ناظم جوکھیو کا بے رحمانہ قتل اور ریاست کے اندر ریاست قائم


معصوم بچی کی اپنے والد کی قبر پر چیخیں، بیوہ کی یتیم بچوں کے ہمراہ آہیں، روڈ پر پاگلوں کی طرح مٹی میں لت پت ممتا کا اپنے جگرے کے ٹکڑے پر آنسو بہانا اور بھائی کے قتل پر انصاف کی جھولی پھیلانے والے کوئی کشمیر، افغانستان یا فلسطین برما کے نہتے مجبور لوگ نہیں بلکہ باب الاسلام سندھ کے باسی جوکھیو خاندان کے افراد نے جن کی آہیں، سسکیاں، آنسوؤں نے ہر درد دل ضمیر انسانیت رکھنے والے ہر انسان کو رلا دیا ہے۔ ایسا غم اللہ پاک کسی کو نہ دے۔

چند روز قبل ملیر اور ٹھٹھہ کے بیچ جنگشاہی کے علاقے میں نوجوان ناظم جوکھیو کا ایک المناک، افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے۔ جس نے سندھ سرکار کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سندھ میں عوام کا غم و غصہ اور کرودھ دیکھ کر سندھ میں حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سمیت کابینہ کی نیند حرام ہو گئی تھی۔ جنگشاہی کے علاقے میں پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی جام اویس گھرام جوکھیو نے اپنے ہی قبیلے کے ایک نوجوان جس کا نظام جوکھیو تھا، کو مبینہ طور پر اپنے پاس بلایا اور وحشیانہ تشدد کر کے جان لے لی۔

مقتول نوجوان نظام جوکھیو کو قصور یہ تھا کہ انہوں نے تلور پرندوں کا شکار کرنے آئے عرب شہزادوں کا راستہ روکا، فیس بک پر ویڈیو بنا کر اپلوڈ کردی۔ ایسی ویڈیوز بھی رکارڈ کا حصہ ہیں جن میں وہ ان سے بات کر رہا ہے، روک رہا ہے وہ ان سے موبائل چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں اور اندھیرا چھا جاتا ہے۔ مبینہ طور پر پیپلز پارٹی کا لاڈلا سردار رکن سندھ اسمبلی بندہ بھیج کر اس کے بھائی کو پیغام بھیجتا ہے کہ وہ اپنے بگڑے ہوئے بھائی کو بنگلے اوطاق پر ساتھ لے کر آئیں، اس کی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ ہمارے مہمان شکاریوں کا راستہ روک رہا تھا اور سوشل میڈیا پر پرندوں تلور کی شکار کی مخالفت کر رہا تھا۔

سردار کے حکم پر اسی طرح عمل ہوتا رہا، ناظم کو لے کر دوسرا بھائی اپنے سردار کی اوطاق بنگلے مقتل کی طرف نکل پڑتے ہیں۔ جہاں خونخوار سردار اور اس کے درندے نوکر خون کے پیاسے انتظار میں کھڑے تھے۔ نوجوان ناظم جوکھیو کو پتا تھا کہ اس کے ساتھ اچھا نہیں ہونے جا رہا۔ فوری طور پر اس نے اپنے دوست وکیل کو واٹس اپ پر پیغام بھیجا کہ اس کو جام اویس گھرام نے طلب کیا ہے آپ پیچھے سے دیکھ لینا کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ بے رحم تشدد کر کے جسم کی ہڈیاں توڑ کر ناظم جوکھیو کو قتل کر دیا جاتا ہے، اس کے بھائی کو نکال دیا جاتا ہے کہ آپ واپس جائیں آپ کا بھائی آ جائے گا۔

سوشل میڈیا کے مطابق اس وقت ناظم جوکھیو نے سردار سے اپیل کی کہ رات کا وقت ہے مجھے گھر جانیں دیں، میری چھوٹی بیٹی میرے بغیر سوتی نہیں ہے۔ میں صبح ہوتے ہی واپس آ جاؤں گا آپ جو بھی فیصلہ کریں مجھے منظور ہے۔ صبح ہوتے ہی ناظم کے گھر بھائی کو پیغام بھیجا گیا کہ آپ کا بھائی فوت ہو گیا ہے۔ لاش لے جائیں۔ معاملہ جیسے ہی سوشل میڈیا پر آیا، سندھ کے عوام میں غم و غصے کرودھ کی لہر چھا گئی، 15 گھنٹے تک دھرنا دیا گیا۔ ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ رہا۔ فیس بک پیجز، واٹس ایپ جسٹس فار ناظم جوکھیو سے بھرے پڑے ہوئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ کو بھیجا جس نے پہلی کابینہ کے ممبران کو بھیجا اور خود بھی تعزیت کرنے آ گئے۔ قتل کیس میں نامزد مرکزی ملزم رکن سندھ اسمبلی جام اویس جوکھیو گرفتار ہوا۔

سندھ میں سرداروں وڈیروں جاگیرداروں نے ریاست کے اندر ریاست قائم کی ہوئی ہے۔ سب بھی سردار ایک جیسے نہیں ہیں مگر اکثریت ایک جیسی ہی ہے۔ سندھ میں سرداری اور جاگیرداری نظام انگریز سرکار نے مضبوط کیا۔ جب بھی ملک میں مارشل لاء لگا آمریت آئی ان کی عیدی ہوئی۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ان کے اپر ہاتھ رکھا۔ شہید بے نظیر بھٹو نے ان کو باقاعدہ طور پر پارٹی میں جگی دی۔ 2000 ع سے لے کر 2008 تک سابق صدر پرویز مشرف نے مالی طور پر ان کو مزید مستحکم اور مضبوط کیا۔ 2008 ع کے بعد سندھ میں سابق صدر پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری نے سب کو پارٹی میں شامل کر کے طاقتور بنایا ہے۔ 13 سال سے مسلسل اقتدار، پروٹوکول، عیاشیوں اور بینک بیلنس نے ان کا دماغ خراب کر دیا ہے۔

نظام جوکھیو کا سندھ میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، آئے روز کوئی نہ کوئی نوجوان قتل ہوتا ہے، خواتین کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ معصوم بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر مار دیا جاتا ہے یا لاش کسی کچرے گندے پانی کے تالاب میں پھینک دی جاتی ہے۔ سندھ میں گزشتہ 13 سالوں سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ سندھ کے 99 فیصد سردار، وڈیرے، جاگیردار، رئیس اسی حکمران جماعت میں شامل ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی با اثر سرداروں کے ذریعے الیکشن جیتتی ہے۔

ان با اثر شخصیات کو ایس ایس پی، ڈی ایس پیز ایس ایچ اوز، مختیار کار تپیدار تک دیتے ہیں وہ جیسے اور جس طرح کا ان سے کام لیں۔ مطلب سندھ میں گزشتہ کئی سالوں سے قتل و غارت، اغوا برائے تاوان، زمین پلاٹوں پر قبضہ، مطلب لاقانونیت برپا ہے۔ سندھ پولیس آرڈیننس 2019 ع کے بعد پولیس کو سی ایم ہاؤس کا غلام تک بنایا گیا ہے۔ آئی جی کا عہدہ صرف شو پیس کے طور پر رکھا گیا ہے۔

آپ کا تعلق کسی بھی علاقے سے کیوں نہ ہو، آپ اپنی مرضی سے کچھ بھی فیصلہ نہی کر سکتا جب تک اس علاقے کی با اثر سیاستدان اور پولیس انتظامیہ کی مرضی شامل نہ ہوگی۔ اگر جرائم کا جائزہ لیا جائے تو کراچی سمیت سندھ بھر میں اسٹریٹ کرائم کے ساتھ جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ غریب شریف لوگوں کا جینا عذاب بن گیا ہے۔ پتا نہیں چلتا کہ کسی بھی وقت آپ کے ساتھ کوئی بھی واقعہ یا حادثہ پیش آ سکتا ہے۔ سندھ میں ایک فرسودہ رواج ایسا بھی ہے کہ آپ کو برادری، قبیلہ کی بنیاد پر بھی جانی یا مالی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ قانون عدلیہ پولیسنگ اور اسٹیک ہولڈرز با اثر شخصیات کی ایک ہٹی قائم ہوئی ہے۔ چھ ماہ سے ایک سال کے اندر ناظم جوکھیو کے قتل کا معاملہ بھی، 50 لاکھ یا ایک کروڑ روپے میں نمٹایا جائے گا اور یوں ایک اور نوجوان موت کے منہ میں چلا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments