غیر حقیقی کردار


میں نے اپنی زندگی میں جس قدر کردار دیکھے اور ان میں سے جن سے قریب سے شناسائی کا موقع ملا ان میں سب سے غیر حقیقی کردار شمیم اختر کا تھا۔ شمیم اختر ان لاکھوں کرداروں کی طرح بہت عام سا کردار ہے جو پیدا ہوتے ہی برا نصیب لے کر ہیں۔ شمعو پیدا ہوئی تو اپنی ماں کے اس دنیا سے چلے جانے کا سبب بنی۔ ابا نے خاندان کے کہنے پر دوسری شادی کر لی اور شمعو کے مزید بہن بھائی دنیا میں آنے لگے۔ اس نے پڑھنے کا شوق پال رکھا تھا یہ جانتے ہوئے بھی کہ خاندان میں خواتین کے پڑھنے کا نہ تو رواج ہے اور نہ ہی اسے اچھا خیال کیا جاتا ہے۔ اس شوق کو دبائے رکھتی اور ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں ابا سے فرمائش کر کے الف آٹھ جنوبی چک جا کر اپنی کزنوں کو پڑھانے آنے والے مرد استاد سے کچھ سبق لیتی اور یوں شمعو کو الف بے، گنتی اور اردو پڑھنا لکھنا آ گیا تھا۔

قاری یہ سمجھے گا اب تک تو شمعو میں کچھ بھی غیر حقیقی نہ تو سمجھ آیا ہے اور نہ ہی نظر۔ یہ تو اس کے بچپن کی ابتدا ہے۔ لوگ پوری عمر گزار دیتے ہیں خواب دیکھتے اور انہیں معلوم بھی نہیں پڑتا کہ وہ خود کس قدر غیر حقیقی تھے۔

میں سوچتی ہوں وہ تمام بچے جو ماں کی گود، پیار اور شفقت سے محروم پلتے پڑھتے ہیں ان محرومیوں اور محبت کی کمی کے ساتھ وہ لوگ اپنی طویل زندگی کس طرح سے کاٹتے ہوں گے۔ کیا وہ ہر بار، کسی خوشی غمی کے موقع پر اپنے اندر کا ایک حصہ مارتے ہوں گے، کاٹتے ہوں گے اور آہستہ آہستہ جلد ہی مر جاتے ہوں گے۔ مگر شمعو تو جیسے جنگجو تھی اس نے ہر موقع پہ خود کو مضبوط رکھا۔ مگر کسی کے اس دنیا سے پچاس سال گزارنے کے بعد ہمیشہ کے لیے چلے جانے کے بعد وہ ہمیں اس قدر مضبوط، جنگجو، دلیر اور بہادر کیوں نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔

جب تک وہ جیتی جاگتی رہی تو غیر حقیقی، عمل سے عاری، بے کردار دکھتی تھی۔ اس کی چھوٹی سی غلطی بھی جیسے پہاڑ کے جتنی نظر آتی تھی۔ لگتا تھا خدا نے اس کو کس قدر بے وقوف بنایا ہے۔ اس کے اندر عام سوجھ بوجھ بھی نہ رکھی۔ اپنے دھوکہ دینے والے لوگوں پہ بھی یقین کیے رکھتی۔ خوشیوں کو چھپاتی، خواب چھوٹے دیکھتی تا کہ پورے ہو سکیں، کام والی سے دوستی کرتی، رشتے بنانے اور نبھانے تو اسے جیسے آتے ہی نہیں تھے۔ غرض دنیا کا ایسا کوئی بھی معمولی کام ایسا نہ تھا جو اسے آتا ہو۔ کیا خدا جب اچھی قسمت بانٹ رہا ہو گا تو شمعو تو یقیناً کسی نوٹنکی میں مصروف ہو گی۔

کسی روز نوٹنکی میں مصروف ہو گی تو گھر والوں نے دلہن بنا کے بٹھا دیا ہو گا کہ آج تمہاری شادی ہے۔ ایک روز تک نوٹنکی کے طور پہ تو وہ بھی خوش رہی ہو گی کہ اچھا پہننے کو ملا مگر بہت جلد ہی احساس ہوا ہو گا کہ دونوں کے ساتھ ہی بہت غلط ہوا۔ شمعو کا شوہر، اس کا کزن بھی تھا اور یہ بات بھی سب کو معلوم تھی کہ گاؤں میں ایک بھرپور عشق لڑا رہا ہے اور اسی خوف کے عبث، اس کے والد نے یتیم شمعو کو اپنی بہو بنانا ہی مناسب سمجھا ہو گا مگر وہ عشق ہی کیا جو اس قدر جلد ٹھنڈا پڑ جائے۔ معلوم نہیں شمعو کو پہلی محبت کب ہوئی ہو گی۔ یقیناً یہ اس کی شادی کے بہت برس بعد کا واقع ہو گا جب اس کی کم از کم دو اولادیں تو اس دنیا میں آ چکی ہوں گی۔

شمعو جب زندگی کا ہر لمحہ، ہر دن گزار رہی تھی تو خوف، پریشانیوں، بڑھاپے، نظرانداز کی ہوئی محبتوں کا کھوکھلا، بے مقصد، ڈھانچا دکھتی تھی اور جب دنیا سے پردہ کیا تو ایک غیر حقیقی، زیادہ اور غیر معمولی قوتوں کی حامل خاتون دکھنے لگی۔

میں سوچتی ہوں کہ کیا مرنے کے بعد ہر انسان ہمیں غیر معمولی اور غیر حقیقی لگنا شروع ہو جاتا ہے یا ہمارے خود کے احساس جرائم کسی کو ہمیشہ کے لیے کھو دینے کے بعد انہیں ہماری نظر میں غیر حقیقی بنا دیتے ہیں؟

جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments