اب نسلہ والوں کی نسلیں رلتی رہیں گی
بحریہ ٹاون کراچی نے انتہائی کم قیمت پر حکومتی زمین حاصل کی، فائلیں بنائیں اور وہ جگہ بھی بیچ دی جو اس کی ملکیت نہ تھی۔ اس وقت کے منصف اعلی نے عدالت لگائی، ڈانٹ پلائی، کچھ جگہ واپس کرائی اور ایک بھاری جرمانہ حکومت کو ادا کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ لیکن بحریہ کے جن سیکٹرز کو غیر قانونی قراردیا گیا تھا اس کے سیکڑوں متاثرین آج بھی فائلیں اور ادائیگی کی رسیدیں ہاتھ میں لئے رقم یا پلاٹ کے للالچ میں بیٹھے ہیں۔ منصف اعلی صاحب ریٹائرمنٹ کے مزے لے رہے ہیں دوسری طرف قسطیں بھرنے والے برسوں بعد بھی اپنا ہی ادا کیا گیا اصل زر وصول کرنے کے لئے یقین و بے یقینی کا شکار ہیں۔ لاہور کی ایڈن سوسائٹی کا مالک مال سمیٹ کر دوسری دنیا اور اس کا خاندان پہلی دنیا میں پہنچ چکا لیکن تیسری دنیا کے متاثرین ایڈن آج بھی “ریکوری” کے لئے کسی معجزے کے منتظرہیں۔ یہ دو بڑی ہاوسنگ سوسائٹیز کے قصے ہیں لیکن ایسی کتنی ہی سوسائٹیوں کے متاثرین شہر شہر موجود ہیں۔ اسلام آباد میں موجود شاپنگ سینٹر صفا گولڈ مال کی تعمیر کے کوئی چھ سال بعد انتظامیہ کو معلوم پڑا کہ اس کی کئی منزلیں غیر قانونی ہیں۔ اسی اسلام آباد کے شاہراہ دستور پر دو آدھ تعمیر شدہ ٹاور کئی برسوں سے عجب وحشت دکھلا رہے ہیں۔
درست کہ عدالت اس سب پر ایکشن لے لیکن عمارتیں گرانے کا حکم دینے یا حکومتی جرمانے وصول کرنے کے ساتھ ساتھ اسے برکات “قائد اعظم” سے فیض یاب ہونے والوں تک بھی تو پہنچنا چاہیئے۔انہیں بھی نشان عبرت بنانا چاہیئے جنہوں نے اس غیر قانونی عمارت کو قانونی بنایا اور اجازتیں دیں، وہ جو لوگوں کا نقصان ہونے سے پہلے انہیں روک سکتے تھے۔ ماں کے جیسی ریاستیں تو ایسا ہی کرتی ہیں کہ انہیں اپنے بچے عزیز ہوتے ہیں۔ وہ پہلے قدم سے آخری قدم تک نظر رکھتی ہیں۔اوراپنے جرمانوں سے پہلے لوگوں کی رقم معہ سود وصول کرتی ہیں۔
ایک مغربی ملک میں دس برس سے زائد ہوتے ہیں کہ ایک عزیز دوست نے ایک ٹاور بنانے کے لئے جگہ خرید رکھی ہے۔ اجازتوں کا مسئلہ بظاہر بہت گھمبیر ہے لیکن حقیقت میں ایک ایک ادارہ اس کے ہر ہر پہلو پر غور کرتا ہے۔ اب تک ڈرائنگ میں کئی دفعہ تبدیلی آچکی ہے اور اب جا کے کہیں منظوری ممکن ہو رہی ہے۔ اس کے بعد وہ اپارٹمنٹ فروخت کرنے کے لئے اشتہار دے سکے گا۔
ہمارے ہاں نسلہ ٹاور اور ہاوسنگ سوسائٹیز راتوں رات بن کر بک نہیں جاتیں۔ اخبارات میں اشتہارات چھپتے ہیں، ٹی وی پر خوبصورت نقشے اور تصویریں دکھائے جاتے ہیں،این او سی کا جھوٹا سچا عکس پیش کیا جاتا ہے، تعمیرات ہوتی ہیں، بنکوں کے ذریعے ادائیگی ہوتی ہے۔ لیکن تمام ادارے وصول کی گئی رقم کے نشے میں مست سو رہے ہوتے ہیں۔ نقشہ پاس کرنے والے کیسے فٹ پاتھ کو عمارت کا حصہ بنا لینے پر آنکھ بند کر لیتے ہیں؟ کیسے possession دے دیتے ہیں؟ بغیر جگہ کی جائز ملکیت کے ہاوسنگ سوسائٹی کو کیسے فائلیں بیچنے کی اجازت مل جاتی ہے؟ اس سارے قصے کی کس کو خبر نہیں کیا ہوتا ہے اور کیسے ہوتا ہے؟ پیسے کی برکت سے کس کس کا منہ بند نہیں ہوتا۔
عدالت عالیہ نے قانون کے مطابق فیصلہ کیا کیونکہ قانون جذبات کا پابند نہیں ہوتا۔ عدالت نے متاثرین کو رقم دینے کی بھی ہدایت کی لیکن بدقسمتی سے مسئلے کی اصل جڑ تک پہنچ کر مستقل تدارک کرنے میں ناکام رہی۔ ایک ہفتے میں عمارت گرا نے کا حکم دینے سے پہلے متاثرین کو رقم کی فراہمی ممکن نہیں بنا سکی۔ جس ملک میں پوری پوری ہاوسنگ سوسائٹی بغیر اجازت کے بن کر بک جاتی ہے وہاں نسلہ ٹاور کے گرانے کے بعد اس وقت بھی بھی کوئی گھونسلہ ٹاور غیرقانونی تعمیر ہو رہا ہو گا۔ پھر اس نسلہ کے خریداروں کی نسلیں بھی فائل بغل میں دابے اپنی رقم کے لئے رلتی رہیں گی۔
- پاکستان کے عام انتخابات اور جماعت احمدیہ کا بائیکاٹ - 03/02/2024
- چال ہم چلتے ہیں ہر بار غلط - 15/01/2024
- محاصرہ قائم ہے لیکن یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا - 25/12/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).