ہمارے نمک حرام بھائی


ورلڈ کپ میں افغانستان انڈیا سے ایک میچ ہار گیا، ہمارے کرکٹ کے چند معتبر ناموں کو چھوڑ کر سب نے نعرے لگائے کہ میچ فکس تھا اور افغانستان کی ٹیم آئی پی ایل کے لالچ میں آ کر یا پیسے لے کر جان بوجھ کر میچ ہاری ہے۔

ان کا فرض بنتا کہ تھا کہ اگر وہ انڈیا کو ہرا نہیں سکتے تھے تو جان کی بازی لگا دیتے، لڑ جاتے، مر جاتے، کچھ کر دکھاتے تو پس ثابت ہوا کہ افغانستان نے انڈیا سے جان بوجھ کر ہار کر پاکستان سے غداری کی اور اس طرح افغانستان کی ٹیم نے ہم سے نمک حرامی کی ہے۔

کرکٹ کا کھیل عزت اور غیرت سے اوپر کی کوئی چیز ہے ورنہ کوئی تھوڑی سی شرم حیا کرنے والا پاکستانی بھی میچ فکسنگ کی اصطلاح استعمال کرنے سے پہلے تھوڑا سوچے گا۔ لیکن یہ ایک کھیل ہے تو دشمن کی ٹیم پر دشنام لگانا، اس کا مذاق اڑانا بھی کھیل کا اتنا ہی اہم حصہ ہے جیسے ڈائیو لگا کر کیچ پکڑنا۔

اگر کسی دشمن ملک کے مسائل میدان جنگ یا منڈی میں طے ہونے کے بجائے کرکٹ کے سٹیڈیم میں طے ہو جاتے تو یہ دنیا ایک بہترین دنیا ہوتی لیکن افغان ٹیم کو نمک حرام کہہ کر ہم نے افغانوں کے ساتھ اپنے 40 سال کے تعلق (رشتہ تو صدیوں پرانا ہے لیکن چلیں انھی واقعات کی بات کرتے ہیں جو ہماری زندگی میں پیش آئے) اور ہمارے ان کے بارے میں جذبات کی قلعی کھول دی۔

آخر ہم افغان بہن اور بھائیوں سے چاہتے کیا ہیں؟ چلیں اس میں سے بہنوں کا لفظ نکال دیتے ہیں کیونکہ اسے طالبان اپنے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سمجھ سکتے ہیں اور جو حکومت سے ابھی فارغ کیے گئے ہیں وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر افغان بہنوں کا کچھ خیال تھا ہی تو طالبان کے ساتھ رشتہ داری کیوں کی۔

پتا نہیں پاکستان کو روس سے کوئی خطرہ تھا یا نہیں یا پاکستان کے اندر کوئی ایسی کمیونزم تحریک تھی جو سوویت یونین کے ساتھ مل کر پاکستان میں انقلاب برپا کر سکتی تھی لیکن پاکستان کو یقین دلا دیا گیا کہ بہادر افغان، روس اور آزاد دنیا کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہے۔ یہ قومی اور مذہبی فریضہ ہے کہ پہاڑوں پر وہ چڑھیں، لڑیں اور ہم ان کے سکیورٹی روٹ سنبھالیں۔

جہاد ہوا اور خوب ہوا لیکن اس کے ثمرات کے طور پر پاکستان میں بہت جائیدایں بھی بنیں اور یہاں نظریاتی اساسیں بھی مضبوط ہوئیں۔ ہم نے افغان بھائیوں کے ساتھ مل کر سوویت یونین کے ٹوٹے ٹوٹے کر دیے، کمیونزم کے چنگل میں پھنسی آدھی دنیا کو آزاد کروایا لیکن نہ دنیا نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور نہ افغانستان نے۔

پھر ہم نے طالبان کی صورت میں افغانستان کے لیے نئے نجات دہندہ برآمد کیے۔ ان پر بھی جب برا وقت آیا تو ایک ہاتھ سے انھیں تسلی والی تھپکی دی اور دوسرے ہاتھ سے ڈالر پکڑ کر انھیں امریکہ کے حوالے کیا اور جب طالبان نے 20 سال کی مسلح جدوجہد کے بعد امریکہ کو ایک ذلت آمیز شکست دی تو ہم نے پھر جشن منایا۔

زنجیریں طالبان نے توڑیں لیکن ہمارے دفاعی تجزیہ کاروں نے دھمالیں یہاں پر ڈالیں۔ تو ہم چاہتے تھے کہ ہمارے افغان بھائی ایک سپر پاور کو شکست دیں اور انھوں نے دی، پھر ہم چاہتے تھے کہ وہ امریکہ کے ساتھ بھی وہ ہی کریں جو انھوں نے سوویت یونین کے ساتھ کیا تھا۔

اب ہم کیا چاہتے ہیں؟ کہ افغانستان انڈیا کو بھی شکست دے۔ پہلے مجاہدین سے یہ امید تھی کہ وہ طالبان سے اپنا ملک آزاد کروانے کے بعد ہمیں کشمیر آزاد کروا کر دیں گے۔

شاید افغان لڑ لڑ کر تنگ آ چکے ہیں کیونکہ انھوں نے افغانستان کے ٹوٹے ٹوٹے کیا کرنے تھے ان کی تو کرکٹ ٹیم ہی انڈیا کی ٹیم کے سامنے لیٹ گئی۔ ہمارے احسانات کا یہ بدلہ؟

پہلے بھی جن قوتوں کو ہم بھائی کہتے رہے ہیں ان کے ساتھ ہمارے بھائی چارے کا تجربہ اچھا نہیں رہا۔ پہلے بنگالی بھائی ناراض تھے، اب وہ بھائی بندی ختم کر کے آزاد ہیں اور سنا ہے کہ اچھے خاصے کھاتے پیتے ہیں۔

ہم انھیں بھی پہلے بھوکے بنگالی اور پھر غدار اور نمک حرام وغیرہ کہتے تھے۔ اب ہمارے بلوچ بھائی ناراض ہیں بلکہ ایک چھوٹے بھائی نے کہا تھا کہ برا مت مانیے گا مگر ہم آپ سے ناراض نہیں بیزار ہیں۔

تو اپنے افغان بھائیوں پر نمک حرامی کا لیبل لگاتے ہوئے یہ بھی یاد رکھیں کہ ہم نے بھی افغانوں کے نام پر بہت نمک چکھا ہے اور ایک بیزار بلوچ بزرگ کا یہ مشورہ بھی کہ پاکستان پوری دنیا کو بتایا پھرتا ہے کہ افغانستان پر آج تک کوئی قوم قبضہ نہیں کر سکی تو تم کیسے کر لو گے ماما۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments