کیا سیاسی کارکن قومی سلامتی کے دشمن ہیں؟


محترم وسعت االلہ خان نے قومی سلامتی پلس کے زیر عنوان لکھا تھا کہ، ’ وہ دن ہوا ہوئے جب قومی سلامتی کو لوگوں سے خطرہ تھا، آج لوگوں کو قومی سلامتی سے خطرہ ہے‘۔ خیال آیا کہ وطن عزیز کے تناظر میں قومی سلامتی کو دیکھا جائے کہ دراصل ہے یہ طوطی کس نقارخانے سے نغمہ سرا ہے؟ نیز اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے کہ کیا ہم قومی سلامتی کے مخالف ہیں؟

قومی سلامتی ایسے مبہم استعارے کا ڈول پہلے پہل ’وطن پرستی‘ کے نام پر قیام پاکستان کے ساتھ ہی مسلم لیگ کی ذیلی قیادت نے ڈالاجو دراصل جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں پر مشتمل تھی۔ یہ صاحبان بصیرت سیاسی اور سماجی تربیت کو سیاسی مکالمے اور سیاسی عمل سے بہتر بنانے کی بجائے متروکہ املاک، وزارت اور طاقت کے حصول جیسے معاملات میں زیادہ دلچسپی لیتے تھے۔ چونکہ پاکستان قائم ہو چکا تھا اس لئے سیاسی میدان میں ان کے کرنے کا کام غداروں کا تعین تھا۔ یوں باچا خان کے خدائی خدمت گار وطن پرستی کا پہلا شکار بنے۔

زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ ان لوگوں کے ہاتھوں سے طاقت کی بانسری ہمارے قومی ممدوح فیلڈ مارشل ایوب خان نے چھین لی۔ وطن پرستی کا نام قومی مفاد پڑ گیا۔ وقت کا ستم دیکھیے کہ ان لوگوں نے وطن پرستی کا جو بیج بویا تھا وہ اب ایک چھوٹے سے ڈنڈے میں تبدیل ہو کر قومی مفاد کے نام پر ایوب خان کے ہاتھ میں تھا اور اس سے انہی لوگوں کو ہانکا جانے لگا جو اس کے خالق تھے۔ البتہ ان میں کچھ صاحب تدبر بھانپ گئے تھے کہ وطن عزیز میں قائدانہ صلاحیت کے جوہر صرف ایوب خان کی ذات والا میں موجود ہیں اس لئے وہ تو ساتھ ہو لئے۔ اہل تقوی نے بھی بھانپ لیا کہ عورت کی حکمرانی جائز نہیں اس لئے اسی وجیہہ مرد کے ساتھ مل کر قومی مفاد کے لئے کام کرتے ہیں۔ اس دور میں قومی مفاد کا شکار بلوچستان اور سرحد سے لے کر بنگال تک کے سیاسی کارکن ہی ہوتے رہے۔ یحیی خان صاحب تشریف لائے تو قومی مفاد کے نام پر ملک ہی دو لخت ہو گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے تو وطن پرستی اور قومی مفاد کا نیا نام ملکی سلامتی پڑ گیا۔ پھر ملکی سلامتی کی لپیٹ میں ولی خان، شیخ مجیب، اجمل خٹک، عطا االلہ مینگل، عبدالصمد اچکزئی، غوث بخش بزنجو، جی ایم سید، محمود اچکزئی، ڈاکٹر مالک بلوچ اور حتی کہ فیض اور جالب تک سب آتے رہے۔ یہاں تک کہ خود ذوالفقار علی بھٹو قومی سلامتی کے نام پر برخواست ہوئے اور ایک مبہم مقدمے میں تختہ دار پر چڑھا دیے گئے۔ قومی سلامتی کی کتاب میں ضیاء الحق کے دور میں کئی ابواب کا اضافہ ہوا۔ چونکہ ضیاء صاحب اسلام کا نفاذ چاہتے تھے۔ امریکہ روس کو تاراج کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے پہلے تو وہ سیاسی قوتیں قومی سلامتی کے مخالف سمجھی جانے لگیں جو امریکہ اور سعودی جنگ کی مخالف تھیں۔ قومی سلامتی کے ساتھ جہاد جڑ گیا۔ اب چارلی ولسن کی مخالفت بھی جہاد کی مخالفت سمجھی جانے لگی۔ اہل تقوی نے جوش خطابت سے سوشل ازم ایسے ٹھیٹ سیاسی نظام کو الحاد سے جوڑ دیا۔ کچھ ماورا النظر نظریاتی سرحدوں کو تخلیق کیا گیا۔ لے دے کر تان یہاں ٹوٹی کہ ضیائی آمریت کی مخالفت دراصل اسلام کے نفاذ کا راستہ روکنے کی کوشش ہے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے دور میں قدرے وطن پرستی، قومی مفاد کا سلسلہ کم ہوا البتہ اسلامی مفاد کے لئے طالبان کا جہاد تخلیق ہوا۔ اس دور میں طاقت کے حصول کے لئے عسکری اداروں کی طرف نگاہیں بلند ہوتی رہیں۔ ہنگامی اور موقع پرست سیاست زوروں پر تھی۔ یہاں تک کہ پرویز مشرف صاحب تشریف لے آئے۔ یہ صاحب خود کو روشن خیال گردانتے تھے مگر سمجھتے تھے کہ ملک کے تمام مسائل کے حل کی گیدڑ سنگھی انہی کے پاس ہے۔ نائن الیون کے سانحے نے دنیا کی سیاست بدل دی۔ ابلاغ کے ذرائع عوامی ہو گئے۔ جو دوست تھے وہ دشمن قرار پائے اور یوں آمریت نے ایک اور دہائی نکال لی۔

بقول غالب، میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی۔ بہتر برس پیشتر جو کام وطن پرستی کے نام پر شروع ہوا تھا، تاریخ اور حالات نے اسے اب ایک تناور درخت بنا دیا جسے قومی سلامتی کہتے ہیں۔ اس کارخیر ایک نتیجہ یہ نکلا کہ وطن عزیز کی گلیاں خون سے رنگین ہوئیں۔ انسانیت دشمنوں نے انسانی خون مسجد، مدرسے، امام بارگاہ، بازار، چوک، سکول، یونیورسٹی اور ہسپتال تک میں ہر جگہ بہایا۔ اور دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ اس میں حکومتیں بھی برخاست ہوئیں۔ جیل خانے بھی بھرئے گئے۔ ٹارچر سیلز میں سیاسی کارکن مرتے بھی رہے۔ سیاسی جلسوں میں قتل عام ہوتا رہا۔ فوجی آپریشن بھی ہوئے اور سیاسی قیادت سے لے کر وزرائے اعظم تک پھانسی اور جلاوطنی بھی چلتی رہی۔ قومی سلامتی کے بے دریغ استعمال میں سیاسی اور عسکری تفریق کوئی نہیں تھی۔ جس کے ہاتھ میں طاقت تھی وہ قومی سلامتی کا پاسبان تھا۔

اب صورت حال یوں ہے کہ قومی سلامتی ایسے مبہم استعارے میں ایک جہان آباد ہے۔ اس کے اجزاء میں ملکی سلامتی، قومی مفاد، پاکستانیت، افغان جہاد، نظریاتی سرحدیں، ڈیورنڈ لائن، کشمیر پالیسی، سعودی شاہوں پر تنقید، وغیرہ سب شامل ہو چکے ہیں۔ سوشل ازم اور سیکولر ازم جیسے سیاسی بندوبست کی بات کرنا بھی قومی سلامتی کے نزدیک الحاد و لادینیت اور مادر پدر آزاد معاشرے کی مانگ ہے جو ملک کے نظریاتی سرحدوں پر حملہ تصور ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا ہتھیار بن چکا ہے جو اپنے کم ترین سطح پر سوشل میڈیا پر بیٹھے مڈل پاس آدمی کے ہاتھ میں ہے جو اس سے کبھی وسعت االلہ خان کی گردن ناپنا چاہتا ہے اور کبھی ملالہ کا سر اتارنا چاہتا ہے۔ کہیں یہ ان ٹیلی افلاطونوں کے ہاتھ میں ہے جو لال قلعہ پر پرچم لہرانا چاہتے یا افغانستان سے گھوڑوں پر سوار آنے والے مجاہدین کے منتظر ہیں۔ کہیں کہیں یہ شیخ رشید ٹائپ لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو کسی بھی سیاسی مخالف کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ ایک ہڑبونگ ہے جو مچا ہوا ہے۔

اس طویل دراز نفسی کا مدعا یہ تھا کہ قومی سلامتی ایک احساس ہے۔ وطن سے محبت کرنے والا ہر شخص وطن کی سلامتی کے جذبات سے لبریز ہے۔ قومی سلامتی کا ایک جزو ملک کا دفاع ہے جس کے اصل پاسبان اس ملک کے عسکری ادارے ہیں۔ ہم جیسے طالبعلم بعض اوقات اپنے عسکری اداروں سے اختلاف کر لیتے ہیں یا کسی معاملے پر سوال اٹھا لیتے ہیں جسے اخباری صفحات اور سوشل میڈیا پر اس تاثر کے ساتھ پھیلایا جاتا ہے جیسے ہمیں فوج کے ادارے سے کوئی بذات اختلاف ہے۔ دیکھیے چار بار کے مارشل لاؤں سے ایک بات تو سامنے ہے کہ وطن عزیز میں مختلف مواقعوں پر فوج اقتدار کی جنگ فریق رہی ہے۔ یہ وطن ہمارا سانجھا ہے اور یہ فوج ہماری اپنی ہے۔ فوج کے ادارے سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ یہ ہمارے ہی بھائی ہیں۔ ہمارے ہی بیٹے ہیں جو اس مٹی کی دفاع پر مامور ہیں۔ ہمارے ملک کا آئین فوج کے ادارے کو سیاست میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔ ہم فوج کے اس سیاسی کردار کے مخالف ہیں۔ ہمارے ملک کے اجتماعی سیاسی شعور نے جمہوریت کو بطور نظام اپنے لئے پسند کیا ہے۔ یہ عوام کے حق حکمرانی کا سوال ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں کی افغان پالیسی نے ہمیں خاک و خون کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ہم تسلسل سے یہ سوال اٹھاتے رہے ہیں کہ اس پالیسی کو اب ترک کیوں نہیں کیا جاتا۔ یہ کسی فوجی جوان کی قربانی یا کردار پر سوال نہیں ہے یہ ہماری اجتماعی بقا کا سوال ہے۔ کچھ مخصوص لوگ جن کا فوج کے ادارے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، وہ سیاسی جلسوں میں یا ٹی وی پروگراموں اور اخبارات کے صفحات میں فوج کے نمائندے کی حیثیت سے قوم کے نرخرے پر سوار ہیں۔ کبھی وہ کسی جرنیل کے چہرے کی کیفیات سے ہمیں باخبر کر رہے ہوتے ہیں کہ کب فوج حکومت کو چلتا کرنے والی ہے۔ کبھی وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ فوج کیا سوچ رہی ہے؟ وہ یہ باور کراتے ہیں کہ وہ فوج کے قریبی حلقوں سے ہیں۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ فوج کے پاس ذرائع ابلاغ کا اپنا ادارہ موجود ہے۔ اسے کچھ کہنا ہے تو اپنے ذرائع کو استعمال کرے۔ کچھ حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ عسکری ادارے لوگوں کی جبری گمشدگی میں ملوث ہیں۔ ہمارے پاس اس کا کوئی واضح ثبوت نہیں ہے لیکن اگر ایسا ہے تو ہمارا مطالبہ ہے کہ اس ملک کے کسی شہری کو ماورائے آئین نہیں اٹھایا جا سکتا۔ اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو اسے باقاعدہ گرفتار کیا جائے اور عدالت میں پیش کیا جائے۔ اس سے عسکری ادارے کا اپنا تاثر خراب ہوتا ہے۔ تو عرض مدعا یہ تھا کہ بھائی ہم قومی سلامتی کے مخالف نہیں ہیں مگر آپ قومی سلامتی کو حافظ سعید صاحب کی مخالفت یا ملالہ کی حمایت سے تو نہ جوڑیں۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments