زمان خان کی باتیں


(محمود الحسن نے 2011 میں روزنامہ ایکسپریس کے لئے زمان خان مرحوم سے یہ انٹرویو لیا تھا۔)

وہ زندگی بھر عام آدمی کے حقوق کے لیے لڑتے رہے اور اب بھی اسی راستے پر رواں ہیں، بس اب ذرا انہوں نے پلیٹ فارم بدل لیا ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں بائیں بازو کی طلبہ سیاست کا حصہ بن کر کبھی تو ویت نام میں جاری جنگ کے خلاف آواز اٹھائی اور کبھی ایوب آمریت کے خلاف سرگرم عمل رہے۔ نیشنل اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور جوائنٹ لیبر ایکشن کمیٹی کے بنیاد گزاروں میں شامل تھے۔ مزدور کسان پارٹی میں شامل ہوئے اور پھر پارٹی کی ہدایت پر کل وقتی کارکن کے طور پر کام کیا۔ ضیاءالحق کے دورمیں تحریکِ بحالیٔ جمہوریت (ایم آر ڈی) کا حصہ رہے۔ جیل بھی کاٹی۔ 1986ء میں انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کا ادارہ تشکیل پایا تو اس سے متعلق ہو گئے۔ اس وقت انچارج شکایت سیل کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ پاکستان انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی کے قیام کے وقت سے اس کا حصہ ہیں۔

سالہا سال ڈنکے کی چوٹ، سامراج کی مخالفت کرنے والے، بائیں بازو کے وہ لوگ جو اس وقت مغربی ممالک کی امداد سے چلنے والے اداروں میں کام کررہے ہیں، ان کے بارے میں یہ سوال ذہن میں جنم لیتا ہے کہ کہیں ان افراد نے قرة العین حیدر کے ناول ”آخر شب کے ہمسفر“ کے انقلابی ہیرو ریحان الدین احمد کی طرح آدرش کو خیرباد تو نہیں کہہ دیا؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمارے خیال میں زمان خان موزوں آدمی ہیں۔ ہم نے بائیں بازو سے وابستہ لوگوں کی اس قلبِ ماہیت کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا: ”انسان نے روٹی تو بہر طور کمانی ہوتی ہے۔ میں اگر موبائل بیچنے لگوں تو کیا یہ کہا جائے گا کہ میں سامراج کی مدد کر رہا ہوں؟ لینن نے اپنے ایک مضمون On Compromises میں بیان کیا ہے کہ کمپرومائزدو طرح کا ہوتا ہے، ایک میں آپ ڈاکو کے ساتھ لوٹ مار میں شریک ہو جاتے ہیں۔ دوسرے کمپرومائز میں ڈاکو اپنا کام کرتا ہے، جسے آپ روکتے نہیں اور خود صحیح کام کرنے میں جٹے رہتے ہیں۔ مغرب میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ حکومت امداد کی رقم لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ نہیں کرتی، اس لیے براہ راست عوام سے رابطے کے لیے سول سوسائٹی تشکیل پائی اور انسانی حقوق کی تنظیم جیسے ادارے وجود میں آئے۔ ہم اس وقت مغرب کے برے کاموں میں اس کے ساتھ شریک نہیں۔ ہم نے کبھی مغرب کی کسی غلط کاری میں اس کا ساتھ نہیں دیا۔ انسانی حقوق کمیشن میں شامل کسی فرد کی دیانت داری اور اخلاص پر کوئی حرف گیری نہیں کر سکتا۔ “

اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے بعد ہم نے پاکستان میں بائیں بازو کی ناکامی کے بارے میں پوچھا تو بتایا: ”سامراج نے طے کر لیا تھا کہ یہاں کسی صورت ترقی پسند سیاست کو پنپنے نہیں دینا، اس لیے اس فکر کو کچلنے کے لیے ریاست نے سامراج کا بھرپور ساتھ دیا۔ کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگی۔ انہیں غدار، ملحد اور نہ جانے کیا کچھ کہا گیا، جبکہ وہ بڑے محبّ وطن لوگ تھے۔ کمیونسٹ پارٹی نے مذہبی بنیادوں پر ہجرت کا فرمان جاری کیا تو اس سے بہت سے تربیت یافتہ ہندو اور سکھ کسان کارکن ہندوستان چلے گئے، اس سے بھی فرق پڑا۔ مثلاً بہت سے تربیت یافتہ کارکن یہاں سے چلے گئے اور خلا پیدا ہو گیا۔ پارٹی کو یہاں کچلا گیا لیکن یہ ظلم تو اور بھی جگہوں پر ہوا، لیکن وہاں بائیں بازو کی جماعتوں نے مقابلہ کیا اور حکومت بھی بنائی۔ مثلاً ویت نام میں بھی ظلم ہوا اور بھارت میں بھی لیکن وہاں پارٹیاں قائم رہیں۔ ہمارے ہاں یہ اس لیے نہیں ہو سکا کہ بائیں بازو کی تحریک میں کوئی ایسا بڑا لیڈر پیدا نہیں ہوا جو تندیٔ بادِ مخالف کا مقابلہ کر سکتا۔ اس کے باوجود سب سے بڑھ کر قربانیاں بائیں بازو کے کارکنوں نے دی ہیں۔ قلعہ میں صعوبتیں سہنے والے بائیں بازو کے لوگ تھے۔ پھانسی یہ چڑھے اور کوڑے انہوں نے کھائے۔ حسن ناصر اور نذیر عباسی سمیت بہت سے لوگوں نے ریاست کا جبر برداشت کیا اور موت کو گلے لگایا۔ “

زمان خان تعلیمی اداروں میں طلبا سیاست کے موید ہیں۔ ان کا خیال ہے اس سے نئی قیادت سامنے آتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس زمانے میں وہ پنجاب یونیورسٹی میں طلبا سیاست میں سرگرم تھے، طلبہ تنظیمیں تمام تر اختلافات کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کے خلاف متحد ہوتی تھیں۔ اس ضمن میں وہ پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری کے اُس الیکشن کا حوالہ دیتے ہیں، جس میں ایوب خان کے وزیر داخلہ کے بیٹے کو آج کے ممتاز قانون دان حامد خان نے ہرایا تھا۔ ایک اور یادگار الیکشن کا بھی ذکر کرتے ہیں جس میں ایک بنگالی طالب علم نے خلیل الرحمان رمدے کو شکست دی۔ زمان خان کے بقول، ”ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دورِ حکومت میں اسلامی جمعیت طلبہ سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی کیونکہ وہ لبرل طلبہ تنظیموں سے زیادہ خوفزدہ تھے۔ “

 زمان خان کی دانست میں محمد خان جونیجو بہترین حکمران تھے جنھوں نے جرنیلوں سے اپنی بات منوائی اور انہیں سوزوکی میں بیٹھنے پر مجبور کیا۔ مشرقی پاکستان کے بحران کے دوران وہ مغربی پاکستان کے دانشوروں کے کردار کو شرمناک قرار دیتے ہیں جنہوں نے فوجی ایکشن کی مخالفت تو کیا کرنی تھی الٹا اکثر نے اس کی حمایت کی۔ پی این اے کی تحریک ان کے خیال میں بھٹو سے ناراضی کی بنیاد پر ہی شروع ہوئی، یہ بنیادی حقوق کی جنگ تھی جس کے لیے لوگ نکلے لیکن بعد میں اسے دوسرا رخ دے کر ہائی جیک کر لیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی ذہانت کے معترف ہیں لیکن وہ بائیں بازو کے ان لوگوں میں شامل ہیں جو بھٹو سے کبھی متاثر نہیں ہوئے۔ ان کے خیال میں بھٹو خود جاگیر دار تھے، اس لیے وہ کس طرح بائیں بازو کی سیاست کر سکتے تھے؟

 ’’بائیں بازو کے لوگ بھٹو سے کیوں متاثر ہوئے؟‘‘

 ”بھٹو نے جو نعرے دیے وہ بائیں بازو کے نعرے تھے، دوسرے بائیں بازو کے کارکن صعوبتیں برداشت کر کے تھک چکے تھے اس لیے انہیں بھٹو میں کشش نظر آئی اور وہ ان کے ساتھ مل گئے۔ “

اب ذرا زمان خان کے حالات کا بھی کچھ تذکرہ ہوجائے۔ محمد زمان خان 2 فروری 1946ء کو اپنے ننھیال کے گھر جالندھر میں پیدا ہوئے۔ خاندان ان کا کپورتھلہ میں آباد تھا۔ ہجرت کے بعد یہ لوگ لائل پور منتقل ہو گئے۔ وہ اپنے شہر کو فیصل آباد کا نام دیے جانے کے سخت ناقد ہیں اور اسے اب بھی لائل پورکہتے ہیں۔ والد، الحاج چودھری نور محمد کاروباری آدمی تھے۔ چار بھائیوں اور دو بہنوں میں وہ پہلے نمبر پر ہیں۔ ان کا بچپن اپنے بزرگوں سے تقسیم کے ہنگام دل دہلا دینے والے واقعات سنتے گزرا، جس کے خوف سے وہ ابھی تک باہر نہیں آ سکے۔ ان کے گھر میں پڑھنے لکھنے کے لیے بڑا سازگار ماحول تھا۔ والد علامہ اقبال کے عاشق تھے۔ مذہبی کتابیں بھی گھر میں بہت تھیں۔ گھر میں ایک لائبریری بھی قائم کر رکھی تھی، جس کے آخری انچارج زمان خان تھے۔ ان کے بچپن اور جوانی کا فیصل آباد ایک پرسکون جگہ تھی، جسے ان کے مطابق ایک بہت بڑا گاؤں قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول ’ شہر کے چھوٹے ہونے سے لوگ ایک دوسرے سے آشنا تھے، اس لیے غلط کام کرنے کی صورت میں گھر فوراً اطلاع ہو جاتی۔ ‘1962ء میں پاکستان ماڈل سکول سے میٹرک کرنے کے بعد لاہور آ گئے۔ ایف سی کالج سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے 1966ء میں بی اے کیا۔ 1968ءمیں ایم اے سیاسیات اور 1970ء میں ایل ایل بی کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا۔

1973ء میں وکالت شروع کی تاکہ مجبور اور نادار لوگوں کو مفت قانونی مدد فراہم کرسکیں۔ اس کے بعد بائیں بازو کی مختلف جماعتوں میں سرگرم رہے۔ 1973ء سے 1986ء تک مزدور کسان پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے رکن رہے۔ 6 سال عوامی نیشنل پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کا حصہ رہے۔

ایف سی کالج میں ڈاکٹر آغا سہیل نے انہیں ”آگ کا دریا“ سے متعارف کرایا۔ یہ ناول پڑھ کر عمر بھر کے لیے قرة العین حیدر کے مداح بن گئے۔ ان سے دو ملاقاتوں کی یاد انہیں اب بھی سرشار کر دیتی ہے۔ پہلی ملاقات فیصل آباد میں اور دوسری دلّی میں قرة العین حیدر کے گھر پر ہوئی۔ یہ انٹرویو کے طلبگار ہوئے تو انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ انگریزی میں کسی زمانے میں ہیمنگوے پسند آیا تو اس کی تمام تصانیف چاٹ ڈالیں۔ مارکیز کے ناول ”تنہائی کے سو سال“ کے سحر میں گرفتار رہے لیکن جب ”وبا کے دنوں میں محبت“ پڑھا تو وہ زیادہ پسند آیا۔ سارتر، کامیو، میلان کنڈیرا پسندیدہ لکھاریوں میں شامل ہیں۔ دستوئیفسکی بھی ہمیشہ پسند رہے۔ شاعری میں غالب، اقبال اور فیض پسند ہیں۔ مشتاق احمدیوسفی کے بھی بہت قائل ہیں۔ کسی زمانے میں دیوان غالب حفظ کرنے کی کوشش بھی کی۔ فیصل آباد میں مقیم ممتاز پنجابی ادیب افضل احسن رندھاوا سے قریبی تعلق ہے۔ ان کے مقبول ناول ”دو آبہ“ سے زیادہ انہیں ”سورج گرہن“ پسند ہے۔ رابرٹ فسک ان کے پسندیدہ صحافی ہیں۔ اوریانا فلاسی کی کتاب Interview with History کی تعریف کرتے ہیں۔ یوسف لودھی، فیکا، ظہور اور صابر نذر پسندیدہ کارٹونسٹ ہیں۔

 زمان خان کی شخصیت کا ایک پہلو ان کی صحافیانہ سرگرمیاں ہیں۔ 80 کی دہائی میں پانچ سال ’’مسلم ‘‘ کے فیصل آباد میں بیورو چیف کی حیثیت سے کام کیا۔ اس کے بعد ’’فرنٹئیر پوسٹ ‘‘ اور ’’ نیشن ‘‘کے فیصل آباد بیورو کے انچارج رہے۔ ایک عرصے سے انگریزی اخبارات میں ان کے مضامین اور انٹرویوز چھپ رہے ہیں۔ ہندوستان کی نامور شخصیات کے انٹرویوز کی کتاب Voices Of Sanity: Harbingers Of Peaceکے نام سے شائع ہوئی جس میں رومیلا تھاپر، بپن چندر، کلدیپ نیر اور اے کے ہنگل کا انٹرویو بھی شامل ہے۔ ان دنوں وہ اس سلسلے کی دوسری کتاب پر کام کررہے ہیں جس میں مختلف شعبوں کی ممتاز پاکستانی شخصیات کے انٹرویوز ہوں گے۔

 فیصل آباد میں مقیم فیض احمد فیض کے قریبی ساتھی اسحاق ساقی کا انٹرویو نہ کرنے کا انہیں افسوس ہے۔ زمان خان کی جب ان سے ملاقات ہوئی تو وہ یادداشت کھو چکے تھے۔

 زمان خان نے ایک انگریزی جریدے کے لیے دودفعہ عبداللہ حسین کا انٹرویو کیا۔ پہلے

 انٹرویو میں انہوں نے ”اداس نسلیں“ کے چالیس پچاس صفحوں کو قرة العین حیدر کی تحریروں سے مستعار قرار دیا تو اس الزام پر عبداللہ حسین نے کچھ تعرض نہ کیا اور اعتراف کیا کہ وہ قرة العین حیدر سے بہت متاثر تھے اس لیے یہ ان کو ایک قسم کا خراج تحسین تھا۔ دوسرے انٹرویو میں انہوں نے خدیجہ گوہر کے اس الزام کا ذکر چھیڑ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے عبداللہ حسین کو اپنا ناول پڑھنے کے لیے دیا تو انہوں نے سرقہ کرکے اپنے ناول”نادارلوگ“ میں اس کے کئی حصوں کو استعمال کر لیا۔ بس یہ کہنا تھا کہ عبداللہ حسین ہتھے سے اکھڑ گئے اور زمان خان کو سخت سست سنائیں جس پر انہوں نے بڑی مشکل سے ان کا غصہ فرو کیا۔

 بائیں بازو کے جن لوگوں کو قریب سے دیکھا، ان میں میجر اسحاق نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ کہتے ہیں، ”ان کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وہ گاؤں میں جا بسے اور عام آدمی کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ فیض احمد فیض سے ان کا قریبی تعلق تھا۔ جیل میں دونوں ساتھی رہے۔ وہ دوسروں کی رائے کا احترام کرتے تھے۔ انگولا میں آزادی کی تحریک جاری تھی اور چین اس کی مخالفت کر رہا تھا۔ میجر اسحاق نے چینی لائن پر مضمون لکھا، میں اس زمانے میں اس موضوع پر پڑھتا رہتا تھا۔ میں نے میجر اسحاق کو انگولا کی آزادی کی حمایت کے لیے قائل کیا اور اس ضمن میں فیڈل کاسترو کا بھی حوالہ دیا جو اس جنگ میں انگولا کی آزادی کے متوالوں کی حمایت کر رہا تھا۔ ان کی کشادہ دلی تھی کہ انہوں نے میرا خط نہ صرف چھاپا بلکہ اپنی رائے سے رجوع بھی کر لیا۔ پڑھنے لکھنے کے بھی بڑے شوقین تھے۔ “

 زمان خان کا کہنا ہے کہ زندگی سے کون مطمئن ہو سکتا ہے؟ اس لیے ہمیشہ خوب سے خوب ترکی تلاش کا سفر جاری رہنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments