اور جب خون رائیگاں چلا گیا



” پاکستان کسی بھی انتہائی پسندی کا شکار نہیں ہو سکتا ، پاکستان میں کسی بھی مسلک کو فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کی اجازت نہیں ہے، ریاست لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے مذہب کارڈ استعمال کرنے والوں کے خلاف سختی سے نمٹنا جانتی ہے۔ مذہب کارڈ استعمال کرنے والوں نے اگر قانون ہاتھ میں لیا تو ریاست سخت فیصلے کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔ شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔“ یہ وہ عظیم کلمات ہیں جو ہمیں ہر ادارے کے سربراہ اور اس ملک کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کی زبانوں سے زد عام سننے کو ملتے ہیں اور ان جملوں کو ہم ”کلمات جمہوریت“ کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ وہ کلمات ہیں جس کو وقت کا حکمران اپنی زبان سے ادا کر کے اپنے آپ کو بری الزمہ قرار دے دیتا ہے اور ہم بھی اتنے ہی لکیر کے فقیر بن جاتے ہیں کہ سنی سنائی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں اور اسی میں ہی اپنی قوم کی بہتری سوچتے ہیں۔

حال ہی میں پاکستان ایک دفعہ پھر بڑے سانحے سے گزرا ہے اور یہ سانحہ بھی ماضی میں رونما ہونے والے واقعات سے قدرے کم نہ تھا اور عمومی طور پر اس طرح کے سانحات ریاست سمیت پوری قوم کو اس مشکل و پریشانیوں میں ڈال دیتے ہیں جس سے ریاست بند گلی میں چلی جاتی ہے اور امن وامان کی صورتحال دن بدن ابتر ہوتی چلی جاتی ہے۔

جی ہاں! اس دفعہ پھر ایک مذہبی تنظیم ”تحریک لبیک پاکستان“ کی طرف سے دھرنے اور لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا۔ ہمارے ملک کی شروعات سے ہی یہی بدقسمتی رہی ہے کہ ہم ہی اس طرح کی تنظیموں کو مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کے لیے وجود میں لاتے ہیں اور ہم خود ہی اس بوئے ہوئے بیج کو کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ ماضی میں اس طرح کے سینکڑوں واقعات رونما کیے گئے، سیاسی جماعتوں کے خلاف مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش کی گئی، غداری و غیر مسلم کے نعرے بلند کیے گئے لیکن اس طرح کی تنظیموں سے جن نتائج کی توقع ہم لگائے بیٹھے ہوتے ہیں جب وہ ہمیں نہیں ملتے تو ہم اس جماعت کو کھڈے لائن لگانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب وہ کھڈے لائن نہیں لگتی تو اس کے نتائج اسی طرح کے برآمد ہوتے جس طرح حال ہی میں ریاست پاکستان کو موصول ہوئے ہیں۔

تحریک لبیک پاکستان کو ایک سیاسی جماعت مسلم لیگ نون کے خلاف میدان میں اتارا گیا اور ان کی ہی حکومت میں دھرنے، جلاؤ، گھیراؤ کا کام شروع کیا گیا اور ان کو ٹارگٹ دیا گیا کہ آپ نے اپنی پالیسیوں کی بدولت اس سیاسی جماعت کا ”مذہبی ووٹ بینک“ توڑنا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور مذہبی جماعت کو ملی مسلم لیگ کے نام سے میدان میں اتارا گیا اور ان کو بھی یہی ٹارگٹ دیا گیا کہ آپ نے بھی سیاسی جماعتوں کے ”مذہبی ووٹ بینک“ کو توڑنا ہے۔ نامعلوم افراد کی طرف سے لانچ کی گئی دونوں جماعتیں ہمیں جنرل الیکشن میں ناکام ہوتی نظر آئیں اور ان کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

تحریک لبیک پاکستان اور موجودہ حکومت کے درمیان ہمیں کشیدگی اس وقت دیکھنے کو ملی جب اس حکومت نے حافظ سعد رضوی کو گرفتار کر کے نظر بند کر دیا اور جماعت کو کالعدم قرار دے دیا۔ شروع شروع میں کافی احتجاج ریکارڈ کروائے گئے، سڑکیں بلاک کی گئی، عوام کو مشکلات سے دو چار کیا گیا، پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں بھی ہوئیں اور ان جھڑپوں میں پولیس اور مظاہرین کے جوان بھی شہید ہوئے اور رمضان المبارک میں یتیم خانہ چوک میں خون کی ہولی کھیلنے کے بعد معاملہ ٹھنڈا ہونا شروع ہو گیا اور مظاہرین میں ایک خوف و ہراس پھیل گیا جس سے اس تحریک لبیک نے دھرنا ختم کرنے کو بہتر سمجھا۔

یہ مذہبی جماعت مختلف اوقات میں جلسے و جلوس کرتی رہتی تھی لیکن ایک دفعہ پھر ہمیں اس جماعت میں شدت اس وقت دیکھنے کو ملی جب ہائیکورٹ کے دو فیصلوں اور سپریم کورٹ کے ریویو بورڈ نے حافظ سعد رضوی کو رہا کرنے کا حکم دیا لیکن حکومت نے حافظ سعد رضوی کو رہا نہ کیا بلکہ دو روز بعد سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر کے پچھلے تمام فیصلوں کو کالعدم قرار دلوایا اور یوں معاملہ پھر دوبارہ زیرو سے شروع ہو گیا۔ تحریک لبیک کی قیادت نے سوچا کہ یہ حکومت ہمیں دیوار سے لگانا چاہتی ہے لہذا ہمیں اب بھرپور احتجاج کی طرف جانا ہو گا۔

چنانچہ انہوں نے سب سے پہلے سڑکوں کے دونوں اطراف فٹ پاتھوں پر ہاتھ میں پلے کارڈز اٹھا کر احتجاج کرنا شروع کیا اور بارہ ربیع الاول کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ اس اعلان کے بعد حالات پھر کشیدگی کی طرف جائیں گے اور سکیورٹی فورسز و مظاہرین کے درمیان ٹاکرا ہو گا اور حکومت ان سے مذاکرات کر لے گی۔

یہ لانگ مارچ لاہور سے شروع ہوا اور اپنی منزل کی طرف جاری رہا۔ اسی لانگ مارچ کی وجہ سے بہت سے مظاہرین اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور بہت سے پولیس نوجوان اپنی جان کی بازی ہار گئے لیکن حکومت ایک دفعہ پھر طاقت کے استعمال کا اعلان کر رہی تھی۔ وفاقی وزیر داخلہ، وفاقی وزیر اطلاعات و دیگر وزراء آئے روز پریس کانفرنسوں میں ملک دشمن عناصر اور بیرونی ایجنڈے کا ذکر کرتے پائے گئے لیکن ان الزامات کے مثبت نتائج کی بجائے بھیانک نتائج سامنے آئے۔

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید تو اس ملک کو تشویشناک حالت میں چھوڑ کر دبئی میں پاک بھارت کرکٹ میچ دیکھنے چلے گئے بعد ازاں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی سرزنش کے بعد وطن واپس لوٹے اور تحریک لبیک پاکستان سے مذاکرات شروع کیے۔ اس مذاکرات کے دور میں آرمی چیف نے بھی بڑا کلیدی کردار ادا کیا اور دھرنے کو ختم کروانے کے لیے مذاکرات کرنے پر زور دیا۔ اب چونکہ مذاکرات کامیاب بھی ہو گئے ہیں، دھرنا بھی ختم ہو گیا ہے، گرفتار کیے گئے کارکنان بھی رہا ہو رہے ہیں لیکن اس نازک موقع پر اگر نہیں آ سکے تو جو شہید ہو گئے ہیں وہ واپس نہیں آ سکے۔

آج مظاہرین اور پولیس کے شہداء کے خاندان حکومت کی پالیسیوں کے سخت مخالف ہیں، وہ یہ سوال کر رہے ہیں کہ اگر حکومت نے مذاکرات ہی کرنے تھے تو پھر ڈنڈا، پتھراؤ کیوں کیا گیا؟ کیوں بے گناہ سکیورٹی اہلکار و مظاہرین شہید کیے گئے؟ کیوں نہیں پہلے مذاکرات شروع کیے گئے؟ ان درد بھرے سوالوں کے جوابات کسی کے پاس نہیں ہیں اور یوں دونوں مسلمان بھائی آپس میں گتھم گتھا ہوئے اور خون رائیگاں چلا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments