صحافت اور ریاست: دو الگ الگ دائرے


کالم نگاروں کی قلم انگیزیوں سے تنگ و ناشاد سرکار یہ موقف اپنا سکتی ہے کہ جناب! کیا کالم نگاری نکتہ چینی و تنقید اور طنز و بد ظنی کا ہی مشغلہ ہے؟ ایک کالم نگار اسی امر میں سرور و شاد پا تا ہے کہ سرکار کی طرف زہریلے فقرے پھینکے اور امور سرکار میں ہر وقت کیڑے نکالتا پھرے۔ کالم نگاروں کے قلم مایوسی پھیلانے کے آلے ہیں اور ان کے الفاظ بغض و بد گمانی کے استعارے ہیں۔ ان کی قیاس آرائیاں محض محاذ آرائیاں ہوتی ہیں، خبروں پر ان کے تبصرے ناامیدی کے خنجر ہوتے ہیں۔

دراصل یہ کالم نگار لفظوں کے توپچی ہوتے ہیں جو روز بد گوئی کے گولے داغ کر سکون سے بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ اپنی آرام دہ پناہ گاہوں میں کافی پیتے ہوئے کوئی بدنما سا کالم لکھ مارتے ہیں۔ بھلا انہیں کیا معلوم کہ امور مملکت کے معاملات چلانا کس قدر کٹھن و خمدار ٹاسک ہو تا ہے۔ ہر روز نئے مسائل سر اٹھائے پھنکارتے ہیں، غیر متوقع حالات میں مشکل ترین فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ غرض امور مملکت ایک تنی ہوئی رسی کی مانند ہے جس پر روز چلنا پڑتا ہے اور کالم نگار بری خبروں اور منفی تجزیوں کا جلوس نکال کر اپنا سودا بیچتے ہیں۔

سرکار کے اعتراض کے جواب میں کالم نگار یہ بیان دے سکتے ہیں کہ جناب! تخت یا کرسی کٹہرا ہی تو ہوتا ہے اور جو حاکم اس کٹہرے میں کھڑے ہونے کی سکت نہیں رکھتا، سوالوں سے گھبراتا ہے، تنقید و نکتہ چینی اور طنز و قیاس کرنے والے کو دشمن سمجھتا ہے تو پھر ایسے حاکم کے لیے یہی امر مناسب ہے کہ وہ ترک کرسی فرما کر کسی درس گاہ کی تنظیم برائے مباحثہ و تقریر کا ممبر بنے اور تالیاں سمیٹے کیونکہ منصب اعلی پر براجمان ہونے کا مطلب کٹہرے میں کھڑا ہونا ہی ہے۔

جس کو تعریف و تحسین و ستائش اور تالیوں، سیٹیوں کی عادت ہو اور وہ تیز سوالوں اور تنقید سے چھپتا پھرے، وہ کبھی لیڈر نہیں بن سکتا۔ خود ستائشی اور دوسروں سے اپنی ستائش سن کر خوش ہوتے رہنا کہاں کی اعلی ظرفی ہے؟ اعلی ظرفی تو یہ ہے کہ بلا جواز تنقید پر بھی خاموش رہا جائے اور اپنے کام پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔ ویسے بھی بلا جواز تنقید، جھوٹی خبریں اور دروغ گوئی میں پروئے تبصرے اپنی موت خود مر جاتے ہیں کیونکہ زمینی حقائق ان کے خلاف گواہی دیتے ہیں۔

یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ مکرو فریب اور جھوٹ و بد دیانتی پر کھڑی حکومت کھرے، سچے ناقدین کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتی ہے کیونکہ ان کا قلم حکومتی مکرو فریب کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ ماحول اور تحریر کے درمیان ناگزیر، گہرا تعلق ہو تا ہے۔ ہولناک خبروں، آفتوں اور شدید بحرانوں پر بھلا میٹھا میٹھا سا نازک اندام تبصرہ و تجزیہ ہو سکتا ہے؟ عوام کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہو تو کیا کوئی کالم نویس یہ لکھ سکتا ہے کہ عام لوگوں کے دستر خواں انواع اقسام کے کھانوں اور پھلوں سے بھرے رہتے ہیں؟

کالم نگاروں کے چند جملوں سے اگر ریاست کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو جائے تو پھر آئے روز دنیا کا نقشہ ہی تبدیل ہو تا رہے۔ امریکی دانشور نوم چامسکی نے امریکہ میں بیٹھ کر ایک کتاب ”ریاستی دہشت گردی“ ۔ لکھی تھی۔ اس کتاب میں انہوں نے امریکی حکومت کو ننگا کر کے رکھ دیا تھا۔ لیکن کیا اس کتاب کی اشاعت کے بعد نوم چامسکی نے امریکی تخت پر قبضہ کر لیا؟ کیا اس کتاب میں لکھے حقائق اور کڑی تنقید کے بعد سی آئی اے نیست و نابود ہو گئی؟

یہ سرکار کا کام نہیں ہے کہ وہ خوردبین لگا کر ناقدین کے فقروں اور جملوں کی ساخت کا معائنہ کرتی رہے۔ سرکار کا کام ریاست چلانا ہے اور لکھاریوں کا کام لکھنا، بس اتنا سا ماجرا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments