پاکستان اور ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت


کچھ عرصہ پہلے منظور پشتون نے ایک نہایت اہم بات کہی تھی کہ ریاست اور عوام کے بیچ آئین ہوتا ہے۔ یعنی یہ آئین ہی طے کرتا کرتا ہے کہ عوام اور ریاست اپنے اپنے فرائض پوری طرح سے ادا کر رہے ہیں اور کیا عوام کو ان کے حقوق درست طریقے سے فراہم کیے جا رہے ہیں یا نہیں۔

آئین ایک عمرانی معاہدہ ہے جو عوام کے ہر مکتبہ فکر، شناخت اور پہچان کے لوگوں کی اجتماعی سوچ کے مطابق تشکیل دیا جاتا ہے۔ یعنی یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی ایک مخصوص جغرافیہ میں رہنے والے کثیر تعداد میں لوگ یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ انھیں کس طرح اور کن شرائط کی بنیاد پر کن قوانین کے تحت اور کس نظام کے ساتھ زندگی گزارنی ہے۔

پاکستان میں رائج آئین انیس سو تہتر میں بنا۔ تب پاکستان کو دو لخت ہوئے دو سال ہی ہوئے تھے۔ سقوط ڈھاکا بنگال کے لوگوں کو درپیش شناخت کے مسلے کی وجہ سے پیش آیا۔ تب اہم نکتہ یہی اٹھایا گیا کہ اگر باقی ماندہ پاکستان کو ایک جان رہنا ہے تو ایک سنجیدہ قسم کے عمرانی معاہدہ پر اتفاق قائم کرنا ہی ہو گا۔ حسین حقانی صاحب کے مطابق تب ایک عنصر یہ بھی تھا کہ مشرقی پاکستان میں شدید شرمندگی اٹھانے کے بعد پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو منہ چھپانے کے لئے سیاست دانوں کو آگے لانا پڑ رہا تھا تاکہ فوج کو تھوڑی دیر کے لئے منظر عام سے ہٹایا جائے اور سیاسی قوتوں کو آگے لاکر ان سے بھی تھوڑا بہت بوجھ اٹھوایا جائے۔

تہتر میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سیاسی قوتوں نے اتفاق رائے سے ایک آئین منظور کیا۔ تب کے حالات کے مطابق یہ ایک اہم پیش رفت تھی۔ گو کہ یہ آئین عوام کے تمام طبقات کی امنگوں کے مطابق نہیں تھا بلکہ کچھ کچھ جگہوں پر تو اس میں کچھ مخصوص شناختوں کو کریمنلاائیز کرنے کی بھی کوشش کی گئی جس کا خمیازہ بعد میں سہنا پڑا۔ بہر حال شدید انارکی کی صورت حال میں یہ ایک مثبت پیش رفت ضرور تھی۔

تھوڑا پیچھے چلیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی تقسیم میں مسلم لیگ نے مذہب کو بنیاد بنا کر پیش کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف لسانی اور تاریخی شناخت کی حامل اقوام کو ایک مذہب کے بینر تلے جمع کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس تمام تر عمل میں یہ یقین کر لیا گیا کہ نوزائیدہ ریاست کی بقا اسی میں ہے کہ یہاں مذہبی تصور کو بنیاد بنا کر مرکزیت کو پروان چڑھایا جائے اور لسانی شناختوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اس غیر فطری کوشش کے عملی جامہ پہنانے کے لئے قرارداد مقاصد پیش کی گئی اور پھر اسے ہر آنے والے آئین کا حصہ بنایا گیا۔ اشرافیہ نے اپنے مفاد کی خاطر بنگالی اکثریت کی شناخت کو نظر انداز کیے رکھا جس کا نتیجہ بالآخر ملک کے دو لخت ہونے کی صورت میں نکلا۔

ریاست کی مرکزیت کو قائم رکھنے کے لئے مذہب کا بے دریغ استعمال اور نظریاتی اعتبار سے کنفیوژن کے باعث شروع ہی سے مختلف اکائیوں اور حقیقتوں کو عدم تحفظ کا احساس دامن گیر رہا۔ چاہے پھر وہ بنگال کی اکثریت ہو جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے یا بلوچ پشتون شناخت کا سوال، ریاست ہمیشہ اس حوالے سے مشکلات کا شکار رہی جنھیں کبھی بھی درست طریقے سے نمٹانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ مختلف مارشل لاؤں نے ان مشکلات میں مزید اضافہ کیا۔

آمروں کے ادوار میں انہی اکائیوں کو مزید سائیڈ لائن کرنے کی کوشش کی گئی۔ پاس پڑوس میں مذہبی لبادہ میں تزویراتی گہرائی کے نام پر اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی گئی اور قوم پرست قوتوں کو کمزور کرنے کا عمل جاری رکھا گیا۔ انہی عوامل کے باعث خلیج مزید بڑھتی گئی۔ سوویت افغان جنگ اور اس کے بعد امریکہ افغان جنگ میں ریاست پاکستان کا وتیرہ نہیں بدلہ اور خاص کر پشتون شناخت کو شدید نقصان پہنچانے کی سعی کی گئی تاکہ مرکزیت کو دوام حاصل ہو۔

اس سے فقط حاصل یہ ہوا کہ وقت کے ساتھ محرومی اور جبر کا احساس شدید تر ہوتا گیا۔ پشتونوں میں خصوصاً یہ رائے عام ہونے لگی کہ ان کو یہاں پہچان سے محروم رکھنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ فی زمانہ مذہبی خصوصاً مذہبی سیاسی طبقہ کو غیر ضروری توجہ دی گئی اور جینون سیاسی اور قومی آوازوں کو دبانے کی کوشش کی گئی۔ باچا خان اور ولی خان سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور بیچ میں مختلف کرداروں سے ہوتا ہوا علی وزیر حنیف پشتین تک آ پہنچا۔

ان توانا آوازوں کے خلاف متبادل مذہبی سیاسی قوتوں کی آبیاری کی گئی جس کی تازہ ترین مثال تحریک لبیک یا رسول اللہ کی ہے۔ آئین سے لے کے نظام اختیار تک ہر جگہ مقامی لسانی شناخت کو طور پر مذہبی قومی شناخت، جو خود ایک جغرافیہ کے اندر تک محدود ہے اور ایک بہت بڑی نظریاتی الجھن کا شکار ہے، کے تحت لا کر بالآخر معدوم کرنے کی کوشش کی گئی۔

ان تمام عوامل کے باوصف، وقت کے ساتھ ساتھ یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ پاکستان کا آئین محروم طبقات، شناختوں اور لسانی حقیقتوں کے لئے ناکافی بلکہ جبر پر مبنی ہے۔ پشتون اور بلوچ بیلٹ میں یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے اس کے علاوہ سرائیکی وسیب اور سندھ میں بھی یہ احساس شدت کے ساتھ محسوس کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کا آئین، ریاست اور عوام کے بیچ اعتماد قائم کرنے میں ناکام ہو رہا ہے۔ پاکستان کو ایک نئے عمرانی معاہدے کی شدید ضرورت ہے جس میں بنیادی نکتہ یہی ہونا چاہیے کہ کسی بھی صورت تمام تر مذہبی، لسانی اور دوسری قسم کی اکائیوں کو تحفظ حاصل ہو اور اس کی ترجیح ایک ترقی پسند، استحصال اور گھٹن سے پاک ریاست ہو جہاں اپنی اپنی پہچان کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو۔ لیکن ان سب امور کے لئے ریاست کو مرکزیت سے فاصلہ اختیار کرنا ہو گا اور ایک قدرے کمزور کنفیڈریشن کی صورت اختیار کرنی ہوگی جو میرا نہیں خیال کہ مقتدرین کبھی بھی چاہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments