پربتوں کے سائے میں – امب شریف ٹریک (1)۔
اوچھالی تا امب ٹریکنگ /ہائیکنگ (سکیسر پیک کے ساتھ ساتھ )
تو اس بار ہم جا رہے تھے قصبہ ”امب“۔ جب بھی ہم نے یہ نام سنا تھا ہمیشہ یہی سوچا کہ شاید وہاں پر آموں کے باغات ہیں لیکن بڑے بزرگ یہی بتاتے تھے کہ وادی سون میں امب نہیں ہوتے۔ البتہ دیگر کئی حوالوں سے امب گاؤں کافی شہرت رکھتا ہے۔
کتنا عجیب لگتا ہے جب کوئی آپ کو بتائے کہ بچپن سے آپ جس وادی میں رہتے آئے ہیں اس وادی میں زمانہ قدیم میں آباد قوم کے آثار ابھی تک موجود ہیں، جو اس قوم کے مذہب، عبادت گاہوں اور دیگر تاریخ کے بارے میں بتاتے ہیں اور ہم ان سے بالکل نا آشنا ہیں لیکن پھر تسلی ہوتی ہے کہ ہم ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بہت سے اور لوگ بھی ہیں جو وادی سون میں ان تاریخی آثار کے بارے میں بالکل بھی کچھ نہیں جانتے۔ وادی سون کے انتہائی جنوب مغرب میں ” امب ” کی وادی بھی آثار قدیمہ کا ایک خزانہ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں پر ایک ہزار سالہ پرانے شہرکے آثار ملتے ہیں جس کے مکانات تو سارے ہی ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں لیکن عبادت گاہوں کے آثار ابھی بھی زمانے کی شکست و ریخت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہاں ایک تاریخی قصبہ ہے جہاں کے ایک بزرگ حضرت ابراہیم ساڑھی والے سے کئی کرامات منسوب ہیں۔ اور یہی وجہ ہے ” امب ” کو مشرف بہ اسلام کر کے ” امب شریف“ قرار دے دیا گیا ہے۔
برادر عدنان عالم اعوان نے پہلی چار مہمات میں کامیابی کے بعد اوچھالی سے امب ٹریکنگ پلان کی۔ طویل ٹریک ہونے کی وجہ سے یہ ٹریک دو دنوں پر تقسیم کیا گیا۔ ایک دن جانے کے لئے اور اگلا دن واپسی کے لئے۔ جانے اور آنے کے ٹریک الگ الگ تھے۔ وادی سون کے سب سے اونچے پہاڑ کے سائے میں کہ جس کی چوٹی پر پی اے ایف براجمان ہے ہمارے ٹریک کے جانے کا رستہ تھا۔ برادر عدنان عالم نے جب اس مہم کا اعلان کیا تو بتایا کہ یہ مہم دو دن میں طے ہو گی انہیں اچھی طرح علم تھا کہ ہم یہ ٹریک ایک دن میں نہیں کر سکتے۔ اونچے پہاڑوں پر چلنا اترنا اور پھرچڑھنا، کٹے پھٹے رستوں پر مشتمل بارہ کلو میٹر طویل ٹریک پر ایک دن میں جانا تو ممکن ہو سکتا ہے لیکن اسی دن واپسی؟ نا ممکن۔ ایک اچھا ٹریکرہمیشہ اپنے ساتھیوں کا خیال رکھتا ہے تو عدنان صاحب نے طویل مہم کے بارے میں بتاتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ جناب آپ لوگوں کی عمدہ خاطر تواضع بھی ہو گی اور رہائش کا بھی عمدہ انتظام ہو گا۔
تو یہ ہفتہ 21 جنوری کی ایک روشن روشن دوپہر تھی جب ہم عدنان عالم، محمود ملک اور نیاز اعوان کے ہمراہ نوشہرہ سے اوچھالی کی طرف روانہ ہوئے۔ اگرچہ روانہ صبح ہونا تھا لیکن ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا۔ مصنف اس تاخیر بارے کچھ نہیں لکھے گا۔ البتہ محمود ملک اور عدنان احسن ملک کی تعریف کرے گا۔ یہ دونوں جوان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اسلام آباد میں جاب کرتے ہیں اور اسلام آباد میں ٹریکنگ /ہائیکنگ کے شاندار مواقع ملنے کے باوجود وادی سون کی محبت انہیں ان کے آبائی وطن میں کھینچ لاتی ہے ملک محمد علی اور بلال مقصود نے ہمیں کفری سے جوائن کیا عدنان احسن ملک جنہیں ہم نے اپنی آسانی کے لئے عدنان جونیئر کا نام دیا۔ اوچھالی میں ہمیں ملے۔
عدنان صاحب ٹریکنگ ٹرپ کی جزئیات اس حد تک طے کرتے ہیں کہ گوگل ارتھ سے رستے کے ایک ایک موڑ، ایک ایک پتھر تک زبانی یاد کر لیتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ اوچھالی کے مغرب میں واقع ڈیرہ اوچھال پر ہم گاڑیاں پارک کریں گے اور وہاں سے ٹریکنگ کا باقاعدہ آغاز ہو گا۔ ڈیرہ اوچھال کے عمران بھائی ہمارے ساتھ ہو لئے پہلے تو عمدہ قسم کی چائے سے ہماری تواضع کی اور پھر انہیں الوداع کہتے ہوئے ہم نے وادی سون کے پانچویں ٹریکنگ / ہائیکنگ ٹرپ کا آغاز کیا۔ نئی منزلوں کی طرف چلنا ہمیشہ سے سنسنی خیز ہوتا ہے اور بندہ بہت تیزی سے چلتا ہے۔ ہم نے بھی تیزی سے چلنا شروع کیا۔ کئی بار ملاقاتوں کی وجہ سے آپس میں بے تکلفی بھی بہت ہو گئی ہے تو سب ایک دوسرے سے گپ شپ لگا رہے تھے، محمود ملک نے بہت جلد اپنی دلچسپ باتوں سے ہم سب کا دل موہ لیا۔ بہت جلد ہم اپنی پہلی چڑھائی پر چڑھنا شروع ہوئے۔ ہر ماہ ایک طویل ٹریکنگ کے بعد اب پہاڑوں پر چڑھنے میں دقت محسوس نہیں ہوتی۔
بہت جلد ہم پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ چکے تھے عدنان بھائی نے بتایا کہ اس پہاڑ کی بلندی 3230 فٹ ہے، جس طرف ہم نے جانا تھا وہاں کی کانجرہ پیک کی بلندی3840 فٹ جبکہ سکیسر پیک کی بلندی 4992 فٹ ہے۔ جب کچھ دم لینے کے بعد ادھر اودھر دیکھا تو دل خوش ہو گیا۔ ہمارے پیچھے اوچھالی جھیل کا دلکش منظر تھا۔ اوچھالی جھیل کئی کلومیٹر طویل ہے اور جہاں ہم تھے وہاں سے مشرق و مغرب تک اس کو بخوبی دیکھ رہے تھے۔ جھیل کو اس زاویے سے پہلی بار عدنان عالم صاحب نے اپنے کیمرے میں قید کیا اور کیا ہی خوب صورت فوٹو سامنے آئے۔ ہمارے سامنے وادی کی سب سے اونچی چوٹی سکیسر پیک تھی جو بہت قریب محسوس ہو رہی تھی اور اتنی بلندی پر ایک خوب صورت ہموار ٹیرس تھی جس پر کبھی کھیتی باڑی کی جاتی تھی لیکن اب وہ ویران تھی۔ ہم نے سکیسر پیک کے گرد اپنا سفر کرنا تھا سکیسر پیک پر درختوں کی کٹائی پر پابندی کی وجہ سے یہاں گھنا جنگل ہے جس کا منظر کافی خوب صورت ہے، پہاڑ سے نیچے ہر طرف گھنا جنگل پھیلا ہوا تھا دن ڈھل رہا تھا اور ہم سوچ رہے تھے کہ یہاں سے نیچے کیسے اور کس طرف کو جانا ہے لیکن عدنان بھائی ہمیں ابھی مزید سسپنس میں رکھے ہوئے تھے اور مسکراتے تھے۔
یہاں ہم نے کافی وقت بتایا۔ باتیں کیں اور پھر ہم نے یہاں ایک بہت پرلطف اور پرذائقہ سوغات کھائی۔ حسب روایت برادر ملک محمد علی ایک بہترین سوغات بنوا کر لائے تھے جس کے بارے میں ہم بہت تجسس میں تھے کہ کیا ہو گی انہوں نے بیگ کھولا اور پلاسٹک پیکنگ میں ایک ایک کپ معہ چمچ ہمیں پیش کیا۔ فراخ دل ملک صاحب متوقع ساتھیوں کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے گیارہ کپ بنوا کر لائے تھے مگر ہم صرف سات تھے۔ سوغات لذیز اور میٹھی تھی وہ بیک وقت حلوہ محسوس ہوتی تھی، فروٹ ٹرائفل یا پھر ڈھوڈا ٹائپ۔ سبھی نے اپنے اپنے اندازے لگائے اور علی بھائی مسکراتے رہے۔ اب ہم نے یہاں سے نیچے اترنا تھا۔ اور یہ اترنا یوں تھا جیسے کوئی دیوار ہو مگر یہاں کوئی سیڑھی بھی نہ تھی۔ بالآخر عدنان بھائی نے بتایا کہ یہاں سے نیچے اتریں گے اور یہاں جگہ ایسی تھی کہ سینکڑوں فٹ نیچے تک ہم گہرائی میں دیکھ سکتے تھے اور اگر لڑھک جاتے تو سنتھے کی جھاڑیاں شاید ہی ہمیں لڑھکنے سے بچا پاتیں۔
بہرحال ٹریکنگ اور وہ بھی پہاڑوں میں۔ ایسی خطرناک اترائیاں چڑھائیاں تو ٹریکنگ کا لازمی جزو ہوتی ہیں جو ڈرتا ہے اس کے لئے بہتر ہے کہ گھر بیٹھے اور ہمارے سفرنامے سے لطف اٹھائے۔ کچھ دیر تو جھاڑیاں پکڑ پکڑ کر اترنے کی کوشش کرنے لگے اور پھر ہمیں چھوٹی سی پگڈنڈی مل ہی گئی۔ یہ پگڈنڈی یوں تھی کہ پہلے تو یہ ہمیں مغرب کی جانب لے گئی اور پھر مڑ کر مشرق کی جانب آئی اور یوں ہم زگ زیگ کے انداز میں پہاڑ سے نیچے اترنے لگے۔ یہ ایک مشکل اترائی تھی۔ لیکن ہمیں تو اب عادت ہو گئی ہے ایسے رستوں پر چلنے کی۔ رستے میں ہمیں لکڑیاں لے کر آتے دو مقامی ملے جنہوں نے ہم سے ہماری منزل پوچھی اور ہمارا جائزہ لیتے ہوئے اسے ہمارے لئے ایک مشکل کام قرار دیا۔ ہمیں دیکھ کر لوگوں کا رد عمل ایسا ہی ہوتا ہے۔ اور چلتے چلتے ہم لوگ ایک دوسرے کو بس سن سکتے تھے جھاڑیاں اتنی بلند تھیں کہ دیکھا کچھ نہیں جا سکتا تھا۔ ہمارے لیڈر کو ساتھیوں پر رحم آیا اور وہ ایک جگہ ریسٹ کے لئے رک گئے ہم بھی وہاں پہنچ گئے۔
پربتوں کے سائے میں – امب شریف ٹریک (2)۔
- حاصل زیست۔ ایک مطالعہ - 16/05/2023
- جناح ہاؤس لاہور۔ کیا واقعی کوئی جناح ہاؤس لاہور میں بھی تھا؟ - 14/05/2023
- کیا عمران خان ایک ناکام سیاستدان ہیں؟ - 14/04/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).