ہم بھی کسی کے ” لوگ ” کہلاتے ہیں


” لوگ کیا کہیں گے؟ لوگوں کا تو کام ہے باتیں بنانا، لوگ بھی نا۔ بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں۔ “ اس طرح کے الفاظ ہم دن میں کئی بار دہراتے ہیں۔ خاص کر جب کوئی فیملی میں اونچ نیچ ہو گئی ہو۔ مگر اس میں ہم ہر بار یہ غور طلب بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم بھی کسی کے لوگ کہلاتے ہیں۔ جب ان کے ساتھ کچھ ہو رہا ہوتا ہے تو ہم قہقہے لگا کر ہنستے ہیں۔ طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہوتے ہیں۔ مکافات عمل کہہ کے اپنا سینہ چوڑا کر کے بیٹھتے ہیں۔

اس واقعے کو مصالحے دار بنانے کے لیے اپنی طرف سے ہر طرح کی کوشش کرتے ہیں اور انداز بیاں ایسا اپناتے ہیں کہ بیٹھے لوگ آپ کو داد دیے بنا رہ نہ سکیں۔ دو اپنے سے لگا کر واقعہ ایسا بناتے ہیں کہ کم از کم بیٹھے لوگ ایک ہفتے تک وقتاً فوقتاً آپ سے اس بارے میں کچھ نہ کچھ پوچھتے رہیں کہ ”فلاں کی بیٹی کے ساتھ آگے کیا سین ہوا؟“ تب ہم ان کے لحاظ سے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جب گھر بیٹھ کر اندازہ لگا رہے ہوتے ہیں کہ لوگ اس طرح کی باتیں کر رہے ہوں گے تو ہم ان کی سوچ سے بھی دو قدم آگے چل رہے ہوتے ہیں۔

تب ہماری آنکھوں سے اپنا بیٹا، اپنا داماد، اپنی بیٹی، اپنی بہن، اپنی ماں، اپنی بہو غرض کہ کہ سب رشتے غائب ہو جاتے ہیں کہ کل ان کے ساتھ بھی یہ ہو سکتا ہے اور جس جگہ آج کوئی اور کھڑا ہے وہاں کل ہم بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔ آج ہم لوگ ہیں تو کل کو وہ بھی لوگ بن سکتے ہیں۔

پھر جب تمہارے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں تو پھر تمہیں تکلیف کیونکر ہوتی ہے۔ پھر تمہارے ذہن میں یہ خیال آیا ہو گا کہ کل کو ہم باتیں بنا رہے تھے اور آج وہ باتیں بنا رہے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے یہ خیال پیدا ہوا ہو گا کہ فلاں کے ساتھ ہونے والے حادثے کو تم نے اس کے گناہوں سے منسوب کیا تھا۔ تم تو بڑے پارسا تھے پھر یہ تمہارے ساتھ کیوں ہوا؟ تب تم ”جیسی کرنی ویسی بھرنی“ کی مثال دے کر کہا کرتے تھے کہ اس نے اپنے بڑوں کے ساتھ اچھا نہیں کیا تھا، اس لیے یہ سب اسے بھگتنا پڑ رہا ہے۔

تب تم نے واقعہ سنا سنا کر جتنا ہو سکتا تھا، اس کی ذات کو نشر کیا تھا۔ تب تم نے اس کی عزت کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی تھیں۔ تب تمہیں اس میں ایک دفعہ بھی خود کی جھلک دکھائی نہیں دی۔ تم نے ایک دفعہ بھی یہ نہیں سوچا کہ اس کٹھن گھڑی میں اسے حوصلہ دیا جائے، اس کی مدد کی جائے، اسے ہر طرح سے سپورٹ کیا جانا چاہیے۔

نہ بھئی نہ! یہ خیال تو تمہارے دماغ میں ایک دفعہ بھی جنم نہ لے سکا۔ تب تم ”لوگ“ جو بن چکے تھے۔ لوگ بھی ایسے بنے کہ جیسے باری کے انتظار میں تھے کہ کب اس کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ یا اونچ نیچ ہو، میں اڈے کے تھلے پر بیٹھ کر اس کی بد خوئیاں کر سکوں۔ اس کی ذات کو نیچا دیکھا سکوں۔ اسے اپنی اوقات یاد دلا سکوں۔

اس ساری کشمکش کے باوجود بھی ہم کسی چوراہے کی نکڑ پر بیٹھ کر بڑی بے نیازی سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ لوگوں کا تو کام ہے باتیں بنانا، بات کا بتنگڑ بنانا۔ بھائی جان کبھی آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود کو غور سے دیکھنا، خود کی آنکھوں میں دیکھنا۔ خود میں ہی لوگ نظر نہ آئیں تو کہنا۔ آج لوگ ہماری باتیں کر رہے ہیں تو کل کو ہم بھی تو کسی کے لوگ بن کر باتیں کر رہے تھے۔ چسکے لے لے کر بات کا بتنگڑ بنانے پر تلے ہوئے تھے۔

کیا ہوا؟ اب بھی بات پلے نہیں پڑی! دیکھو یار، بات بہت سادہ سی ہے مگر ہضم کرنے اور سمجھنے میں وقت لگے گا۔ بس یہ یاد رکھنا کہ کسی کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے پہلے، جو لوگوں کی ہم بات کرتے ہیں کہ لوگوں کا تو کام ہے باتیں بنانا۔ وہ ”لوگ“ ہم ہی ہیں۔ وہ لوگ کسی دوسرے سیارے سے نہیں آتے، وہ آسمان سے نہیں گرتے، وہ زمین سے نہیں پھوٹتے بلکہ وہ ہم ہی ہوتے ہیں، جو بات کو جنگل میں آگ کی طرح پھیلاتے ہیں۔ اگر غور سے دیکھو گے تو سب ایک دوسرے کے حساب سے ”لوگ“ ہی نظر آئیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments