ناظم جوکھیو کا قتل، معاشرے کا المیہ


نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

جاگیر دارانہ نظام کسی بھی معاشرے کے لیے انتہائی خطر ناک ثابت ہوا ہے اس کے منفی اثرات بہت زیادہ اور مثبت اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جاگیر دارانہ اور وڈیروں کے تسلط کے بہت بھیانک نتائج سامنے آئے ہیں۔ تاریخ میں ایسی بہت سی حقیقتیں موجود ہیں کہ جاگیر داروں نے عام اور غریب شہریوں سے زندگی تک چھین لی۔

ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے کہ کبھی کسی جاگیر دار کو اس کے ظلم اور بربریت کی پورے قانونی تقاضوں کے تحت سزا ملی ہو۔ یہ لوگ ہمیشہ قانون اور آئین سے بالا تر رہے ہیں جس کی وجہ سے آج ہم اکیسویں صدی تک ان کو بھگت رہے ہیں۔ ان کا اپنا آئین ہوتا ہے اور ان کا اپنا قانون۔

میں نے خود دیکھا ہے کہ ان پڑھ اور جاہل وڈیرے، پنچایت کے نام پر لوگوں کا فیصلہ کرتے ہیں۔

پرانی بات ہے، شاید تیس سال پرانی یا کچھ کم، سردار عطا مری سندھ اسمبلی کے ممبر تھے۔ ان کے صاحب زادے کا طارق روڈ پر ایک سیلز مین سے جھگڑا ہو گیا۔ صاحب زادے نے اس سیلز مین کی پٹائی کر دی، اب ہوا یوں کہ سارے دکاندار بازار بند کر کے صاحب زادے کی گرفتاری کے مطالبے کو لے کر تھانے پہنچ گئے، پولیس مجبور تھی، سردار صاحب کے بیٹے کو حوالات میں بند کر دیا گیا۔ سردار صاحب کو شدید غصہ تھا، اسمبلی میں شور مچوا دیا، پولیس افسر نے سردار صاحب کو سمجھایا کہ سردار صاحب معافی کے چند الفاظ بول کر ان دکانداروں سے جان چھڑا لیں، ورنہ بیٹا ضمانت ہونے تک دو چار دن تھانے میں بند رہے گا۔

سردار صاحب کو معافی کے الفاظ سن کر غصہ آ گیا، بولے، تم ان پڑیوں میں سامان بیچنے والے دکانداروں اور سردار میں فرق نہیں کر رہے، آخر میں ان چھوٹے لوگوں سے کیسے معافی مانگ سکتا ہوں، تم ہی ان کو ڈرا دھمکا کے میرے بیٹے کو آزاد کرنے کی ترکیب سوچو، پولیس افسر نے معذرت کی کہ ایسا نہیں کر سکتا، کیونکہ طارق روڈ کے دکاندار معاملے کو بہت آگے لے جائیں گے اور سب کے لیے مصیبت ہو گی، آپ معافی مانگ کر بات کو رفع دفع کرا لیں۔ سردار صاحب کے ساتھی ایم پی ایز کو بھی سمجھ آ گئی، انہوں نے سردار سے کہا سائیں یہ شہر ہے، اپنے گوٹھ نہیں، کہ دکانداروں کو ڈرا دھمکا لیں، چلیں معافی مانگ لیں، صاحب زادہ باہر آ جائے گا۔ مجبوراً مری صاحب کو طارق روڈ جا کر معافی مانگنا پڑی اور بیٹے کی جان خلاصی ہوئی۔

سندھ میں جاگیر دارانہ سسٹم بہت حد تک حکومتی سسٹم ہر حاوی ہو چکا ہے۔

خبروں کے مطابق 32 سالہ ناظم جوکھیو نے ممنوعہ علاقے میں باہر سے آئے ہوئے، جام اویس گہرام کے زیر سر پرستی لوگوں کو شکار کرنے سے روکا۔ کیا یہ گناہ ہے؟ اور ایک ناقابل تلافی گناہ، جس نے ناظم جوکھیو کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ یا ان لوگوں کی وڈیو وائرل کرنا مقتول کا گناہ تھا؟ جو اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

ناظم جوکھیو نے تو قانون کے مطابق ان لوگوں کو روکا، اس عمل پہ تو اس کو انعام ملنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ بات وڈیروں، سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کو ناگوار گزری کہ کوئی شخص قانون کی بالا دستی چاہ رہا ہے۔

ظلم کی انتہا دیکھیے کہ مقتول کو اپنے ہی ڈیرے پر بلا کر قتل کر دیا گیا، زمین کانپی نہ آسمان پھٹا۔ لیکن لواحقین کے سر پر آسمان گر پڑا اور زمین پیروں سے نکل گئی جب اطلاع ملی کہ ناظم جوکھیو کسی کے عناد اور بغض کا شکار ہو گئے ہیں۔

ہم کب تک ان ناسور کے درد ناک نتائج کو بھگتیں گے۔ کب تک جاگیر داروں کی گرائی ہوئی لاشیں بھائی اپنے کندھوں پر اٹھائیں گے، کب تک عورتیں بیوہ ہوں گی اور بچے یتیم ہوں۔

ناظم جوکھیو کی تین ننھی پریاں اور ایک نامولود بیٹا اور بیوہ کو کس کے رحم و کرم پر تنہا کر دیا ہے۔ وہ ریاست جو دعویٰ کرتی ہے کہ وہ اپنے رعایا کے لیے ماں کا کردار ادا کرتی ہے۔ کیا ماں اپنے بچوں کو کسی نام نہاد وڈیرے کے رحم و کرم ہر چھوڑ دیتی ہے؟ کیا ریاست اس کی ذمہ دار نہیں؟ سب سے پہلی ذمہ داری ریاست ہے کہ وہ اپنے رعایا (جسے وہ اپنی اولاد سمجھتی ہے۔ ) کی جان اور پھر مال کی حفاظت کرے لیکن ریاست اس معاملے میں بالکل سنجیدہ نہیں ہے۔

کبھی نقیب اللہ مسعود کا لاشہ اس کے بوڑھے باپ کے کندھوں پر لا کر رکھ دیا جاتا ہے تو کبھی اسلام آباد میں نور مقدم کی لاش ملتی ہے، آخر کب تک؟ اور کیوں؟

ریاست کو چاہیے کہ ایسے معاملات کو سنجیدگی سے لے اور قانون کی بالادستی کے لیے آخری حد تک جائے۔ ایسے کیسز کا ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لینا چاہیے۔

ناظم جوکھیو چونکہ شہر کے قریب تھے اسی لیے ان کا معاملہ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اٹھایا گیا، ایسے سینکڑوں کیسز جو روول ایریا میں رونما ہونے کی وجہ سے دبا دیے جاتے ہیں کیونکہ وہاں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی زیادہ کوریج نہیں ہے۔

جام اویس گہرام عدالت میں مجرم ثابت ہو جائے تو اسے اس ناقابل تلافی جرم کی سزا دی جانی چاہیے اور یہی ایسے ایشوز کی روک تھام میں مدد گار ثابت ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments