائی حاصل نہیں ہے۔ عمران خان کی طرح ترکی کے صدر اردوان بھی داخلی سیاسی ضرورتوں کے لئے مذہب کو ضرور استعمال کرتے ہیں لیکن توہین مذہب کا جو تصور پاکستان میں عام کیا گیا ہے، اسلامی دنیا سمیت دنیا بھر میں اسے کہیں قبول نہیں کیا جاتا۔

تحریک لبیک نے 2017 میں فیض آباد دھرنے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیاتھا کیوں کہ فوجی قیادت نے واضح کردیا تھا کہ وہ ’اپنے لوگوں‘ کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی۔ بعد میں اس دھرنے کے بارے میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں عسکری عناصر کی مداخلت کا ذکر کیا گیا اور آرمی چیف سے ایسے فوجی عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ آئی ایس آئی نے اس فیصلہ کے خلاف وزارت دفاع کے توسط سے نظر ثانی کی درخواست دائر کی ہوئی ہے جس پر ابھی تک غور نہیں ہؤا۔ ٹی ایل پی کے مرحوم لیڈر خادم رضوی نے 2018 کے آخر میں ایک بار پھر ملک گیر احتجاج منظم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن تحریک کے قائدین کو گرفتار کرکے ٹی ایل پی کو غیر مؤثر بنادیا گیا تھا اور احتجاج کی کوشش ناکام ہوگئی تھی۔ اس وقت تک سول ملٹری تعلقات کے بارے میں بھی اچھی خبریں سامنے آرہی تھیں۔

گزشتہ دنوں آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری کے سوال پر پیدا ہونے والے اختلاف کے بعد اچانک تحریک لبیک پاکستان کی طرف سے احتجاج کرنے کا اعلان اور لاہور میں طاقت کے بھرپور مظاہرے سے یہ شکوک جنم لے رہے ہیں کہ اس تحریک کو ریاست کے کن عناصر کی سرپرستی حاصل ہے اور وہ کیوں کر ایک ایسے مطالبے پر ملک میں معمولات زندگی معطل کرنے پر آمادہ ہے جس پر بظاہر عمل درآمد کی کوئی صورت نہیں ہے۔ دوسری طرف یہ سوال بھی اہمیت اختیار کررہا ہے کہ حکومت ایک تنظیم کو کالعدم قرار دینے کے بعد کیوں خاموش ہوگئی اور اسے تحلیل کرنے یا اس کے فنڈز منجمد کرنے کے بارے میں قانونی تقاضے کیوں پورے نہیں کئے گئے۔

اس پس منظر میں یہ سوال اہمیت رکھتا ہے کہ ٹی ایل پی جو صرف توہین مذہب اور حرمت رسول کے ایک نکاتی ایجنڈے پر سیاست کرتی ہے ، کیاکسی خاص گروہ یا عناصر کے درپردہ مقاصد پورے کرنے کے لئے سرگرم ہوتی ہے یا صرف مذہبی عقیدت ہی اس تحریک کے احتجاج کی بنیاد ہے۔ گزشتہ پانچ برس کے دوران ٹی ایل پی کے طریقہ کار سے البتہ یہ تاثر قوی ہوتا ہے کہ ٹی ایل پی حرمت رسولﷺ کے تحفظ کی آڑ میں بعض سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ 2017 میں اس نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو کمزور اور بے اختیار ثابت کیا تھا ، کیا اب وہ تحریک انصاف کی حکومت کو ناکام کرنے کے لئے میدان میں اتاری گئی ہے؟

ٹی ایل پی گمراہ کن مذہبی نعروں کے ذریعے لوگوں کو فساد پر آمادہ کرتی ہے۔ عمر ان خان نے خود کو مذہب کا زیادہ بڑا چیمپئن ثابت کرکے اس کی طاقت کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ملک کے وزیر اعظم کو سمجھنا ہوگا کہ شدت پسند مذہبی رجحان کو ختم کرنے کے لئے اس شدت پسندی کو اپنانے کی بجائے اس کے خلاف کھڑا ہونا پڑے گا۔ پاکستان اس وقت دنیا بھر میں مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے فوکس میں ہے۔ عمران خان کی تقریریں اور اقدامات اس تاثر کو قوی کررہے ہیں۔ ایک طرف ہزار وں پاکستانیوں کو شہید کرنے والی تحریک طالبان پاکستان کو عام معافی دینے کی کوشش کی جارہی ہے تو دوسری طرف حکومت تحریک لبیک پاکستان کے نعروں کو سرکاری قبولیت دینے کی کوشش کرتی ہے۔ ٹی ایل پی جیسے گروہوں کو اس عاقبت نااندیشانہ حکمت عملی سے قابو کرنا ممکن نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments