جمہوریت سے سیکولرازم تک


ہمارے بعض ژولیدہ فکر دانشوروں نے جس طرح کی غلط فہمیاں جمہوریت کے بارے میں پھیلائی ہیں۔ اسی طرح کی بے سروپا باتیں سیکولرازم کے حوالے سے بھی عام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کی جانب سے عموماً ایسا پراپیگنڈہ منظرعام پر آتا ہے کہ سیکولرازم مذہب کے خلاف ہے۔ سیکولر ریاستیں مذہبی اقدار کو پامال کرتی ہیں۔ سیکولر ریاستوں میں مذہبی ادارے غیر محفوظ ہوتے ہیں اور ریاست کی طرف سے مذہبی شعائر اور عقائد کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے اردو زبان و ادب کی دنیا میں بہت بڑا نام رکھنے والی ایک شخصیت نے تو سیکولرازم کا ترجمہ ہی لادینیت کر دیا تھا اور یہی ترجمہ اکثر و بیشتر سیکولرازم مخالف عناصر اپنی گفتگوؤں میں کرتے ہیں۔ بات یہاں تک آ کر ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ سیکولرازم کا مطلب اباحیت پسندی اور جملہ اخلاقی اقدار سے بغاوت بھی مشہور کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ اگر کہیں کوئی غیراخلاقی فعل زیربحث ہوتا ہے تو اس کو سیکولرازم کے ساتھ منسوب کر دیا جاتا ہے اور ایسا کرنے میں ہمارے نام نہاد دانشور اور ذرائع ابلاغ بھی پیش پیش پائے گئے ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ سیکولرازم کے مخالف اور یہ سارا طوفان اٹھانے والے نہ سیکولرازم کے تصور کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی اچھے سیکولر معاشروں کی تاریخ میں سیکولر روایات کو دیکھنے اور اس کا اعتراف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ سیکولرازم مذہبی اقدار کو ختم کرنے کی بات ہرگز نہیں کرتا اور نہ ہی اس کے معاشرے پر اثرانداز ہونے سے انکاری ہوتا ہے۔ صحافت کا طالبعلم ہونے کے ناتے جو میں نے آج تک سیکولرازم کے بارے میں پڑھا اور سنا اس کا کلیدی نکتہ یہی ہے کہ سیکولرازم انسانی معاشرے کی تنظیم و انضباط کا ایسا ریاستی نظام ہے جو واضح طور پر طے شدہ جغرافیائی حدود میں پیدا ہونے اور بسنے والے تمام انسانوں کے بلا امتیاز تحفظ۔

بہبود اور ترقی و خوشحالی کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ سیکولر ریاست ان مقاصد کے حصول کے لئے فہم عامہ۔ اجتماعی مشاورت اور انصاف کے اصول بروئے کار لاتی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بیک وقت دو طرح کے المیوں سے دوچار ہیں ایک مادی پسماندگی دوسرا فکری افلاس۔ اس افلاس کے نتیجہ میں لوگ اپنی پسماندگی کے اسباب کو جاننے کی اہلیت نہیں رکھتے اور ان میں یہ صلاحیت بھی نہیں پائی جاتی کہ وہ اپنے ادبار کو اس کے اسباب و عوامل کے ساتھ سمجھ سکیں۔

بلکہ اکثر صورتوں میں ان کا فکری افلاس خود ترقی اور ترقی یافتہ تمدن کے بارے میں بھی ان کو منفی رویے اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اگر جمہوری قدروں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو جمہوریت اور سیکولرازم ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم پائے گئے ہیں کیونکہ جمہوریت میں اقتدار اعلیٰ عوام کی ملکیت ہوتا ہے۔ قانون کی نظر میں تمام شہریوں کی برابری قائم کیے بنا جمہوریت کا پودا کسی صورت بھی پروان نہیں چڑھ سکتا۔

تمام شہریوں کی بہتری۔ حفاظت اور ترقی کو یقینی بنانا جمہوریت کا حتمی مقصد ہے۔ جمہوریت میں منظم اداروں۔ مربوط ضابطوں اور احتیاط سے تیار کی ہوئی پالیسیوں کی مدد سے کاروبار حکومت چلایا جاتا ہے۔ جمہوریت کی کامیابی کے لئے منصفانہ معاشی مواقعوں کی ضمانت ناگزیر سمجھی جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر جمہوری نظام میں پچھڑے ہوئے علاقوں۔ گروہوں اور طبقات کو ترقی کے دھارے میں شریک کرنے کی شعوری کوشش کی جاتی ہے جبکہ سیکولرازم میں ریاست کا مقصد ہماری زندگیوں کو بہتر بنانا ہے۔

سیکولر ریاست اپنے شہریوں کے پیٹ میں غذا۔ بدن پر لباس اور سر پر چھت فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھاتی ہے۔ ان کے لئے مناسب روزگار اور تفریحات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ سیکولر ریاست شہریوں کو حصول علم اور مختلف فنون میں ذوق پیدا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ان کے جان ومال اور شخصی آزادیوں کی حفاظت کرتی ہے۔ سیکولر ریاست کا فرض ہے کہ ایسے قوانین۔ ادارے اور پالیسیاں اختیار کرے جن کی مدد سے معاشرے سے جرائم اور تشدد کو ختم کیا جا سکے۔

جہالت مٹائی جاسکے۔ غربت کا قلع قمع کیا جاسکے اور بیماریوں کی روک تھام کی جاسکے مگر بدقسمتی سے جہالت کا عنصر غالب ہونے کی وجہ سے ہمارے جیسے معاشروں میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر اکثر و بیشتر الزام تراشی کرتی نظر آتی ہیں کہ فلاں حکمران ملک کو سیکولر بنانے کی ایجنڈا پر عمل پیرا ہے۔ معذرت کے ساتھ ملک کی بڑی مذہبی جماعتوں کی جانب سے ایسی الزام تراشیاں تو روز کا معمول ہیں حالانکہ میری سمجھ بوجھ کے مطابق جمہوریت اور سیکولرازم ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔

عوام کی سادگی اور لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاسی مداری سیکولرازم کو فحاشی سے منسوب کر کے اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ ایسے عناصر جمہوری نظام کا حصہ بن کر کرسی اقتدار پر براجمان ہونے کا خواب تو دن رات دیکھتے ہیں مگر ساتھ ساتھ سیکولرازم کو مذہب کے منافی قرار دے کر مذہب کے ٹھیکیدار ہونے کا ثبوت پیش کرنے کی بھی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ جمہوریت اور سیکولرازم کے کلیدی نکات میں گہری مماثلت ثابت ہونے پر کسی ملک یا قوم کے لئے سیکولر ہونا کوئی گالی یا طعنہ نہیں بس سیکولرازم  کے لفظ کو ہضم کرنے کے لئے عقل و شعور کی منازل کو طے کرنا شرط ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments