محسن داوڑ، مریم نواز اور ویلڈن ٹیم پاکستان!


ابھی چند ہفتے قبل نیوزی لینڈ کی ٹیم عین میچ سے پہلے گھبرا کر اپنے ہوٹل سے باہر آنے کو انکاری ہو گئی تھی۔ دونوں ملکوں کے پرچم اٹھائے پاکستانی تماشائی سٹیڈیم میں بیٹھے ٹیموں کی راہ تکتے رہے۔ دو چار روز بعد انگلینڈ نے بھی اپنے کھلاڑیوں کی تھکاوٹ کو جواز بنا کر پاکستان آنے سے انکار کر دیا تو عمران حکومت کی فارن پالیسی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے ہمیں بتایا گیا کہ ہم دنیا میں تنہا ہوچکے ہیں۔ سیاسی مخالفین نے ناکام حکومت کے مستعفی ہو جانے کا مطالبہ کر دیا تو کئی ایک کو اس بیچ امریکی صدر کی وہ کال بھی یاد آ گئی جو انہوں نے تادم تحریر ہمارے وزیر اعظم کو نہیں کی۔

ابھی کل ہی کی بات ہے، پٹرول کے نرخوں میں جو ہوش ربا اضافہ کیا گیا تو اپوزیشن کا سویا ہوا اتحاد بھی انگڑائی لے کر جاگ اٹھا تھا۔ پی ڈی ایم نے ملک کے طول و عرض میں دھرنوں اور مظاہروں کا پروگرام ترتیب دے دیا۔ دوسری جانب کچھ نئے تو کچھ پرانے مطالبات کو دہراتے ہوئے لاہور سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا آغاز کر دیا۔

ٹیم پاکستان نے پہلے ہی میچ میں بھارت کو غیر معمولی شکست سے دوچار کیا تو مہنگائی کے ہاتھوں ستائی قوم بھول گئی کہ ہم دنیا میں اکیلے رہ گئے ہیں، ملک میں کمر توڑ مہنگائی ہے اور پاکستان کی سڑکوں پر کوئی احتجاج بھی ہو رہا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں پاکستانی سڑکوں پر نکل آئے اور دیوانہ وار جشن مناتے رہے۔

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی کی ناقابل بیان لہر نے معاشرے کے نچلے اور بالخصوص سفید پوش طبقے کو شدید کرب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ لاکھوں پاکستانی کنبے بیس پچیس ہزار اور کئی اس سے بھی کم ماہانہ آمدن کے سہارے جی رہے ہیں۔ دو وقت کی روٹی کا حصول جن کے لئے مشکل سے مشکل تر ہو رہا ہے۔ مرکزی حکومت کی کئی معاملات میں سست فیصلہ سازی اور صوبائی حکومتوں کی بروقت اور موثر انتظامی اقدامات میں ناکامی ضرور اشیائے خورد نوش کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کا ایک سبب ہیں۔

تاہم ملکی اور غیر ملکی معاشی حالات سے نسبتاً با خبر افراد یہ بھی جانتے ہیں کہ تیل، گیس اور ٹرانسپورٹیشن بالخصوص بحری ترسیلاتی اخراجات کی مد میں عالمی سطح پر جو بے پناہ اضافہ ہوا ہے اس نے دنیا کی مستحکم اور توانا معیشتوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ابھی حال ہی میں جی 20 ممالک نے اربوں ڈالرز اسی عالمی صورت حال پر قابو پانے کے لئے مختص کیے ہیں۔ ہمارے سیاسی رہنما اور دانشور اپنے تجزیوں میں مہنگائی کی صورت حال کا کماحقہ احاطہ کرتے ہیں، تاہم اس کے تدارک کی کوئی تدبیر سامنے نہیں لاتے۔ یہ نہیں بتاتے کہ پاکستان جیسے ممالک جہاں معیشت کا انحصار درآمدات پر رہتا ہے، انہیں ان حالات میں کیا کرنا چاہیے۔

افغانستان میں اشیائے ضروریہ کی دستیابی اور مہنگائی کی صورت حال بھلا جو بھی ہو، دہائیوں پر پھیلی جنگ کے نتیجے میں تباہ حال قوم کو ایک پر عزم کرکٹ ٹیم عالمی مقابلوں میں اتارنے پر جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ بھارت کو عبرت ناک اور نیوزی لینڈ کو واضح مارجن سے شکست دینے والی پاکستانی ٹیم کے اوسان ایک دفعہ تو افغانیوں نے خطا کر دیے تھے۔ بھارت سے میچ ہو تو ماحول کچھ اور ہی ہوتا ہے، تاہم اس دفعہ تو نیوزی لینڈ اور افغانستان کے ساتھ بھی ہمارے میچز خاص اہمیت اختیار کر گئے تھے۔

پاکستانی سوشل میڈیا صارفین ایک آدھ افغان کھلاڑی سے منسوب انٹرویو پر بر ہم تھے چنانچہ میچ کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر طنزیہ جملوں سے افغان ٹیم کی تضحیک کا نا مناسب سلسلہ شروع ہو گیا جو اس وقت تک جاری رہا جب تک افغان کپتان نے پاکستانی اور افغان پرچموں کو بیک وقت محبت سے بوسہ لیتے ہوئے اپنی ویڈیو جاری نہ کر دی۔

پاک افغان میچ کے بعد جہاں سوشل میڈیا پر تبصروں کا سلسلہ جاری تھا تو پی ٹی ایم کے محسن داوڑ کا ایک ٹویٹ کچھ دیر تک پاکستانی صارفین کی خاص توجہ کا مرکز رہا۔ اپنے بظاہر بے ضرر ٹویٹر پیغام میں پی ٹی ایم کے رہنماء نے افغان ٹیم کو تو شاباش دی، تاہم جیتنے والی پاکستانی ٹیم کی تحسین میں وہ ایک لفظ نہ لکھ سکے۔ اگرچہ بظاہر اس ٹویٹ میں کوئی قابل اعتراض پہلو نہیں ہے کہ خود وزیر اعظم پاکستان سمیت لا تعداد پاکستانیوں نے عمدہ کارکردگی پر افغان ٹیم کی تعریف کی اور جس پر کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ تاہم محسن داوڑ جیسوں کو کسی اور سے نہیں خود اپنے آپ سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ جس ملک نے ان کو پالا پوسا، عزت و مرتبہ اور رہنے کو عافیت کا ٹھکانہ عطا کیا، اس سرزمین سے ان کی وفا داری کو شک کی نگاہ سے کیوں دیکھا جاتا ہے۔

علاقائی، لسانی اور محدود مفادات کی سیاست کرنے والوں کے بارے میں ایک خاص عوامی تاثر (Perception) راسخ ہو چکا ہے کہ جس سے پیچھا چھڑانا کسی اور کے نہیں خود ان خواتین و حضرات کے ہاتھ میں ہے۔ محسن داوڑ صاحب نے جس طرز سیاست کا انتخاب خود کیا وہ ان کا حق تھا اور ہے۔ انہی کی طرح اپنا یہی حق استعمال کرتے ہوئے جب پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی شکست پر پورا پاکستان شادمان تھا تو مریم نواز کے ٹویٹر ہینڈل سے ایک انتہائی غیر معقول پیغام جاری کیا گیا۔ باپ بیٹی کے بارے میں بھی بدقسمتی سے امریکہ، مودی اور پاکستان مخالف افغان عناصر کو لے کر ایک خاص عوامی تاثر ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ پختہ ہو تا چلا جا رہا ہے۔ نون لیگ ایک قومی سیاسی پارٹی ہے۔ جماعت کو علاقائی سیاستدانوں کی سطح سے اوپر اٹھنا ہو گا۔

حالیہ دنوں، سوشل میڈیا پرایک meme دیکھنے کو ملی جس میں مریم اورنگ زیب صاحبہ اپنے مخصوص انداز میں بتا رہی ہیں کہ ’عمران صاحب کرکٹ ٹیم کو اس لئے جتوا رہے ہیں تاکہ پاکستانی مہنگائی بھول جائیں‘ ۔ اگرچہ یہ بیان کسی نوجوان ’یوتھیے‘ کے دماغ کی اختراع ہے، تاہم کسی نا کسی حد تک حقیقت کا ترجمان بھی ہے۔ ’عمران صاحب‘ کا پاکستان ٹیم کی مسلسل فتوحات میں کوئی عمل دخل ہے یا نہیں، یہ توہم نہیں جانتے، تاہم ٹیم پاکستان کو اس مبینہ ’سازش‘ سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی، اداس چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے پر آپ کا شکریہ۔ ویلڈن ٹیم پاکستان!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments