میرا کتابی شوق کا سفر


یہ تحریر میں نے اپنے کتابی شوق کے نام پر لکھی ہے اور اس تحریر میں میں نے اپنے کتابی شوق کو بیان کیا ہے۔ میں نے آج 50 ویں کتاب کو پڑھ کر پورا کیا اور اس کتاب پڑھنے کے مشغلے کے لیے کتابی شوق پر تحریر لکھی ہے، اور اپنے کتابی شوق کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

کتابیات (bibliophilism) کتابوں سے محبت ہے، اور bibliophile یا bookworm وہ فرد ہے جو کتابوں سے محبت کرتا ہے اور کثرت سے پڑھتا ہے۔

کتابیں پڑھنے کا سفر

کتابیں میری زندگی کا حصہ بن گئی ہے۔ کتابوں کے ساتھ میں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ کتابوں سے میں نے دنیا کے رنگ دیکھے ہیں۔ کتابیں میری دوست ہے اور میرا اکثر وقت ان کے ساتھ گزرتا ہے۔

کتابیں مجھے دنیا کے رنگ دکھاتی ہے، کتابیں تاریخ اور کہانیوں میں لے کر جاتی ہے، ہر کردار سے ملاتی ہے اور دنیا کے سارے علم سے واقف کرتی ہیں۔

میں نے پہلی کتاب 2017 کے جون کے مہینے میں پڑھی تھی اور اس سے پہلے میں نے کبھی بھی کتابوں میں دلچسپی نہیں رکھی تھی لیکن اس کتاب سے زیادہ فرق نہیں پڑا تھا۔ میں نے پہلی کتاب سندھی مصنف سلیم جمالی کی سندھی زبان میں کتاب ”بھگت سنگھ کی لکھاریاں“ کو پڑھا تھا، کتاب مجھے پسند آئی تھی اور اس کتاب کو تب میں نے چار دن میں پورا کیا تھا۔ اس کے بعد پھر سے کتاب پڑھنے کو بھول گیا۔ پھر 2018 کی جولائی میں میرے بڑے بھائی احسن نے مجھے پاؤلو کوہلو برازیلی ناول نگار کی ”الکیمسٹ“ کتاب سے میرا تعارف کروایا۔

میں نے جب الکیمسٹ کتاب کو پڑھنے لگ گیا تو اس کتاب میں کھو گیا اور اس کتاب میں لکھے ہوئے ہر منظر کو اپنے خیالات میں لا رہا تھا۔ اس کتاب نے مجھے کتاب پڑھنے کی طرف متوجہ کیا اور میں نے الکیمسٹ کتاب کو ایک دن میں پورا کیا اور اس کے بعد میں نے کتاب پڑھنے کو مشغلہ بنا لیا اور کتابوں جو پڑھنا شروع کیا، اور کتابوں میں آہستہ آہستہ سما جانے لگا اور کتابیں میری زندگی کا حصہ بن گئی۔ میں نے 2018 کی جولائی سے 2018 کی آخری دنوں تک 3 کتابوں کو پڑھا تھا، مجھے معلوم ہے کہ یہ تعداد بہت کم ہے لیکن مجھے آہستہ آہستہ کتابوں میں دلچسپی ہو رہی تھی اور اس سے پہلے میں کتابوں کو پسند نہیں کرتا تھا لیکن اب کتابیں میری زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ الکیمسٹ کتاب نے مجھے تبدیل کر دیا اور کتابیں پڑھنے پر متوجہ کیا۔

اس کے بعد میں نے 2019 چھ کتابوں کو پڑھا تھا۔ اب آہستہ آہستہ بہتری ہو رہی تھی۔

سال 2020 اپنے ساتھ بہت مصیبتیں اٹھا کر آیا تھا۔ اس سال کرونا وائرس آیا تھا جس نے پوری دنیا میں تباہی مچا کے رکھ دی تھی، پوری دنیا کے کاروبار تباہی کا شکار ہوچکے تھے اور تعلیم کا نظام تباہ کو چکا تھا۔ پوری دنیا میں لاک ڈاؤن لگ گیا تھا اور کروڑوں تعداد میں انسان کرونا وائرس کی وجہ سے موت کا شکار ہوئے تھے۔

اس سال لاک ڈاؤن لگنے اور تعلیمی اداروں کے بند ہونے کی وجہ سے ہم سبھی کو گھر میں بیٹھنا پڑا تھا، اس وجہ سے میری کتابوں سے دوستی اور اچھی ہو گئی۔ کتابوں کو پڑھ کر اپنے خیالات کو الفاظ میں لکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ اس سال میں نے 20 کتابوں کو پڑھا تھا اور 2020 میرے لیے کتابوں کو پڑھنے کے معاملے میں اچھا ثابت ہوا تھا۔

سال 2021 پوری دنیا کے لیے خوشخبری لے کر آیا تھا کیونکہ اس سال کرونا کی ویکسین دریافت ہو گئی تھی اور آہستہ آہستہ پوری دنیا پہلے کی طرح ہو رہی تھی اور کاروبار اور تعلیم پھر سے شروع ہو گئی تھی اور لاک ڈاؤن ختم ہو رہا تھا۔ اب میری کتابوں سے اچھی دوستی ہو گئی تھی اور میں نے 2021 کے اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں 20 کتابوں کو پڑھ کر مکمل کیا تھا۔ ( میں 50 کتابیں پڑھ چکا ہوں اس اکتوبر تک)

اب یہ سفر یہاں پر نہیں ختم ہو گا، اب یہ ہمیشہ چلے گا اور یہ عشق کتاب ہے یہ آسانی سے ختم نہیں ہو گا۔ میں نے کتابوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ میں نے کتابوں کی وجہ سے اپنے خیالات کو الفاظی شکل دے پا رہا ہوں۔

میں نے اپنے کمرے میں ایک چھوٹی سی لائبریری بنوائی ہے جس میں 100 سے زائد کتابیں موجود ہیں، میری خواہش ہے کہ میں اپنے کمرے میں ایک بڑی لائبریری بناؤ اور اس لائبریری میں ہزار سے زائد کتابیں موجود ہو۔

کتابیں پڑھنے کی وجہ سے مجھے لکھنے میں مدد ملتی ہے اور میری لکھاریوں میں نکھار آتا ہے۔ میں ایک کتاب کا شریک مصنف ( Co۔ author ) بن چکا ہوں، جس کو لٹ لائٹ پبلشنگ ہاؤس ( Litlight Publishing House ) نے مایوسی کے آنسو ( Tears of Despair ) کے نام سے پبلش کروائی ہے اور جس کو پاکستان کے پچاس سے زائد خواہش مند مصنف ( Aspiring Writers ) نے مل کر لکھا ہے اور اس میں میرے نام کے بھی چھ صفحات شامل ہیں۔

پسندیدہ کتابوں کی فہرست

مجھے کتابیں سبھی پسند ہے کیونکہ کتابیں پڑھنے سے ہمیں سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے اور ہم کتابوں کے ذریعے ہر دؤر کے مصنف، اس کے کام اور اس کے دؤر کو صحیح سے جان سکتے ہیں۔ مجھے ابھی تک کوئی مصنف پسند نہیں آیا کیونکہ میں اکثر اوقات سبھی مصنفوں کو پڑھنے اور جاننے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ لیکن میں آج کل سندھی ادب کے مصنف امر جلیل کو زیادہ پڑھنے اور جاننے پر ترجیح دے رہا ہوں۔ امر جلیل نے سندھی ادب میں کہانیاں بہترین لکھی ہے اور اس کا ایک ناول جو مجھے بہت زیادہ پسند ہے وہ ہے آخرکار گونگی نے بات کی ”نیٺ گونگی ڳالھایو“ یہ کتاب مجھے امر جلیل کی کتابوں میں سب سے زیادہ پسند ہے۔ اور میری پسندیدہ کتابوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔

میری پسندیدہ کتابوں کی فہرست میں سب سے اوپر ”الکیمسٹ“ پاہلو کوہلو برازیلی ناول نگار کی کتاب ہے کیونکہ اس نے مجھے کتاب پڑھنے پر متوجہ کیا اور یہ کتاب ہمیں سکھاتی ہے کہ زندگی میں کبھی بھی ہار نہیں ماننی چاہیے۔

میری پسندیدہ کتابوں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر خشونت سنگھ کی کتاب ٹرین ٹو پاکستان کا سندھی زبان میں ترجمہ پڑھا ہے اور اس کا ترجمہ یوسف سندھی نے کیا ہے اور یوسف سندھی نے اس کتاب کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے بہت اچھے سے ترجمہ کیا ہے، جب آپ اس کتاب کو پڑھنے بیٹھے گے تو ایسا لگتا ہے کہ اس کتاب کا سندھی زبان میں ترجمہ خود مصنف نے کیا ہے۔ یہ کتاب ہند و پاک کی آزادی کے وقت ہوئے فسادات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے آپ خود کو اس موقع پر کھڑا پاؤ گے، مصنف نے ہر ایک واقع، موسم، پنچھیوں کی میٹھی آوازیں اور گاؤں کے ہر گلی، راستے اور وہاں کے لوگوں کو ایک باریکی الفاظ سے بیان کیا اور ہر چھوٹی بڑی چیز کو بھی اچھے سے بیان کیا ہے، اس کتاب کو پڑھنے سے آپ اس مقام پر خود کو محسوس کرو گے۔

میری پسندیدہ کتابوں کی فہرست میں افغان و امریکی مصنف خالد حسینی کی کتاب کائٹ رنر بھی ہے جس کو 2003 میں پبلش کروائی تھی۔ جس کو اردو زبان میں ترجمہ ابوالفرح ہمایوں نے کیا ہے۔ اور کتاب کے ساتھ ترجمہ کرتے وقت کوئی بھی کمی پیشی نہیں کی گئی، کتاب کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے بہت اچھے سے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

خالد حسینی کے ناول دی کائٹ رنر افغانستان میں سوویت یونین کے حملوں، طالبانی حکومت، بدلتی سیاست میں برباد ہوتے افغانستان کے پس منظر میں لکھی گئی عمدہ ناول ہے۔ یہ کہانی ہے وزیر اکبر خان ضلع کابل میں رہنے والے دو دوستوں عامر اور حسن کی۔

اس کہانی کو بیان کرنا یہاں پر صحیح نہیں لگتا، لیکن کبھی اس کتاب کی کہانی کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش ضرور کروں گا، باقی آپ اس کتاب کو پڑھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ کتاب ہماری پسندیدہ کتابوں کی فہرست میں شامل ہونے کے قابل ہے یا نہیں۔

یہ کتابیں میری پسندیدہ کتابوں کی فہرست میں سب سے اوپر شامل ہیں، اور بھی بہت سی کتابیں پسند ہے بلکہ مجھے ساری کتابیں پسند ہے، جس میں پڑھنے کے لیے اچھا لکھا ہو اور جس کتاب کو لکھنے کے وقت لکھاری نے اپنی دل کی آواز سے لکھا ہو اور ہمیں پڑھنے کے وقت کتاب میں موجود سارے مناظر ہماری آنکھوں کے سامنے خاکہ بن کر پیش کو اور کتاب کو پڑھنے سے ہمیں فائدے بھی ملے۔

مجھے سندھی زبان میں کتابیں پڑھنا اچھا لگتا ہے اور بیسٹ سیلر کتابوں کا سندھی زبان میں ترجمہ ہو تو میں سب سے پہلے اس کتاب کو پڑھنے پر ترجیح دیتا ہوں۔

سندھی زبان میری مادری زبان ہے اس لیے میں سندھی زبان میں کتابیں زیادہ پڑھتا ہوں اور سندھی زبان میں کتابیں پڑھنے سے مزہ بھی آتا ہے اور بڑی آسانی سے سمجھ بھی آتا ہے۔ اردو زبان میں کتابیں کو بھی بہت زیادہ پڑھا ہے اور اردو میں پڑھنے کی وجہ سے میں آج اردو میں بول اور لکھ پا رہا ہوں، اس سے پہلے مجھے اردو صرف پڑھنے آتی تھی۔ اور جب سے اردو کتابوں کو پڑھنا شروع کیا ہے تب سے اردو بول بھی لیتا ہوں اور اردو میں لکھ بھی لیتا ہوں لیکن اردو زبان پر زیادہ عبور حاصل کرنا چاہتا ہوں اس لیے آج تک اردو زبان میں کتابیں پڑھتا آ رہا ہوں۔

تحریر کا اختتام اپنے کتابوں کے شوق کے نام پر لکھی گئی نظم کے ساتھ کروں گا
کتابوں کے ساتھ جینا میرا
کتابوں کے ساتھ مرنا میرا
کتابوں کے ساتھ زندگی میری
کتابوں کے ساتھ بندگی میری
کتابیں جو مجھے پوری دنیا کا سیر کرواتی ہے
کتابیں جو تاریخ کے ہر کردار سے واقف کرتی ہیں
کتابیں جو خود سے واقف کرواتی ہے
کتابیں جو دنیا کے علم سے واقف کرتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments