اوبر اور کریم ٹیکسی سروس پر پابندی اور ذاتی مفادات


\"\"

اوبر اور کریم ٹیکسی میں آپ نے سفر تو کیا ہوگا ؟

دو ہفتے قبل اسلام آباد میں ہنگامی حالت میں میں نے کریم ٹیکسی پر سفر کیا۔ بکنگ کے وقت مجھے بتایا گیا کہ آپ کے محل وقع سے قریب ترین گاڑی چھ منٹ کے فاصلے پر ہے، جس کے ڈرائیور کا نام، ڈرائیور کا رابطہ نمبر، گاڑی کا رنگ، گاڑی کا نمبر یہ یہ ہیں۔ گاڑی محض بکنگ پر ہی روانہ ہوجائے گی، چاہیں تو رابطہ بھی کرسکتے ہیں۔ ایک بٹن پر بکنگ کرلی، تو گاڑی چل پڑی۔ ایپلیکیشن پر مجھے مسلسل آگاہ کیا جاتا رہا کہ گاڑی اس وقت فلاں مقام سے اتنے رفتار پر گذر رہی ہے۔ گاڑی بکنگ کے ٹھیک سات منٹ بعد آفس کے دروازے پر تھی۔ منزل پر پہنچا تو تین سو انسٹھ روپے کرایہ بنا۔ میں نے تین سو ساٹھ روپے ڈرائیور کو دیے اور جھٹ پٹ گاڑی سے اتر گیا۔ اترتے ہی ایک پیغام ملا، جس میں پوچھا گیا تھا کہ

’’بتلایئے فآپ کا سفر کیسا رہا۔ کیا ڈرائیور کی کارکردگی سے آپ مطمئن ہیں‘‘

\"\"

بیس منٹ بعد پھر سے گاڑی کی ضرورت پڑگئی۔ گاڑی کی بکنگ ہوگئی تو فون پر ایک پیغام موصول ہوا

’’آپ کے سابقہ کرایے میں سے ایک روپیہ ہماری طرف رہتا ہے۔ کیا اگلے کرائے میں یہ ایک روپیہ شامل کرنا چاہیں گے؟‘‘

صبح ایک تقریب میں شرکت کے لیے مرگلہ ہوٹل جانا تھا۔ جاتے دم کچھ اہم دفتری دستاویزات ڈھونڈنے لگا، نہیں ملیں۔ گمان ہوا کہ کریم کی پچھلی نشست پر بھول گیا ہوں۔ فون کیا، دستاویزات صبح تڑکے مرگلہ ہوٹل کے ریسپشن پر پہنچ چکی تھیں۔

لاھور میں میں نے کریم سروس استعمال کی۔ بھلکڑ آدمی ہوں کچھ بھولے بغیر لوٹ آؤں تو احباب کو حیرت ہوتی ہے۔ آفیشل سیل فون اور تین کتابیں گاڑی میں بھول گیا۔ کریم ہیلپ لائن پر فون کیا۔ کچھ ہی دیر میں سیل فون اور کتابیں میرے ہاتھ میں تھیں۔

\"\"

اوبر میں سفر کا اتفاق نہیں ہوا۔ مگر ظاہر ہے کہ اوبر بھی آپ کو سفر کی یہی سہولیات اور تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اوبر کا امتیاز یہ ہے کہ رات گئے رکشہ تک بھی آپ کو درکار ہو تو اوبر معمول کے کرائے میں یہ سہولت چند ساعتوں میں آپ کے دروازے پر مہیا کردیتا ہے۔ پاکستان کے ہر بڑے شہر میں موجود ٹرانسپورٹ کی یہ سہولت آپ کو عام ٹیکسی کے مقابلے میں ارزاں یا پھر یکساں پڑتی ہے۔

حیرت ہوئی کہ پنجاب حکومت نے ان ٹرانسپورٹ کمپنیوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کردیا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق سندھ میں بھی یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ یہ فیصلہ کیوں کیا؟ اس کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ دکھ فقط ایک بات کا ہے کہ پنجاب حکومت نے ان ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے خلاف جو چارج شیٹ پیش کی ہے اس میں یہ تک کہا گیا ہے کہ ٹرانسپورٹ کی یہ سہولت عوام کے لیے ایک سیکورٹی رسک ہے۔ کم سے کم درجے میں بھی یہ غلط بیانی ہے۔ کیا یہ سوال کسی نے عوام سے بھی پوچھا ہے؟

\"\"

لیکن ایک لحظہ توقف فرمائیے۔ 17 اکتوبر 2016 کا مبارک دن تھا جب پنجاب حکومت کے انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے آفیشل فیس بک پیج پر ایک اجلاس کی خبر دی گئی تھی۔ اجلاس میں چیئرمین انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ ڈاکٹر عمر سیف، ڈی آئی جی آپریشن حیدڑ اشرف، سی سی پی او لاہور کیپٹن امین وینس، سی ٹی او لاہور طیب چیمہ، سیکرٹری ایکسائز احمد بلال جیسے اہم افسران شامل تھے۔ ڈاکٹر عمر سیف نے فرمایا کہ اوبر آٹو (رکشا سروس) عوام کی زندگی میں زیادہ چوائس لانے اور آسانی فراہم کرنے کا باعث بنے گی اور یہ ایک سستا اور محفوظ ذریعہ سفر ہو گا۔ اس سے رکشا ڈرائیور بھی ٹیکنالوجی کی مدد سے روزگار کما سکیں گے۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ قانون نافذ کرنے والے ڈیپارٹمنٹ اوبر سے حاصل کیا ہوا ڈیٹا استعمال کر کے شہر بھر میں سیکیورٹی اور لا اینڈ آرڈر کی صورت حال بہتر کر سکتے ہیں۔ ڈی آئی جی آپریشن حیدر اشرف صاحب نے ان کی تائید کی۔ اب رات ہی رات میں کیا کایا پلٹ ہوئی کہ جو شے سیکیورٹی اور تحفظ میں اضافے کا باعث تھی اب یکلخت سیکیورٹی خراب کرنے کا باعث قرار پائی ہے؟ اوبر آٹو سروس کا افتتاح بھی چیئرمین پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے سربراہ جناب ڈاکٹر عمر سیف نے ہی پہلی سواری کر کے فرمایا تھا۔

\"\"

سیکورٹی رسک کی تو جتنی بھی صورتیں ممکن ہوسکتی تھیں وہ تواتر کے ساتھ رینٹ اے کار سے ظاہر ہوئی ہیں۔ القاعدہ طالبان لشکر جھنگوی جنداللہ حرکۃ المجاھدین العامی لیاری گینگ اور سیاسی جماعتوں کے مسلح گروہوں سمیت کون سا نیٹ ورک ہے جس نے قتل وغارت گری، ڈاکہ زنی، چوری چکاری، لوٹ مار، اغوا کاری اور اہداف تک رسائی کے لیے رینٹ اے کار کا استعمال نہیں کیا۔ مگر کوئی تشویش؟ بالکل نہیں۔ کیوں؟ کیونکہ رینٹ اے کار پر ترک کمپنی البیراک کو کوئی تحفظات نہیں ہیں۔

آپ میٹرو بنایئے، ضرور بنایئے۔ پورے ملک میں جال بچھا دیجیے۔ اورنج ٹرین کی سہولت بھی متعارف کروایئے، مگر اس بات پر کسی شہری کو آپ کیسے مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ سفر کی وہی سہولیات استعمال کریں جو آپ نے متعارف کروائی ہیں۔ ؟ کیا آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ایک عام آدمی بھی ان ٹرانسپورٹ سہولیات پر کس قدر اعتماد کرتا ہے؟ ٹیکسی رکشہ ڈرائیورز کو کس طرح متبادل روزگار کے مواقع مل رہے ہیں؟ اور یہ کہ کتنی بڑی تعداد میں شہریوں کو روزگار کے مواقع میسر آئے ہیں؟ اور یہ بھی کہ کتنے شہری ہیں جنہیں ان کمپنیوں نے کمائی کے اضافی مواقع فراہم کیے ہیں۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے، فقط ایک غیر ملکی کمپنی کے معاشی اعشاریوں کو سہارا دینے کے لیے عوام سے داخلی معیشت و روزگار کے مواقع اور سفر کی سہولیات چھیننا ایک دانشمندانہ فیصلہ تو کسی طور نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments