نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد: ایک بڑا چیلنج


ریاستی، حکومتی اور معاشرتی سطح پر ایک بنیادی نوعیت کا مسئلہ انتہا پسندانہ رجحانات کا ہے۔ یہ مسئلہ محض مذہبی بنیادوں تک ہی محدود نہیں بلکہ عملی طور پر سیاسی، سماجی اور علمی و فکری محاذ پر بھی ہمیں مختلف نوعیت کے انتہا پسندانہ رجحانات اور ان سے جڑے نتائج دیکھنے پڑتے ہیں۔ اگرچہ قومی سطح پر ہم نے 2014 میں بیس نکاتی ”قومی نیشنل ایکشن پلان“ بھی ترتیب دیا ہوا ہے۔ اس پلان کے تحت ہم نے قومی سطح پر مشاورت کے ساتھ انتہا پسندی اور دہشت گردی سے جڑے معاملات سے مشترکہ حکمت عملی کے تحت نمٹنا تھا۔

انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں ہم نے انتظامی اور عسکری سطح پر بہت سی نمایاں کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج دہشت گردی کی لہر وہ نہیں جو ہمیں ماضی میں دیکھنے کو ملتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں قومی سطح انتہا پسندی یا شدت پسندی پر مبنی بیانیہ نظر آتا ہے۔ ہماری سیاسی، سماجی، قانونی اور علمی و فکری محاذ پر جو کام ہونا چاہیے تھا اس میں کئی حوالوں سے بدستور خامیاں یا کمزوریاں موجود ہیں۔

ہم قومی اور بین الا اقوامی سطح پر اپنے بارے میں ایک مثبت اور پرامن تشخص قائم کرنے کی جنگ کا حصہ ہیں۔ دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کی جو جنگ لڑ رہا ہے وہ نیک نیتی اور بہترین حکمت عملی کا حصہ ہے۔ خاص طور پر ہم اپنے خلاف عالمی اور بالخصوص بھارت کے اس منفی تاثر کی نفی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان کی ریاست براہ راست ان انتہا پسند عناصر یا گروہ کو اپنا حلیف سمجھتی ہیں۔

لیکن اسی تناظر میں ہمیں بعض اوقات ایسی شکلیں دیکھنے کو مل رہی ہیں جو ہماری داخلی و خارجی سطح کی تصویر کو دھندلا یا بدنما کرتا ہے۔ خاص طور پر یہ جو ہائبرڈ یا ففتھ جنریشن وار کی جنگ ہے اس میں ہمیں زیادہ بہتر حکمت عملی اور اپنے خلاف مخالفانہ مہم کا محض جذباتیت کی بجائے علمی و فکری بنیادوں سمیت ٹھوس شواہد اور حقائق کی بنیاد پر اپنا بیانیہ پیش کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ باتیں کافی شواہد کے ساتھ سامنے آ چکی ہیں کہ ہمارے خلاف عالمی اور بھارتی لابی مخالفانہ مہم میں پیش پیش ہے۔

اگرچہ ہم نے دہشت گردی پر کافی قابو پایا ہے لیکن اس پر زیادہ خوش فہمی کی بجائے مزید تدبر کے ساتھ انتہا پسندی کے خاتمہ پر کام کرنا ہو گا۔ کیونکہ انتہا پسندی کا عملی نتیجہ معاشرے میں پر تشدد رجحانات یا تشدد یا طاقت کی بنیاد پر اپنی سوچ اور فکر کو منوانے کا کھیل سامنے آتا ہے جو کسی بھی سطح پر ریاستی یا قومی مفاد میں نہیں ہے۔ اس انتہا پسندی کے خاتمہ میں بنیادی بات کسی بھی قسم کے سیاسی، انتظامی اور قانونی الجھاؤ کے بغیر پالیسی کا ہونا ہے۔

یہ تاثر کسی بھی صورت میں سامنے نہیں آنا چاہیے کہ ہم ڈر یا خوف یا سمجھوتوں کی سیاست سمیت کسی کو اچھا اور کسی کو خراب سمجھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ریاستی و حکومتی پالیسی میں اول ہمیں ہر سطح پر یکسوئی نظر آنی چاہیے اور اس کے بعد یہ ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معاشرے کے دیگر طبقات کو بھی اسی سوچ اور فکر کے ساتھ آگے بڑھ کر عملی اقدامات کی طرف پیش رفت کریں تاکہ اس موذی مرض کا مستقل بنیادوں پر علاج کیا جا سکے۔

”قومی نیشنل ایکشن پلان“ کا بڑا مسئلہ سیاسی اور معاشرتی اونر شپ یعنی ملکیت کی قبولیت کا ہے۔ جو جنگ ہم نے انتہا پسندی کے خلاف عملی طور پر سیاسی میدان میں سیاسی حکومتوں، سیاسی جماعتوں، سیاسی قیادت، میڈیا، اہل دانش، استاد، علمائے کرام اور سول سوسائٹی کی مدد سے مل کر لڑنی تھی اس کا فقدان ہمیں آج بھی قومی سطح پر غالب نظر آتا ہے۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود کو یا تو کمزور سمجھ کر اس مسئلہ کو نظرانداز کرتی ہیں یا ان کی سیاسی ترجیحات میں یہ مسئلہ ان کے سیاسی نقصان کی طرف لے جاتا ہے۔

دوسرا وہ اس مسئلہ میں خود سے کوئی ذمہ داری لینے کی بجائے ساری ذمہ داری اسٹیبلیشمنٹ پر ڈالتی ہیں۔ جب کہ یہ کام ایک فریق کا نہیں بلکہ دونوں فریقوں کو مشترکہ حکمت عملی کے تحت ہی آگے بڑھنا ہو گا۔ ایک دوسرے پر ذمہ داری کو ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش سے عملی طور پر ریاست کے مفاد کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ خاص طور پر ہماری مذہبی جماعتیں اور مختلف طبقہ کے علمائے کرام کے انتہا پسند عناصر کے خلاف کمزور سا بیانیہ بھی ہماری جنگ کو کمزور کرتا ہے۔ جو کام ریاستی سطح پر مختلف علمائے کرام کی مدد سے ”پیغام پاکستان“ کی دستاویز پر اتفاق ہوا اس پر عملی طور پر وہ کام نہیں ہوسکا جو ہونا چاہیے تھا۔

بیس نکاتی ”قومی ایکشن پلان“ کو ہمیں اپنے قومی نصاب کے طور پر حکمت عملی کا حصہ بنانا چاہیے۔ یہ حکمت عملی ہماری قومی پالیسی، قانون سازی اور علمی اقدامات یا عملدرآمد کے نظام میں شفافیت کی بنیاد پر سب کو نظر آنی چاہیے۔ مدارس کے نصاب میں موثر تبدیلیاں، طاقت اور بندوق کے زور پر انتہا پسند عناصر کا خاتمہ، قانون کی حکمرانی، ریاستی قانون میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں، اسلحہ کی روک تھام، فرقہ وارانہ معاملات کی سرکوبی، نفرت انگیز مواد کی اشاعت یا تشہیر، کسی کے نظریات یا عقائد پر مذہبی فتوی بازی یا کفر کے فتوے، سوشل میڈیا جیسے امور پر توجہ دینی تھی۔

اب وقت آ گیا ہے کہ نہ صرف قومی نیشنل ایکشن پلان کی مدد سے آگے بڑھا جائے بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر ہمیں اس قومی ایکشن پلان میں بھی کچھ نئی تبدیلیاں کرنی ہوں گی ۔ جن میں اول انتہا پسند عناصر یا دہشت گردی میں ملوث تمام افراد یا گروہ کے مواصلاتی سطح کے نظام کو مفلوج کرنا، دوئم مسلح گروہ، کالعدم تنظیموں کو کسی بھی سطح پر فعال اور سرگرم نہ کرنے کی حکمت عملی پر موثر عملدرآمد، سوئم نیشنل ایکشن پلان کے ہر نکات پر قومی، صوبائی اور ضلعی سطح پر ایک واضح فریم ورک اور ماہرین کی کمیٹیوں کی تشکیل، چہارم سوشل میڈیا پر شدت پسندی کو پھیلانے یا انتہا پسند افراد یا گروہ کی حمایت میں سوشل میڈیا پر حمایت کرنے والوں کی سرکوبی، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ان کے بیانیہ کی تشہیر کی نفی اور انتہا پسند رجحانات کے بیانیہ کے مقابلے میں امن، رواداری اور ایک دوسرے کے نظریات کے باوجود قبولیت، پنجم تعلیمی اور مدارس کے نصاب میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانا ہوں گی ۔

اگرچہ ہمارا دعوی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان قومی اتفاق رائے سے ترتیب دیا گیا تھا لیکن اب اس پر مزید اتفاق رائے کو پیدا کرنا، نئی حکمت عملی کو ترتیب دینا اور ریاستی بیانیہ کے فروغ سے جڑا ہوا ہے۔ اسی بنیاد پر ہمیں اپنے ادارہ جاتی نظام کی تشکیل نو یا اصلاحات کے عمل کو یقینی بنایا جائے گا۔ اسی طرح ہماری انتہا پسندی سے نمٹنے کی پالیسی میں کوئی سیاسی جھول نہیں ہونا چاہیے اور سب کے بارے میں یکساں پالیسی کو بنیاد بنا کر ہمیں ہر سطح پر موجود ان عناصر کی سرکوبی کرنی ہوگی جو ریاست کو مختلف سطحوں پر چیلنج کر کے اپنی رٹ کو مضبوط بنا کر ریاست کو یرغمالی بنا کر اپنا ایجنڈا مسلط کرنا چاہتے ہیں۔

ایسے افراد یا گروہ کے ساتھ بات چیت میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن شرط یہ ہے کہ یہ بات چیت ریاستی سطح کی شرائط پر ہونا چاہیے اور اس میں ریاست کی کمزوری کا پہلو کسی بھی سطح پر نظر نہیں آنا چاہیے۔ یہ ہی عمل ہمیں عالمی سطح پر موجود ان تمام چیلنجز سے بھی بھی باہر نکالنے میں مدد دے گا جو ہمیں مشکلات میں مبتلا کرنے اور عالمی دبا و میں آنے کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے قومی سطح پر ہمیں اب اپنے انتہا پسندی سے جڑے معاملات پر خود احتسابی یا پوسٹ مارٹم کرنا ہو گا کہ وہ کون سے غلطیاں یا کمزوریاں ہیں جو مسلسل ہم سے ہو رہی ہیں اور اس کا نتیجہ ہمیں ریاست کی کمزوری کے مختلف پہلووں کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments