ہرات کی بات
افغانستان کی عمومی زبوں حالی کا کچھ تذکرہ گزشتہ مراسلے میں ہوا تھا۔ ہمارے ادارے نے اقتصادی بحران کے خصوصاً غریب ترین طبقات پر اثرات کو کسی حد تک کم کرنے کی خاطر کچھ فوری اقدامات کا آغاز کیا ہے۔ ان میں سر فہرست لوگوں کو روزانہ مزدوری فراہم کرنا ہے کہ کچھ رقم ان کی جیب میں آئے، منڈی میں موجود اشیائے صرف کی طلب میں کچھ اضافہ ہو اور معیشت کا رکا ہوا پہیہ ذرا رواں ہو پائے۔ کوشش ہے کہ ان کاموں میں ایسے منصوبوں کو اولیت دی جائے جن سے پائیدار بحالی میں بھی کچھ اضافہ ہو اور خصوصاً قدرتی آفات کے خطرات کو بھی کم کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں اس خادم کو ادارے کی جانب سے تاریخی شہر ہرات جانے کا موقع ملا۔
تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے احباب نے خطہ ”رے“ کا ذکر پڑھا ہو گا۔ قبلہ احمد جاوید صاحب کا کیا اچھا شعر ہے کہ
اتنا حسیں کوئی نہیں، ایسا کہیں کوئی نہیں
دیکھا ہے سارا روم و رے، چھانا ہے سب چین و چگل
سو ہرات کا شہر اسی رے نامی خطے میں واقع ہے جہاں کے رہنے والے ”رازی“ کے لقب سے ملقب ہوتے تھے۔ علامہ اقبال کی راتیں بھی رازی کے پیچ و تاب اور رومی [در حقیقت بلخی] کے سوز و ساز سے الجھتے گزرا کرتی تھیں۔ ہرات تیمور لنگ کی قائم کردہ سلطنت میں اہم مقام رکھتا تھا اور اس دور میں علم و فن کا مرکز بن گیا تھا۔ تیموری دور کا قلعہ اختیار الدین، شہزادی گوہر شاد کے مقبرے سے متصل اس کی رصد گاہ کے مینار اور جہاں تہاں بکھرے آثار قدیمہ اس شہر کے ماضی کی عظمت کے گواہ ہیں۔ شہر ”ہری رود“ نامی دریا کے کنارے پر آباد ہے۔ کچھ ماہرین بشریات و اسطوریات کے مطابق ہندو رزمیہ مہا بھارت درحقیقت قدیم آریائی حماسہ ہے اور اس لڑائی کا وقوع دہلی کے قریب اندر پرستھ میں نہیں بلکہ ہرات میں ہری رود کے کناروں پر ہوا تھا۔
وہ مردک مولوی نعمت اللہ ہروی بھی یہیں کا باشندہ تھا جس نے اکبر اعظم کے دربار میں افغانوں کے نسب پر ہونے والی طعنہ زنی کے جواب میں افغانوں کے بنی اسرائیل اور حضرت خالد بن ولید کی مخلوط نسل ہونے کا بے بنیاد افسانہ تراشا جسے اب تک پشتونوں کے وسیع حلقے میں قبول عام حاصل ہے۔
جدید شہر نہایت صاف ستھرا اور سلیقے سے، ترتیب وار بسا ہوا ہے۔ کچھ اہل علاقہ تمیز دار ہیں تو کچھ بین الاقوامی اداروں کا مالی تعاون بھی بلدیہ کے شامل حال ہے۔ اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ ہمارے محترم دوست اور استاد علی توقیر شیخ کے بقول، تمام ترقی پذیر ممالک کا قومی ”پھول“ یعنی پلاسٹک کا لفافہ بہت کم بکھرا نظر آیا۔ سب سے حوصلہ افزا بات یہ دکھائی دی کہ کابل کی نسبت زیادہ تعداد میں خواتین اکیلی، حجاب اوڑھے سڑکوں پر چلتی نظر آئیں۔ ایک اجلاس میں خواتین کے ایوان تجارت کی عہدہ دار خواتین سے سیر حاصل گفتگو ہوئی جس میں انہوں نے ملک اور علاقے کو درپیش اقتصادی اور سماجی مسائل پر کھل کر تبادلہ خیال کیا اور تجاویز دیں۔ ہرات ایران سے متصل ہے اور سرحدی قصبے ”اسلام قلعہ“ کے راستے تجارت ہوتی ہے جہاں قندھار اور طورخم جیسی ناجائز قدغنیں نہیں ہیں۔ لہذا ہرات کو ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت ذرا مرفہ الحال سمجھا جاتا ہے، اگرچہ مجموعی مالیاتی بحران کے اثرات یہاں بھی نمایاں ہیں۔
دو عدد اچھی خاصی چوڑی نہریں ہرات شہر کے بیچ سے گزرتی ہیں۔ ایک نہر ”انجیل“ کہلاتی ہے تو دوسری ”جوئے نو“ ۔ ان میں پانی کی اچھی خاصی مقدار گزارنے کی صلاحیت ہے لیکن ایک تو شہر پھیل جانے کے سبب ان کے کنارے آباد ہو گئے ہیں اور گھروں کا گندا پانی ان میں ڈالا جانے لگا ہے اور دوسرے کئی عشروں سے ان کی ”بھل صفائی“ نہیں ہو پائی چنانچہ اکثر جگہ یہ نہر کے بجائے گندے نالوں کا منظر پیش کرتی ہیں۔ ہمارے ادارے نے ایک منصوبے کا آغاز کیا ہے جس کے تحت ابتدا میں ”انجیل“ کی ساڑھے چھے کلومیٹر کی اس مسافت کو مقامی مزدوروں کے ذریعے صاف کرنا مقصود ہے جو گھنی آبادی کے درمیان سے گزرتی ہے۔ خدشہ تھا کہ یہ مسافت کیچڑ سے اس قدر بھر چکی ہے کہ سردیوں کے بعد برف پگھلی تو پانی نہر میں نہ سما پائے گا اور آس پاس کی بستیوں اور بازاروں کو ڈبو دے گا۔ واقعی، اس خادم نے مشاہدہ کیا کہ بعض جگہ بدبودار گاد کی تہہ پانچ فٹ کے قریب گہری ہو چکی ہے۔
لوگ اس قدر لاچار ہیں کہ اس عارضی روزگار کی خاطر بھی جوق در جوق امنڈ آئے۔ امیدواروں میں ایک صاحب تو یونیورسٹی کے نفسیات کے پروفیسر رہے تھے لیکن ہاتھ سے مزدوری پر مجبور تھے۔ سچ پوچھیے تو یہ حالت دیکھ کر دل بھر آیا۔
ہرات کے سرپرست ولی، یا ”پیر ہرات“ ابو اسماعیل خواجہ عبداللہ انصاری الہروی کوئی ہزار سال قبل گزرے ہیں جن کی چلہ گاہ اور مزار شہر کے ایک کنارے پر واقع ہیں۔ ہرات کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ بھی انہی کے نام نامی سے موسوم ہے۔ خواجہ صاحب کی نسبتوں کو دیکھا جائے تو آج کی کٹر پنتھی فرقہ بندی کے تناظر میں عجیب لگتا ہے۔ مذہباً سنی حنبلی تھے لیکن قرآن مجید کی تصوف کے رنگ میں لکھی جانے والی وقیع ترین تفسیر ”کشف الاسرار فی عدۃ الابرار“ اور اہل تصوف کی ہدایت کے لیے لکھے گئے مشہور رسالے ”زاد العارفین“ اور ”کنز السالکین“ انہی کے قلم سے نکلے۔
مزار کا احاطہ وسیع ہے جس میں تیموری خاندان کے کئی شہزادے اور افغانستان کے ایک بادشاہ امیر دوست محمد خان بھی مدفون ہیں۔ زوایہ اور مسجد میں کیا گیا کاشی کاری کا کام اکثر جھڑ چکا ہے۔ ماضی قریب میں ترکی اور اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے کے تعاون سے کچھ بحالی کا کام شروع ہوا تھا لیکن وہ موجودہ حالات کے پیش نظر تعطل کا شکار ہے۔ مزار کے احاطے میں ایک تیموری شہزادے کی قبر کا تعویذ خاصے کی چیز ہے جو ”سنگ ہفت قلم“ کہلاتا ہے۔ اس پر سات مختلف فنون استعمال کرتے ہوئے کندہ کاری کی گئی ہے۔ کئی بار نوادرات کے چور اڑا لے گئے مگر ہر بار بازیاب ہوا۔
خواجہ صاحب کے مرقد پر حاضری اور فاتحہ خوانی کے بعد ہمارے میزبان ہمیں مولانا فخر الدین رازی، کے مزار پر لے گئے جسے حال ہی میں بحال کیا گیا تھا۔ فخر الدین رازی کا شمار اپنے دور کے عبقریوں میں ہوتا ہے بلکہ کئی اعتبار سے اپنے ہم عصروں سے صدیاں آگے دکھائی دیتے ہیں۔ مجمع العلوم قسم کے عالم تھے اور بیک وقت دین، ادب، فقہ، فلکیات، ہندسہ، فلسفہ پر یکساں عبور رکھتے تھے۔ بطلیموسی کائناتی ماڈل کے مقلد بیسویں صدی کے کچھ اماموں کے برعکس علامہ رازی سورج کو نظام شمسی کا مرکز اور سیاروں کو اس کے گرد گرداں سمجھتے تھے۔ اپنی تصنیف ”مباحث الشرقیہ فی علم الالہیات و الطبعیات“ میں اس امکان کی جانب بھی اشارہ کیا ہے خلائے بسیط میں ہم جیسے دیگر نظام ہائے شمسی پائے جاتے ہیں، جو آج سے ہزار برس پہلے ایک انتہائی حیرت ناک اور متنازعہ دعوی رہا ہو گا۔
ہرات کے باسیوں کی بود و باش اور طرز خوراک پر ایرانی اثرات نمایاں ہیں۔ یہاں کا خاص پکوان کچھ ویسی چیز ہے جو ہمارے ہاں انگریزی نام ”باربی کیو مکس پلیٹر“ کے نام سے ملتی ہے، اور مقامی طور پر ”سینی“ کہلاتی ہے۔ زبان پر بھی دری کی نسبت ایرانی اسمائے معرفہ کا اثر ہے۔ مثلاً فرنیچر کے لیے یہاں فرانسیسی، ثم ایرانی اصطلاح ”مبیل“ استعمال ہوتی ہے۔ سپر مارکیٹ ”فروشگاہ بزرگ“ ہے اور یونیورسٹی ”دانشگاہ“ ۔
یہاں کی مقامی دست کاری میں نیلی ٹائلوں والا کاشی کاری کا کام مشہور ہے۔ اس کے علاوہ پھونک مار کر پگھلے ہوئے شیشے سے ظروف بنانے کا فن بھی ہرات کی خاص پہچان ہے۔ اس نازک فن کا مظاہرہ یہ خادم دمشق میں بھی دیکھ چکا تھا لیکن اتفاقا ہرات آ کر میر صاحب کے شعر کے ایک اضافی معنی کی جانب دھیان گیا۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
- موت سے پہلے مرنے والا آدمی - 05/04/2024
- پہلوان سخن سے بناکا گیت مالا اور ”ایکس“ تک - 23/02/2024
- زلزلوں کی پیش گوئی کی سائنس - 10/10/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).