سیکولرازم کا عہد


آج ہم سیکولر عہد میں جی رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ سیکولرازم کیا ہے؟
سیکولرازم کا اپنا بیانیہ یہ ہے :

ہمارے آبا و اجداد قرون وسطی میں خدا، ارواح اور ماورائیت جیسی چیزوں پریقین رکھتے تھے، کائنات سے ’ماورا ذات‘ اور ’موت کے بعد زندگی‘ کے تخیل میں جی رہے تھے، پھر سائنس اور عقل کا دور آیا اور انسان نے طبعی قوانین کا پتہ لگا لیا، عقل نے کائنات کو مسخر کر لیا، مظاہر فطرت کی توجیہ ممکن ہوگی، اور خدا کی ضرورت ختم ہوگی، انسانی شعور کی ترقی نے خدا پر ایمان کو پہلے اضافی قرار دے دیا اور بالآخر اسے فرسودہ قرار دے کر منہا کر دیا۔

چارلس ٹیلر اس ’سائنس نے خدا کو منہا کر دیا‘ نظریے سے اتفاق نہیں رکھتے۔
آئیے ’چارلس ٹیلر‘ کا ترتیب دیا ہوا سوال دیکھتے ہیں :

”ایسا کیا ہوا کہ 1500 عیسوی کا وہ انسان جس کا ہر تصور ’خدا‘ کے بغیر نامکمل تھا آج پانچ سو سالوں بعد 2000 عیسوی میں اسی ’خدا‘ پر ایمان نہ رکھنا اس کے لیے ممکن ہے؟“

یہ ’ناممکن‘ سے ’ممکن‘ کا سفر اس نے کیسے طے کیا؟
کیا ’سیکولر دور‘ کا مطلب ’ملحدانہ دور‘ ہے؟
کیا اس دور میں ماننے والوں کی تعداد کم ہو رہی ہے؟
کیا سائنس ہی ’خدا پریقین کی کمی‘ کی وجہ ہے؟

اگر اس دور نے خدا اور آخرت کو منہا کر دیا ہے تو انسانی وجدان کی تسلی کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا ہے؟

ان سب سوالوں کے جواب کے لیے تو آپ کو ’چارلس ٹیلر‘ کی کتاب ’اے سیکولر ایج‘ کے پانچ سو صفحات کا مطالعہ کرنا ہوگا، جو مشکل کام ہے اور میں بھی جس کے مطالعے کی سعی کر رہا ہوں۔ لیکن درج ذیل نکات جو ’جیمس سمتھ‘ کے یوٹیوب لیکچر سے لیے گئے ہیں، آپ کو اس کتاب کے پڑھنے میں معاون ثابت ہوں گے۔

(جیمس سمتھ ’کیلون یونیورسٹی‘ مشی گن امریکہ کے پروفیسر ہیں، ان کے لیکچر کا یوٹیوب لنک آخر میں دیا جا رہا یے)۔

سمتھ ’سیکولر ایج‘ میں بیان کردہ ’سیکولر‘ بیانیے کو 5 نکات میں تقسیم کرتے ہیں :

1۔ سیکولرازم کو مذہب مخالف نہیں بلکہ ایسے بیانیے کے طور پر دیکھنا چاہیے جس میں مختلف عقائد، ایمانیات میں مسابقت ہو، یعنی پہلے قرون وسطی میں ’خدا پر ایمان‘ کو ’واحد حل‘ کے طور پر جانا جاتا تھا، اب سیکولر دور میں ’دوسرے بیانیے‘ بھی موجود ہیں۔

2۔ سیکولرازم کا اپنا بیانیہ کہ جیسے جیسے انسان شعور حاصل کرتا گیا اس نے ’ماورائیت‘ اور ’آخری نجات‘ جیسے مفروضوں سے جان چھڑا لی ہے اور ایک ’عقل محض‘ رہ گیا ہے جو نہ ’آسمان‘ سے طلب رکھتا ہے نہ ’آخرت‘ کی ’کہانیاں‘ اسے متاثر کرتی ہیں ایک لایعنی بیانیہ ہے۔ یہ اس لیے لایعنی ہے کیونکہ ’مقصدیت اور معنویت‘ کی تلاش انسانی نفسیات میں شامل ہے۔

3۔ ٹیلر کے مطابق یہ ناممکن ہے کہ انسانی نفسیات سے ’ماورائیت اور آخرت‘ منفی کر کے اسے چلایا جا سکتا ہے کیونکہ انسان ’وجدانی‘ شعور بھی رکھتا ہے۔ سیکولرازم نے کیا یہ ہے کہ اس نے الوہیت، ماورائیت اور آخرت کے مقابل کے طور پر ’انسانیت۔ ہیومینزم‘ کو یہ مقام دے دیا ہے۔

’انسانیت۔ ہیومینزم‘ سے مراد یہ ہے کہ انسان ’ماورائیت اور ہمیشگی‘ کے ’فرسودہ‘ خیالات کے علاوہ بھی ان کا طالب ہوئے بغیر بھی زندگی کو ’بامعنی‘ اور ’بامقصد‘ بنا سکتا ہے۔

4۔ اس سیکولر دور میں مختلف اور متنوع اعتقادات موجود ہیں، جو پہلے دور میں نہیں تھے۔ اس کی وجہ سے یہ سیکولر ڈھانچہ ’دو طرفہ دباو‘ میں رہتا ہے۔ ’دوطرفہ‘ اہم ہے۔

ایک طرف تو یہ تنوع اور مختلف خیالی ’ماننے والوں‘ پر دباو ڈال کر انہیں اپنے اعتقادات پر ’شک‘ کی دعوت دیتا ہے۔

دوسری طرف یہ ’نہ ماننے‘ والوں پر بھی دباو ڈالتا ہے، ان پر جو ’ماورائیت اور ہمیشگی‘ کے بغیر زندگی کے معنی اور مقصدیت کو متعین کرنا چاہتے ہیں۔

اس طرح یہ دباو ماننے والوں کو ’شک‘ میں مبتلا کرتا ہے اور نہ ماننے والوں کو ’روحانیت‘ میں۔

5۔ یہ اعتقادات میں مسابقت، ’ماورائیت اور آخرت‘ کی جگہ ’انسانیت (ہیومینزم)‘ اور ان تنوعات کا سیکولر ڈھانچے پر دوطرفہ دباو ایک دھماکے کا تصور پیش کرتا ہے جسے ٹیلر ’سپرنووا‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔

’سپرنووا‘ کا نتیجہ یہ ہے کہ سیکولر دور میں ’ماننے والوں‘ کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ ہر ایک کے ماننے کا انداز اپنا ہے۔ اور سیکولرازم کا یہ مروج بیانیہ کہ ملحدانہ سوچ بڑھ رہی ہے غلط ہے، یہی وجہ ہے کہ آج مغرب میں لوگ یہ کہتے ہوئے پاے جاتے ہیں کہ ہم ’مذہبی‘ نہیں ’صوفی‘ ہیں۔

جس طرح اس سیکولر دور میں یہ امکان موجود ہے کہ ایمانیات کے بارے انسان شکوک میں مبتلا ہو اس طرح یہ امکان بھی اسی ڈھانچے کی ساخت میں ہی مضمر ہے کہ انسان ’ہیومنزم‘ سے مایوس ہو کر ’ماورائیت‘ سے زندگی کا مقصد اور معنی کی تلاش کی طرف رجوع کرے۔ ٹیلر اس کو ’خدا کی دستک‘ کہتے ہیں جو انسان کے نظرانداز کرنے کے باوجود بھی جاری ہے۔

ٹیلر کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جدید دینا جس سیکولر دور میں داخل ہو رہی ہے وہ ’انکار اور نہ ماننے‘ والوں کا دور نہیں بلکہ اس میں ماننے والوں کی تعداد زیادہ ہوگی اس فرق کے ساتھ کہ انسان ’مذہب‘ کو اپنی شرائط پر تسلیم کرے گا۔ یہ دور ملحدانہ نہیں بلکہ متنوع ایمانیات کا ہوگا۔

چارلس ٹیلر 1931 میں مونٹریال کینیڈا میں پیدا ہوئے، سیاست میں بھی سرگرم رہے، کیتھولک عیسائیت کا پس منظر رکھتے ہیں۔ 2008 میں کویوٹو (جاپانی نوبل انعام) سے نوازے گے۔ ان کا بیانیہ اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ ایک غیرسیکولر کا سیکولرازم کو دیکھنے اور سمجھنے کا انداز ہے۔

کیا ہم پھر مذہب کی طرف مراجعت کر رہے ہیں؟

انسانی وجدان کے لیے معنویت اور مقصدیت صرف ’ماورائیت‘ اور ’آخرت کی خشیت‘ سے ہی ممکن ہے اور ’ہیومنزم‘ کا فلسفہ اس کی جگہ نہیں لے سکتا؟

نیا دور کیسا ہوگا جس میں ہر ایک ’اپنی طرز‘ کی روحانیت پریقین رکھتا ہوگا، کیا مذہب سے اس کا تعلق اپنی شرائط پر ہوگا؟ روایتی مذہب اس کو کیسے دیکھتا ہے؟

یہ سوالات اہم بھی ہیں، اور ان کا جواب لمحہ موجود کی اہم ضرورت بھی۔

بہرحال ایک بات تو طے ہے اہل مذہب کو اگر اپنا دائرہ کار بڑھانا ہے تو ایمانیات کے لیے عقلی استدلال کا مقدمہ قائم کرنا ہوگا ’شکوک و شبہات‘ سے ڈرنے یا محض رد کردینے سے کام نہیں چلے گا بلکہ اسے ایک ’موقع‘ سمجھ کر مذہب کی احیا کرنی ہوگی، نئے ذہن کے اعتراضات کو سمجھنا اور جاننا ہوگا اگر اس عمل میں کوئی بت گرانے بھی پڑیں تو دریغ نہیں کرنا ہوگا کیونکہ مسابقت کے اس دور میں ’مال‘ وہی بکے گا جو عقل و غیاب کی جستجو اور حضوری اور اضطراب دونوں کیفیات کی تسلی کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments