کرکٹ میں ہندوتوا کا جنون و تعصب


عرصہ ہوا “یہ جینا بھی کیا جینا ہے “والی مردہ دلی کی زد میں آچکا ہوں۔ ٹی وی دیکھنے کا عادی کبھی بھی نہیں رہا۔ جوانی میں کرکٹ کے میچوں پر ریڈیو کے ذریعے انگریزی میں ہوا رواں تبصرہ اپنے محلے کے تھڑوں پر بیٹھے لوگوں کے لئے پنجابی میں بیان کردیا کرتاتھا۔ اس کھیل کا دیوانہ مگر کبھی نہیں رہا۔ اخبارات پڑھنے کی علت اگرچہ اب بھی لاحق ہے۔ تازہ ترین کے لئے سوشل میڈیا سے بھی مسلسل رجوع کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ فیس بک اور ٹویٹر جب متعارف ہوئے تھے تو مجھے بہت پسند آئے تھے۔ ان دونوں کو بہت چائو سے استعمال بھی کیا۔ اب وہاں جو ٹرینڈ نظر آتے ہیں وہ مگر سرچکرادیتے ہیں اور حال ہی میں ہماری ایک محنتی ساتھی عاصمہ شیرازی کو جس انداز میں حکومت کے جنونی مداحین نے اپنی نفرت کا نشانہ بنایا اس نے جی کو مزید اداس وپریشان کردیا۔

دل کو بہلانے کیلئے اب فقط کتابیں ہی رہ گئی ہیں۔ اس ضمن میں اپنی ایک سنجیدہ ساتھی عارفہ نور کی رائے کا بہت احترام کرتا ہوں۔ اب کی بار اس نے کسی کتاب کا ذکر کرنے کے بجائے اسے خرید کر مجھے تحفے میں دی ہے۔ اس کی دی کتاب کا نام ہے “The Afghanistan Papers”۔ دستاویزاتِ افغانستان اس کا آسان ترجمہ ہوسکتا ہے۔ اسے مشہور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے ایک صحافی کریگ ویٹلاک (Craig Whitlock)نے بہت محنت سے لکھا ہے۔ اتوار کی شام اپنے کمرے میں اکیلے بیٹھ کر اسے پڑھنے میں مصروف ہوگیا۔ دریں اثناء تازہ ترین جاننے کے لئے فون پر ٹویٹر اکائونٹ بھی دیکھتا رہا۔

اسے دیکھتے ہوئے یاد آیا کہ طویل وقفے کے بعد پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے مابین T-20کا ایک میچ بھی ہونا ہے۔ ورلڈ کپ کے لئے ہوئے اس فارمیٹ کے میچ کو پاکستان نے غالباََ بھارت سے کبھی جیتا نہیں۔ مجھے یہ بھی خبر نہیں تھی کہ ان دنوں پاکستان ٹیم کا کپتان اور دیگر اہم کھلاڑی کون ہیں۔ بے نیاز رہنے کا لہٰذا فیصلہ کر لیا۔ بے نیازی اس وقت مزید جائز محسوس ہوئی جب ٹویٹر کے ذریعے ہی خبر ملی کہ پاکستان نے ٹاس جیت کر بھارت کو بیٹنگ کی دعوت دی ہے۔ جبلی طور پر میں نے اس فیصلے کو احمقانہ تصور کیا۔ مخالف ٹیم کے دئیے ٹارگٹ کا تعاقب کرتے ہوئے ہمارے کرکٹر اکثر بوکھلا جاتے ہیں۔ فرض کرلیا کہ اب کے بار بھی ایسے ہی ہوگا۔ میچ شروع ہوتے ہی لیکن ٹویٹر کے ذریعے خبر ملی کہ ہماے ایک بائولر نے بھارت کے اوپننگ بلے باز کو زیروپر آئوٹ کردیا ہے۔ یہ خبر ملتے ہی کتاب کو ایک طرف رکھ کر ٹی وی لگا لیا۔

کئی برسوں کے بعد میں نے T-20کے ایک میچ کو اس کے اختتام تک دیکھا ہے۔ جی کو اس کی وجہ سے ملال نہیں بلکہ بہت مان اور اطمینان محسوس ہوا۔ پاکستان کے نسبتاََ نوجوان اور کم تجربہ کار کھلاڑی اس میچ کے آغاز سے اختتام تک ٹھنڈے دل ودماغ سے ایک بہترین حکمت عملی کو بروئے کار لاتے ہوئے نہایت اعتماد سے فتح کی جانب گامزن رہے۔ T-20کے میچوں میں اکثر چھچھوراپن بھی نظر آتا ہے۔ اتوار کی شام مگر پاکستانی ٹیم نے بھارت کا مقابلہ کرتے ہوئے کرکٹ کو اس انداز میں کھیلا جسے کسی زمانے میں نام نہاد جینٹل مینوں کے لئے مختص تصور کیا جاتا تھا۔ میچ کا آغاز ہوتے ہی شاہین آفریدی نے بھارت کے تجربہ کار کھلاڑی کو میدان سے باہر بھیج دیا۔ دیگر بائولروں نے بھی نپی تلی مہارت سے حواس باختہ ہوئی مخالف ٹیم کو مسلسل دبائو میں رکھا۔ اپنی باری لیتے ہوئے پاکستان کے کپتان بابر اعظم نے دوسرے اوپنر رضوان کے ساتھ مل کر تاریخ بھی بنادی۔ کسی بھی وکٹ کے نقصان کے بغیر بھارتی ٹیم کا دیا ہدف نہایت سکون اور اعتماد سے حاصل کرلیا۔

اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے پاکستان میں ان دنوں جو مایوسی اور ہیجان پھیلے ہوئے ہیں پاکستان کے نسبتاَ جوان کھلاڑیوں نے اتوار کی شام ان سے ہمیں چند گھنٹوں کے لئے آزاد کردیا۔ ٹویٹر پر عموماَ ایک دوسرے کے غیر مہذب زبان میں لتے لینے والے کئی نام یکجا ہوکر پاکستانی ٹیم کی دادوتحسین میں مصروف رہے۔ اتوار کے روز ہمارے کھلاڑیوں کی محنت، لگن اور یکسوئی سے حاصل ہوئی جیت نے نیوزی لینڈ اور برطانیہ کو بھی شرمندہ ہونے کو مجبور کردیا ہوگا جنہوں نے حال ہی میں عین آخری لمحات میں پاکستان کے ساتھ ہمارے ملک میں سکیورٹی کو بہانہ بناتے ہوئے کرکٹ کھیلنے سے انکارکردیا تھا۔

سچی بات یہ بھی ہے کہ بھارتی ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی نے نہایت وقار سے اپنی ہار کو تسلیم کیا۔ ہمارے کپتان اور رضوان کو گلے لگاکر شاباش دی۔ بھارتی شایقین کی بے پناہ اکثرت مگر ایسے وقار کا مظاہرہ نہ کر پائی۔ مودی سرکار نے ہندوتوا کے نام پر جو تعصب بھارتیوں کے دلوں میں انتہائی وحشت سے جاگزیں کیا ہے اس کا بدترین مظاہرہ اتوار کی شام دیکھنے کو ملا۔ میچ ہارنے کا سارا الزام شامی نام کے بائولر پر لگا دیا گیا۔ اس کا بنیادی گناہ مگر شامی کی مذہبی شناخت تھی کھیل کا اندازنہیں۔

بھارتی سوشل میڈیا پر حاوی متعصب افراد کی بے پناہ اکثریت کو یہ شکوہ بھی رہا کہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی فتح کے جشن کیوں منائے جا رہے ہیں۔ بھارتی پنجاب کے ایک کالج کے ہوسٹل میں نمایاں ہوئے مناظر بھی وائرل ہوئے۔ وہاں مقیم کشمیر طلبہ بھی پاکستانی ٹیم کی فتح کا جشن منا رہے تھے۔ یہ مناظر دکھاتے ہوئے سوشل میڈیا کو درحقیقت ان طلبہ کو سبق سکھانے کے لئے متعصب اذہان کو اُکسایا جا رہا تھا۔ کرکٹ جیسا کھیل مجھے اس کی وجہ سے مذہبی جنون و تقسیم کا کامل غلام محسوس ہوا اور میں اپنی خوشی بھلا کر اس کے بارے میں نہایت فکر مندی سے سوچنے کو مجبور ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments