زوال کا سفر جاری رہے گا!


قرآن نے ہمیں بتایا ہے کہ خالق کائنات قوموں کے مابین دنوں کو پھیرتا رہتا ہے۔ عروج و زوال تاہم بے سبب ہر گز نہیں۔ اس باب میں اللہ تعالیٰ نے کچھ قوانین مقرر کر رکھے ہیں کہ جنہیں سنن الہٰیہ کہا جاتا ہے۔ غامدی صاحب اپنی کتاب ’میزان‘ میں قرآن مجید کا احاطہ دو بڑے حصوں میں کرتے ہیں۔ ’الکتاب‘ کے باب میں عبادات کے قوانین بیان کیے گئے ہیں جبکہ ’الحکمہ‘ کے عنوان کے تحت ’ایمانیات‘ کے ساتھ ’اخلاقیات‘ کی جزئیات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کتاب ہدایت کا حتمی مدعا انسانوں کا تزکیہ نفس ہے۔ عبادات کا معاملہ تو روز حساب طے کیا جائے گا تاہم ’اخلاقیات‘ کو کسی حد تک اسی دنیا میں بھی قوموں کے عروج و زوال کا سبب قرار دیا جاتا ہے۔

قوموں کے عروج و زوال کے باب میں متعدد سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ کیا قوموں کے مابین معاشرتی اور معاشی اونچ نیچ کے پس پشت قومی تہذیب و تمدن کار فرما ہے؟ کیا جغرافیائی یا موسمیاتی اسباب قوموں کی ترقی یا پسماندگی کا باعث بنتے ہیں؟ یا کہ کچھ قوموں کی پسماندگی کی وجہ ’کم علمی‘ (Ignorance Theory) ہے؟ معلوم ہوا کہ ان سوالات کے جوابات بالعموم نفی میں ہیں۔ اس سب کے برعکس گزشتہ چند صدیوں کے دوران کچھ قوموں کی بے پناہ ترقی کا سبب ان معاشروں کے اندر ایلیٹ کلچر کے خاتمے اور وسیع البنیاد اداروں Institutions) Inclusive (کی موجودگی بتایا جاتا ہے۔

تحقیق ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ہر قوم کی صدیوں پر محیط زندگی میں کئی ایک ایسے ’اہم دوراہے‘ (Crtitical Junctures) رونما ہوتے ہیں، جو قوموں کی تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں۔ یورپ سات آٹھ سو سال پہلے تاریکی میں ڈوبا پڑا تھا۔ چودھویں صدی میں Black Death نے یورپی تاریخ بدلے جانے کی بنیاد رکھ دی۔ کئی ملین انسان وبا کے ہاتھوں مارے گئے۔ مزدور اور زمینوں پر جبری مشقت کرنے والے کسان مفقود ہوئے تو جاگیردارانہ نظام میں دراڑیں نمودار ہونا شروع ہو گئیں۔ کچھ ہی عرصے بعد سپین کے بحری جہازوں نے اٹلانٹک اور پرتگالی مہم جوؤں نے مشرقی سمندروں کا سینہ چاک کیا تو یورپ میں دولت کی ریل پیل ہو گئی۔ جاگیر داری نظام (Landed Aristicracy) اپنے قدموں سے اکھڑنے لگا۔

یورپ نے دوسری بار خود کو ’اہم دوراہے‘ پر اس وقت کھڑے پایا جب بلیک ڈیتھ کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں رونما ہونے والی معاشرتی اور معاشی تبدیلیاں سترویں صدی عیسوی میں Glorious Revolution کی صورت اپنے عروج کو پہنچیں۔ بادشاہ اور زمینوں پر قابض اس کے پروردہ جاگیر داروں کے خلاف کسی اور نے نہیں درمیانے طبقے کے تاجروں اور کسانوں نے انقلاب برپا کیا۔ مطالبہ کیا گیا کہ جنگیں چھیڑنے اور ٹیکسوں کے نفاذ کے فیصلے بادشاہ نہیں پارلیمنٹ کیا کرے گی۔

زمینوں کے مالکانہ حقوق جاگیر داروں سے چھین لئے گئے۔ انقلاب کا بنیادی محرک انسانی حقوق اور جمہوریت نہیں بلکہ تاجروں اور کسانوں کے معاشی حقوق تھے۔ معاشرے میں آسودگی نیچے تک پھیلی تو تعلیم کا نظام بھی مضبوط ہوتے ہوتے اگلی صدی میں پہلے صنعتی انقلاب کی بنیاد بنا۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدیوں میں ایک کے بعد ایک ریفارمز بل کی صورت جمہوری مطالبے سامنے آنا شروع ہو گئے۔ خود مختار اور وسیع البنیاد معاشی اداروں کے سر پر ہی مضبوط سیاسی ادارے کھڑے ہونا شروع ہوئے۔

برطانیہ میں اٹھنے والے انقلاب کے اثرات پھیلے تو فرانس کے خونی انقلاب کے بعد ہی سہی، پورے مغربی یورپ نے بادشاہی اور جاگیرداری نظام سے پیچھا چھڑا کر وسیع البنیاد قومی ادارے قائم کرنا شروع کر دیے۔ مشرقی یورپ، روس اور اسلامی سلطنت پرانی ڈگر پر ڈٹے رہے اور زوال کے راستے پر لڑھکتے ہی چلے گئے۔ پہلے صنعتی انقلاب کی صورت میں تیسرا ’اہم دوراہا‘ سامنے آیا تو مغربی یورپ اور شمالی امریکہ اپنے مضبوط معاشی اور سیاسی اداروں کے بل بوتے پر نئی ٹیکنالوجی کے ثمرات سمیٹنے کو تیار تھے۔ انیسویں صدی کے اختتام تک ترقی یافتہ اور زوال پذیر اقوام میں تقسیم واضح ہو چکی تھی۔

بیسویں صدی میں اس امر سے قطع نظر کہ کس ملک میں کون سا طرز حکومت رائج ہے یہ طے ہو چکا تھا کہ وہی قومیں دنیا پر حکمرانی کریں گی جہاں محدود Elitist گروہوں کے مفادات کی نگہبانی کرنے والا نہیں، ’اخلاقیات‘ پر مبنی نظام اور وسیع البنیاد قومی ادارے کار فرما ہوں گے۔ چنانچہ جاپان میں مغربی جمہوریت جبکہ چین میں یک جماعتی نظام رائج ہونے کے باوجود کے ہر دو ممالک نے حیران کن ترقی کی ہے۔

وطن عزیز کی مختصر زندگی میں پہلا ’اہم دوراہا‘ (Critical Juncture) استعمار کے استحصالی (Extractive) نظام سے آزادی کی صورت سامنے آیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہم قدرت کی طرف سے ملنے والے اس نادر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوامی مفاد عامہ کی نگہبانی پر معمور وسیع البنیاد قومی ادارے قائم کرتے۔ اس کے برعکس معاشرہ ایلیٹ گروہوں کے نرغے میں مزید پھنستا چلا گیا۔ نو سال تک ہم آزاد ادارے تو کیا، ایک آئین تک نہ بنا سکے۔

بد عنوانی، شخصی آمریت، سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور جاگیردارانہ مفادات نے فوجی آمریت کی راہ ہموار کی۔ فوجی حکمران کا استقبال عوام نے کھلے بازوؤں کے ساتھ اس امید سے کیا کہ ان کے حالات بدلیں گے۔ کچھ عرصہ میں فوجی جنتا مگر ایک نئے ایلیٹ گروپ کی صورت اختیار کر گئی۔ آمریت اور جمہوری ادوار ایک کے بعد ایک آتے جاتے رہے، وطن عزیز آج بھی ایک جدید اسلامی فلاحی معاشرہ نہیں، ایلیٹ طبقات کی چراگاہ ہے کہ جہاں مخصوص طاقتور گروہ ایک دوسرے کے مفادات کے نگہبان ہیں۔ زوال پذیر ملکوں میں جب کوئی فوجی آمر، جمہوری حکمران یا انقلابی رہنماء نظام کو بدلنے کا نعرہ لے کر کسی بد عنوان حکومت کا تختہ الٹ کر برسر اقتدار آتا ہے تو دیکھا گیا ہے کہ جلد یا بدیر وہ خود بھی اسی کرپٹ نظام کا حصہ بن جاتا ہے۔ معاشی اور معاشرتی علوم کے ماہرین اسے Iron Law of Oligarchy کہتے ہیں۔

کہا جا سکتا ہے کہ حالات کے ہاتھوں ستائی ہوئی پاکستانی مڈل کلاس نے اکتوبر 2011 ء کی ایک شام خاموش انقلاب برپا کیا تھا۔ کہا جا سکتا ہے کہ آزادی کے کئی عشروں بعد ہم ایک بار پھر ایک ’اہم دوراہے‘ پر کھڑے تھے۔ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ انقلاب شخصیات برپا نہیں کرتیں بلکہ برپا انقلاب کے نتیجے میں کوئی ایک فرد اچانک ابھر کر تبدیلی کا استعارہ بن جاتا ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اکتوبر 2013 ء کی شام مینار پاکستان کے سائے تلے جمع ہونے والے ہجوم کو عمران خان کھینچ کر لائے تھے یا حالات سے اکتائے عوام نے محض ایک شخص کی ذات میں اپنا مسیحا ڈھونڈ لیا تھا۔

تین سالہ حکمرانی کے بعد طاقتور ایلیٹ گروہوں کی طرف سے مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ ’عمران خان پراجیکٹ‘ ناکام ہو چکا ہے، لہٰذا ان کو ہٹایا جائے اور اقتدار واپس انہی میں سے کسی کے حوالے کر دیا جائے۔ عمران خان محض ایک فرد ہیں، وہ چلیں جائیں گے تو کوئی اور آ جائے گا۔ افراد بدلتے رہیں گے، نظام حکومت تبدیل ہوتے رہیں گے، خود غرضی، اقرباء پروری، ٹیکس چوری اور بد عنوانی پر مبنی ایلیٹ گروہوں کے مفادات کا نگہبان ظلم اور جبر کا نظام جوں کا توں قائم رہے گا۔ یہی Iron Law of Oligarchy ہے۔ یہی صدیوں سے قوموں کے عروج و زوال کی داستان ہے۔ اسی کو سنت الہٰیہ بھی کہا جاتا ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments