رشتہ ناچ اور پولی سسٹک اوویرئن سنڈروم


جن کے لئے رشتہ دیکھنے کا عمل خوشگوار رہا ہو، یہ تحریر ان کے لئے ہرگز نہیں ہے مگر جو اس ناخوشگوار مرحلے سے گزرتی ہیں، یہ ان تمام لڑکیوں کے جذبات اور اس معاشرے میں موجود عورت عناد پہلووں کی کھلی نشاندہی ہے۔

”میرے پاس الفاظ ہیں نہ جذبات۔ بس میں نہیں چاہتی کہ کوئی آواز ہو یا یہ خاموشی ٹوٹے۔ میں چاہتی ہوں کہ سب چپ کر جائیں اور مجھے اکیلا چھوڑ دیں۔ میں روز روز کی اس رشتہ ناچ سے تنگ آ چکی ہوں۔ میں نے کنورسیشن ود کنول میں سنا تھا کہ ایک خاتون نے رشتہ دیکھنے کے مرحلے کو مجرا کہا تھا۔ یہ مجرا ہی ہے۔ بیٹیوں کو اجنبیوں کو سامنے نچوایا ہی جاتا ہے۔ ان کی عزت نفس، توقیر، اور محسوسات کی کوئی بھی قدر نہیں کرتا۔ یہاں پر بیٹی ایک موم کا پتلا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

ہاؤس آف ویکس فلم میں جیسے زندہ انسانوں پر وہ جنونی شخص گرم ابلتی ہوئی موم ڈال کر ان کو موم کے پتلوں میں تبدیل کرتا تھا مجھے بھی اپنا آپ ویسا لگتا ہے۔ اس فلم میں کتنی وحشت ہے اور وہ مجھے خود میں پیوست ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ میں چالیس لوگوں کے سامنے اس غرض سے پیش کی گئی ہوں کہ کوئی اللہ کا بندہ بس مجھے بیاہ لے اور میرے گھر والوں کی جان چھوٹ جائے بیٹی سے۔ چالیسواں رشتہ جب میرے قد کو ناپسند کر کے گیا تو مجھے لگا کہ اس روز میرا چالیسواں تھا“ ۔

عروج میری دوست ہے۔ وہ میری بہت پرانی دوست ہے۔ میں اس کی زندگی کے ہر پہلو سے آگاہ ہوں۔ میرے پاس بھی اس کو تسلی دینے کے الفاظ نہیں تھے، میں چاہتی بھی نہیں تھی کہ اس کو تسلی دی جائے۔ میری آرزو تھی کہ وہ غصے سے سیخ پا ہو جائے۔ وہ بغاوت کر بیٹھے، زور زور سے چلائے اور دنیا کو ہلا دے۔ اک زلزلے آئے۔ اس روز، وہ اپنے کلام سے زلزلے ہی برپا کرنا چاہتی تھی۔ یہ لوک داستان ہے نہ کسی کے ذہن کا خود سے بنا ہوا شاہکار۔

یہ وہ حقیقت ہے جو آئے روز کسی قہر کی طرح جوان لڑکیوں پر گرتی ہے۔ رشتہ ناچ کو میں رشتہ دیکھنا کبھی نہیں کہوں گی، کیونکہ یہ ناچ ہی تو ہے جس میں عورت کو ایک چیز سمجھ کر اس کی قیمت طے ہوتی ہے۔ کبھی اس کا ظاہری حسن، کبھی اس کی تعلیم، اس کے خاندان سے متوقع جہیز زمین اور نجانے کیا کیا۔ عروج کی زندگی میں یہ زوال بہت پہلے آنا شروع ہو گیا تھا۔ ابھی اس کی تعلیم مکمل نہیں ہوئی تھی مگر شادی کے نام پر اس کی قیمت لگنے کا وقت ضرور ہو چلا تھا۔ عروج جس کی داستان جاری تھی، جاری رہی اور سناتی رہی۔

”مجھے ہر روز ایک ہی بات کہی جاتی ہے کہ میں خوبصورت نہیں ہوں۔ مجھے میرے ہی گھر والے کہتے ہیں کہ تم بہت موٹی ہو۔ ایسے ہی موٹی رہی تو تمھیں کون اپنائے گا۔ رابعہ تم یقین کر رہی ہو میری باتوں کا؟ مجھے گھر والے کہتے ہیں کہ میں موٹی اور بد صورت ہوں۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایسے جملے میرے دل پر کیا گھاؤ لگاتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میں ظالم سسرالیوں کے ساتھ ابھی سے رہتی ہوں۔ میں سکون سے کھانا نہیں کھا سکتی کہ مجھ پر لعن طعن کی ابتداء ہو جاتی ہے۔ اکثر میری بھوک نہیں مٹتی کیونکہ مجھے کسی انجان خاندان کے آگے رشتہ ناچ کے دوران مقبول ہونا ہے کہ میں ان کو پسند آ جاؤں؟ کیا یہ زندگی ہے؟ میں ٹھیک سے کھانا نہیں کھا پاتی۔ کبھی کبھی مجھے چھپ کر کھانا پڑتا ہے۔

میں کیا کروں اگر کوششوں کے باوجود میرا وزن کم نہیں ہوتا۔ میں وہ شکل کیسے تبدیل کروں جو میری ہے؟ میں اسی شکل اور خد و خال کے ساتھ پیدا ہوئی تھی۔ میری جینیات تو یہی ہے۔ میری ہڈیوں کی ساخت ہی ایسی ہے کہ میں کبھی اس قدر دبلی نہیں ہو سکتی جو رائج ساخت ہے۔ کیا میں نے اپنا قد کہیں روک رکھا تھا کہ میں لمبی نہ ہو سکوں؟

عروج فربہ ہر گز نہیں تھی جبکہ دکھنے میں اس کے ظاہری حسن کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اس کی مسکراہٹ کے تو چرچے تھے۔ اس کے قد میں کوئی نقص تھا نہ اس کی صورت میں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ کس طرف سے بد صورت تھی۔ ایک نہایت دل کش انسان اس قدر اپنی ذات سے کیسے نفرت کر سکتی ہے۔ اس کو اس بات پر ایمان تھا کہ وہ بد صورت ہے۔ جبکہ بد صورت تو کوئی بھی نہیں ہوتا۔

”میں نے چالیس رشتہ ناچ کیے ہیں۔ یعنی چالیس خاندانوں کے سامنے مصنوعی سجاوٹ کے ساتھ پیش کی گئی ہوں۔ تم سوچو چالیس خاندان یعنی ان کے چالیس بیٹے۔ میں ایک لڑکی اور وہ چالیس مرد۔ خدا کا عذاب یہاں کیوں نہیں آتا؟ عروج اگر اپنی مرضی سے میک اپ کر لے تو اس ملک میں وبائیں پھوٹ پڑتی ہیں، عروج کو ذلیل کروانے کی غرض سے زبردستی سجا سنوار کر چالیس خاندانوں کے سامنے پیش کیا جائے تو کوئی قہر نہیں ٹوٹتا۔ وہ عروج کا فرض بنا دیا جاتا ہے۔ میرے بس میں ہو تو یہاں کے طور طریقوں اور رسم و رواج کو آگ میں پھینک دوں“ ۔

تمہیں پتا ہے کہ میں موٹی کیوں ہوں؟ ہاں تمہیں تو پتا ہے مگر کیا زندگی کا مقصد شادی ہی ہے؟ وہ ان لوگوں کے ساتھ جو آپ کو آپ کے دبلا پتلا ہونے کی وجہ سے قبول کریں گے؟ یہ شادی ہوتی ہے تو کوئی بھی ایسی شادی باقی نہ رہے۔ میری بھی بد دعا ہے۔ مجھے پولی سسٹک اوویئرن سنڈروم ہے۔ میرا وزن اسی لئے کبھی کم نہیں ہوتا تھا۔ میں نے بھوکے رہ کر بھی وہ دن گزارے ہیں اور رشتہ ناچ کی ذلت بھی برابر سہی ہے۔ ہر دفعہ جب بیٹی کا مجرا ہاں میں اس کو مجرا ہی کہوں گی کیوں کہ اس سے اچھا اور کوئی لفظ ہو نہیں سکتا، بیٹی کو دوسروں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ یہ لیں دیکھیں ہماری بیٹی کو، اس کو سر سے پاؤں تک پرکھیں، اس کے دانت دیکھیں، اس کے بدن کی ساخت دیکھیں اور نمبر دیں، پاس کریں یا فیل کریں۔ یہ ہوتا ہے۔

مجھے وہ باتیں سننے کو ملتی ہیں جو دل کے اندر اگر کوئی دل ہو تو اس کو بھی چیر دیں۔ لالچی لوگوں کو میری شکل پسند نہیں آتی تھی اور وہ مجھے میرے ماں باپ کے منہ پر کہہ دیتے کہ آپ کی بیٹی موٹی ہے۔ کوئی سن بھی کیسے سکتا ہے ایسی توہین؟ ویسے تو بیٹی عزت اور غیرت ہوتی ہے مگر رشتہ ناچ کے وقت کوئی عزت اور غیرت نہیں ہوتی، جہاں بیٹی کی عزت نفس داؤ پر لگی ہو، وہاں کہیں غیرت نہیں جاگتی۔ کوئی بھی اٹھ کر آپ کی بیٹی اور بہن میں نقص نکالے تو کوئی بولتا بھی نہیں۔

کسی کو کھانا پسند نہ آئے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم آپ کو سوچ کر بتائیں گے۔ ارے کیا سوچ کر بتائیں گے؟ آپ ہمارے گھر آئے ہیں اور آپ ہی سوچ کر بتائیں گے؟ ان لوگوں میں اتنا منفی بلکہ زہریلا اعتماد کہاں سے آتا ہے؟ یہ اپنی بیٹیوں کا بھی ایسے رشتہ ناچ کراتے ہوں گے۔ کیا تم سوچ سکتی ہو کہ میرا اعتماد کیسے روز روز مرتا ہو گا۔ مجھے چالیس خاندانوں کے کم از کم سات سات لوگوں نے رد کیا ہے۔ چالیس کو سات سے ضرب دو اور سوچو میری حیثیت میری نگاہوں میں کیا رہ جاتی ہوگی۔

کیا مجھے آئینے میں اپنا چہرہ اچھا لگتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ میں نے تو نمازوں میں کتنی دہائیاں دی ہیں، بس میرا کام تو صبح شام رونا ہے، دل جلانا ہے۔ سب ہمارے گھر اور رتبے کو دیکھ کر آتے ہیں۔ حرص کے قبرستان کے ان مردوں کو لگتا ہے کہ جہیز میں لڑکی جنگی طیارے اور ایٹمی آبدوزیں لے کر آئے گی۔ کوئی سلطنت بھی ان کے بیٹے کے نام کرے گی۔ اور تم نے کبھی ان لڑکوں کو دیکھا ہے؟ بس عورتوں کے حقوق کے خلاف بولنے والے لڑکے، خود کچھ کر نہیں سکتے تو سسر سے ترقی کی امید لگانے والے لڑکے۔

اتنے نا اہل کہ اپنے گھر کا ساز و سامان اور اپنے استعمال کی گاڑی کے لئے شادی کر لیتے ہیں۔ ایک دفعہ کوئی دیکھنے آئے تو ہزاروں روپوں کا خرچہ ہوتا ہے۔ کہیں کوئی دو تین بار آ جائے تو ان کو تحائف تک دینے پڑ جاتے ہیں۔ میں نہیں چاہتی کہ غیروں پر پیسے ضائع کیے جائیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ایک وقت میں چار چار گھروں میں رشتہ ناچ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ایک لڑکا ایک وقت میں کئی لڑکیوں سے شادی کی امید لگائے رکھتا ہے، کیا اس کو تم شادی کہو گی؟

میری دو بار منگنی اور ایک بار بات پکی ختم ہوئی ہے۔ مجھے چالیس لوگوں نے میری بد صورتی کا جواز بنا کر رد کیا ہے۔ کچھ گھر اور گاڑی دیکھ کر ہاں کرتے ہیں، بعد میں ان کے چاند کو میری قد و قامت پر اعتراض ہو جاتا ہے۔ مجھ سے تو کوئی نہیں پوچھتا کہ عروج بیٹی تمھیں یہ لڑکا کیسا لگا ہے؟ کیا تمھیں بھی اس کی شکل اور سوچ پسند آئی ہے؟

مجھے تو اب خواب ہی یہی آتے ہیں کہ میری منگنی ٹوٹ رہی ہے اور میں موٹی سے موٹی ہوتی جا رہی ہوں۔ مجھے پولی سسٹک اوویئرن سنڈروم لاحق ہے، اور میں صرف شادی کی غرض سے بھوکی رہی، سالہا سال ورزشیں کرتی رہی۔ میں نے خود پر رحم نہیں کیا کہ بس اب یہ ذلت ختم ہو ایک بار۔ ایک میں اس عورت دشمن معاشرے میں عورت ہوں اور مجھے وہ بیماری لاحق ہے جس کا آج تک اس لئے علاج نہیں کہ یہ عورتوں کی بیماری ہے۔ میرا جسم تکلیف میں تھا مگر میں انجان لوگوں کو خوش کرنے کے جتن کرتی رہی کہ میری عورت ذات کا بوجھ میرے گھر والوں سے اتر جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments