فاٹا کا مستقبل تباہ مت کریں


\"\"

پرسوں جناب محمود خان اچکزئی نے اسلام آباد میں ایک قبائلی جرگہ منعقدکیاتھا اس جرگے کامقصد فاٹا کے لئے مجوزہ اصلاحات کے بارے میں قبائل کی رائے جاننے کے بعدایک لائحہ عمل اورموقف اختیارکرناتھا مگرظاہرہے کہ اس جرگے میں انہی ملکان اورقبائل کے نمایندوں نے شرکت کی جواس حوالے سے پہلے سے معلوم اچکزئی صاحب کی موقف سے اتفاق رکھتے تھے اوراس جرگے کا“متفقہ“ اعلامیہ بھی وہی نکلنا تھا جو اچکزئی صاحب کی پہلے سے طے شدہ رائے کے مطابق تھا چنانچہ اس اعلامیے میں ایک بار پھر قبائل کی ”آزادحیثیت کے تحفظ“ اور “قبائل کی مرضی“ معلوم کیے بغیر ان پر کوئی بھی اصلاحات لاگو کرنے کی مخالفت کی گئی۔

فاٹا اصلاحات کے حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ اس حوالے سے حکومت نے سرتاج عزیز کی قیادت میں جوکمیٹی بنائی تھی اس کمیٹی نے فاٹا کے مختلف ایجنسیوں کادورہ کیا اور وہاں پر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اہل الرائے کی رائے جاننے کے بعد حکومت کو یہ سفارش پیش کردی کہ الگ صوبہ، کونسل کی حیثیت اورایف سی آرمیں ترامیم کے تینوں آپشنز کو رد کرتے ہوئے چوتھے آپشن کے مطابق فاٹا کا کے پی کے میں انضمام کیا جائے

جب اصلاحات کمیٹی تشکیل دی جارہی تھی تواس وقت کمیٹی کی ہیئت سب کے سامنے تھی کہ اس میں خود فاٹا سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل نہیں تھے اورجب مذکورہ کمیٹی فاٹا کے مختلف علاقوں کا دورہ کرکے ان کی رائے معلوم کر رہی تھی تو اس وقت بھی کسی جانب سے یہ اعتراض سامنے نہیں آیا تھا کہ رائے عامہ کو معلوم کرنے کایہ طریقہ ناکافی ہے مگر جیسے ہی کمیٹی کی سفارشات مرتب ہو کر سامنے آگئیں تو مولانا فضل الرحمن صاحب اور محترم اچکزئی صاحب نے اس کی مخالفت شروع کردی جبکہ باقی تمام کے تمام سیاسی جماعتوں نے صوبے میں فاٹا کے انضمام کی تجویزکی حمایت کی۔ اگرچہ 1998/97 میں جب سرحد اسمبلی نے متفقہ طورپر قبائل کے صوبے میں انضمام کی قرارداد پاس کی تھی تو جے یو آئی نے بھی اس کی حمایت کی تھی۔

جہاں تک فاٹا کے لوگوں کی رائے جاننے کیلئے متعلقہ کمیٹی کے اختیارکردہ طریقے کے علاوہ بھی کوئی طریقہ ہوسکتا ہے تو وہ صرف ریفرنڈم ہے لیکن ایک تو ریفرنڈم کا انعقاد بجائے خود ایک مشکل فیصلہ ہے دوسری طرف اس ریفرنڈم میں رائے دینے والے قبائل خود آر ڈی پیز کیمپوں سے لیکر ڈی آئی خان اور کے پی کے مختلف علاقوں سے لیکر کراچی تک بکھرے پڑے ہیں توان کی رائے جاننے کا میکانزم مجوزہ ریفرنڈم میں کیا ہوگا اور اس کے علاوہ پاکستان میں ریفرنڈم کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلە اس کی شفافیت ہے اسلئے ریفرنڈم کے مطالبے کا خلاصہ بھی محض اصلاحات کو التواء میں ڈالنے اور فاٹا کے موجودہ سٹیٹس کو برقرار رکھنے کی کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں

مولانا فضل الرحمن صاحب کی جماعت بہرحال اس حوالے سے اس معاملے کی سٹیک ہولڈر ہے کہ فاٹا میں ان کا ووٹ بینک اور نمایندگی موجود ہے مگر اچکزئی صاحب فاٹا کے ساتھ کسی قسم کے تعلق کے بغیرخوامخواہ ”مشر“ کی حیثیت جتلانا چاہتے ہیں اور “آزاد قبائل“ “غیورپختون“ اور ان کی ”شاندارتاریخ“ جیسی گمراہ کن اور فرسودە اصطلاحات کا استعمال کرکے صدیوں کے رلائے گئے قبائل کے مستقبل کو بھی اسی طرح تاریک رکھنا چاہتے ہیں اور یاغستان اور آزاد قبائل جیسے لالی پاپ کے نتائج آج ہم سب کے سامنے ہیں اور لاکھوں عزت مآب قبائل ان نتائج کوعملاً بھگت رہے ہیں۔ اسی نام نہاد “غیرت“ اور“آزادی“ کی وجہ سے قبائل جب پرقیامت ٹوٹ پڑی تھی اوروہ اپنے ہی ملک کے اندر ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے تو دوسروں کو تو چھوڑیے جے یو آئی جیسی عالمگیر اسلامی اخوت پریقین رکھنے والی جماعت کے سندھ کے جنرل سیکرٹری مولانا ڈاکٹرخالد محمود سومرو نے سندھ میں ان کو پناہ دینے کی مخالفت کی تھی تاکہ کہیں ان کی وجہ سے مستقل طور پر صوبے کا لسانی سٹرکچرتبدیل نہ ہوجائے۔

اب جب قبائل کو قومی دھارے میں آنے کا ایک موقع مل رہا ہے تو اس کے راستے میں بھی روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔ وہ قبائل جو آج کے جدید دور میں بھی وکیل، دلیل اوراپیل کے حق سے محروم ہیں جہاں ایک پولیٹیکل ایجنٹ اپنے ذات میں انتظامیہ، عدلیہ اورمقننہ تینوں کا قائم قام بن کرحکمرانی کرتا ہے جہاں آج بھی کسی مدعی کے قرآن پر ہاتھ رکھ کرجھوٹا حلف لینے سے بے گناہ مدعی علیہ کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے جہاں آج بھی پولیٹیکل ایجنٹ کی وضع کردہ سزاؤں میں کسی کا گھر مسمار کرنا اور ایک فرد کے جرم کی سزا اس کے پورے خاندان کو دینا جیسی سزائیں شامل ہیں۔ جب اس خطے پر انگریزکی حکمرانی تھی تواس وقت بلاشبہ ”آزادقبائل“ کا ٹایٹل اس علاقے کے لوگوں کے لئے عزت و افتخار کی علامت تھی اوراس وقت اس اصطلاح کا مطلب یہ تھا کہ خطے میں قائم فرنگی تسلط سے اس علاقے کے لوگ آزاد ہیں (اگرچہ یہ آزادی کس قسم کی آزادی تھی اس بحث کوچھیڑنا اس وقت مناسب نہیں ہے) مگر انگریز کے چلے جانے اور مملکت پاکستان کے قیام کے بعد ایک آئینی اور قانونی نظام میں “آزاد قبائل“ کا معنی و مفہوم بدل جاتا ہے اور اس وقت اس اصطلاح سے مراد وہ لوگ ہیں جو آئین و قانون سے ماوراء وحشی لوگ ہیں اس صورت میں “آزاد قبائل“ کوئی تمغہ نہیں بلکہ پسماندگی کی علامت ایک طعنہ اور گالی ہے۔

یہ واقعی ایک المیہ ہوتا کہ قبائل جہالت کے مارے اپنی آزاد حیثیت پر اصرار اور آئین و قانون کی بالادستی کے باغی ہوتے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ قبائل کا باشعور طبقہ، ان کی سیاسی قیادت اور مہذب نوجوان چیخ چیخ کر یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ان سے یہ نام نہاد آزادی لے کر انہیں آئین و قانون کے دائرے میں شامل کیا جائے ان کے لئے“معذوروں“ کی طرح کوئی بھی خصوصی بندوبست کرنے کے بجائے انہیں اپنے جغرافیے کی فطری ساخت کے مطابق خیبر پختونخوا میں شامل کیا جائے لیکن بعض سیاسی قائدین اس تاریخی موقع کوضائع کرنے اور اصلاحات کو التواء میں ڈالنے کے لئے کبھی ”قبائل کی رائے“ جاننے اور کبھی ”مستقل صوبے“ کی حیثیت دینے جیسے پاکستان میں ناممکن مطالبے کاسہارا لیتے ہیں۔

مستقل صوبہ واقعی ایک آئیڈیل صورت ہے لیکن نئے صوبوں کی تشکیل کے حوالے سے پاکستان کی سخت پالیسی اوراس کے وجوہات سے بھی ہم آگاہ ہیں اگر نئے صوبوں کی تشکیل کے بارے میں پاکستان کی پالیسی بھی اسی طرح نرم ہوتی جس طرح اس کے تین ہمسایوں افغانستان، ایران اورانڈیا کی ہے تو پھر بے شک فاٹا کو بھی تین صوبوں میں تقسیم کیا جاتا تو اس پر کسی کواعتراض نہ ہوتا۔ انضمام کی مخالفت میں ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ صوبائی صدرمقام پشاور سے وزیرستان و باجوڑ وغیرہ کی دوری مسائل کاسبب بنے گی لیکن یہ سوال تو الگ صوبے کی تشکیل کے حوالے سے بھی درپیش ہے۔ فرض کریں پاڑہ چنار کو نئے صوبے کا صدر مقام بنایا جاتا ہے تو اس صورت میں جنوبی وزیرستان والے ڈی آئی خان، بنوں، لکی، کوہاٹ پختون خوا میں داخل ہوں گے اس کے بعد اپنے نئے صدر مقام پاڑہ چنار جائیں گے۔

اگر صوبائی دارالحکومت وانہ کو بنایا جاتا ہے تو پاڑہ چنار والے کوہاٹ، بنوں میں سے ہوتے ہوئے ڈی آئی خان اور ٹانک پختون خوا سے ہوتے ہوئے اپنے نئے صدر مقام وانہ جائیں گے۔
باجوڑ والے سارا دن پختون خوا میں سفر کرکرکے تھک ہار کر آخر کار اپنے صوبے کے صدر مقام وانہ یا پاڑہ چنار پہنچیں گے۔
یا اگر صدر مقام خار باجوڑ ہوا تو وزیرستان والے سارا دن پختون خوا میں سفر کر کر کے باجوڑ پہنچیں گے۔ اور پختون خوا سے ہوتے ہوئے واپس اپنے صوبے آئیں گے۔
خیبر والے پشاور سے ہوتے ہوئے، کوہاٹ، ہنگو پختون خوا سے ہوتے ہوئے نئے صدر مقام پاڑہ چنار پہنچیں گے :

نئے صوبے کا وزیر اعلی اور گورنر سکیورٹی کی مخدوش صورت حال کے پیش نظر اسلام آباد میں رہے گا۔
ایک عجیب منظر ہوگا۔
ایک عجیب صوبہ ہوگا۔
جس میں سفر کرتے ہوئے آپ کو سارا دن دوسرے صوبوں میں پھرنا پڑے گا۔

انضمام کی صورت میں قبائل کو پہنچنے والا ایک نقصان یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس سے قبائل کے ”رسم و رواج“ اور جرگہ سسٹم ختم ہو جائے گا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قانون کے نفاذ کی صورت میں جرگے کی حیثیت صرف اختیاری ہوجائے گی اوراس کی قوت نافذہ ختم ہوجائے گی جو لوگ کورٹ کچہری کے بجائے قبائلی رسم و رواج اور ثالثوں کے ذریعے اپنے تنازعات حاصل کرناچاہتے ہیں ان سے یہ سہولت خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں رہنے والے پشتونوں سے بھی نہیں چھینا گیا ہے اور اب بھی بہت سے لوگ اپنے فیصلے قبائلی مرکوں اور جرگوں کے ذریعے کراتے ہیں پنجاب و سندھ میں بھی پنچایتیں موجود ہیں لیکن ان میں سے کسی کے لئے ایف سی آر جیسے ظالمانہ قانون اور پولیٹیکل ایجنٹ جیسے مختار کل کی چھتری کی ضرورت نہیں پڑی ہے علاوہ ازیں نئے صوبے کی تشکیل ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے ساتھ بلوچستان کے پختونوں، سرائیکی وسیپ اورہزارہ والوں کے دیرینہ مطالبات بھی سراٹھائیں گے

ان تمام حقایق سے انضمام کی مخالفت کرنے والی سیاسی قیادت بھی آگاہ ہے مگر اس کے باوجود نئے صوبے پر اصرار کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آخر کار انضمام اور الگ صوبہ دونوں آپشنز کو پرے رکھ کر ایف سی آر میں نام نہاد اصلاحات پر ہی اکتفا کیا جائے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments