ذات پات اور معاشرہ


عالم فانی گواہ ہے کہ مسلم عوام نے پاک سر زمین جن وجوہات کی بنا پر حاصل کی ان کی تہہ میں کہیں نہ کہیں ہندوانہ ذات پات کا نظام بھی کار فرما تھا۔ جب اپنے ہی معاشرے میں اونچ نیچ کا تصور عقیدے سے زیادہ قوی ہو جائے تو معاشرے سے الگ ہو جانے کی خواہش کا بھڑک اٹھنا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ چھوت چھات سے چھٹکارا ہر ذی روح کے لیے جب معراج کا درجہ اختیار کر جائے تب علیحدگی کے طوفان کا سمندر امڈ آنا بھی لازمی ٹھہرتا ہے۔

تاریخ کے صفحات کی سطروں میں غوطہ زن ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی ہوا ہندوستان میں اور ایک الگ ملک موجود میں آیا جس کی بنیاد مساوات کے اصول پر رکھی گئی۔ وقت ہر غم کو بھلا دیتا ہے اور ہر مقصد کو فراموش کر دیتا ہے۔ ایسا ہی ہوا اس نئی مساواتی دھرتی پر، لوگ آہستہ آہستہ اسی نظام کی طرف لوٹتے گئے جو ان کے پرکھوں کی میراث تھا۔ بظاہر ذات پات کے نظام سے چھٹکارا حاصل ہو چکا تھا مگر دلوں میں ناسور کی مانند موجود تھا۔

لوگوں نے آبا و اجداد کی میراث کو قابل استعمال بناتے ہوئے ایک ایسا نظام ترتیب دیا جس میں ذات پات کا تصور نئے رنگ، نئی امنگ اور نئے ولولے کی چاشنی کے ساتھ موجود تھا۔

لوگوں نے اپنی حیثیت کو دوسرے لوگوں سے بلند کرنے کی خاطر نئے نئے حربے استعمال کرنا شروع کر دیے۔ وہ لوگوں کو ان کا حق حاصل کرنے پر پھسلاتے اور ناجائز راستوں کا پتہ بتلاتے۔ جب وہ حق کی طرف، جو حق نہیں ظلم کے زمرے میں آتا تھا، رواں دواں ہوتے اور اسی جوش میں ان راستوں پر چل نکلتے جو بظاہر روشن مگر اصلیت میں تاریک، تو وہ لوگ جنہوں نے ان راستوں کی خبر انہیں دی تھی حکام کو سارا ماجرا کہہ سناتے، حکام حق کے متلاشیوں، جنہیں یہ خبر تک نہ ہوتی کہ وہ کس دلدل میں پھنس چکے ہیں، کو پکڑ کر جیل میں بند کر دیتے۔

اور پھر ان کو آزاد کروا کر احسان کا پہاڑ کھڑا کرنے والے بھی وہی لوگ ہوتے جن کے کہنے پر وہ اس صحرا کی تپتی ریت پر ننگے پاؤں نکلے تھے۔ جب احسان کا وزن کمر پر آ جایا کرتا ہے تو کمر جھک جایا کرتی ہے۔ ایسا ہی ان کے ساتھ ہوتا اور وہ احسان کا وزن کمر پر لیے غلامی کا طوق گلے میں ڈالے اپنے مالک کے تلوے چاٹنے پر مجبور ہو جاتے۔

خطرناک حربہ جو اکثر اس پاک زمین کے باشندوں کا پسندیدہ رہا وہ ہے لوگوں کو آرام و سکون کے خواب دکھاتے ہوئے بے روزگاری کے سمندر کا رستہ ناصح کے روپ میں آ کر بتانا۔ وطن عزیز کے کونے کونے پر اور ہر شہر کے چوراہے میں، ہر گلی کی نکڑ پر ایسے کئی لوگ نظر سے گزرتے ہیں جن کی زندگی کا مقصد دیگر لوگوں، جو محنت کو اپنا شعار بنائے عزت کے نوالے کی خاطر آرام کو سر عام نیلام کرتے ہیں، سے مانگ کر کھانا ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ امراء اپنی بے جا دولت و ثروت کی نمائش کی خاطر ایسے بیکار لوگوں میں اضافہ کا سب سے بڑا باعث بنتے ہیں۔

وہ غریب لوگوں کے لئے علم و ہنر کی راہیں کھولنے کے علاوہ ہر وہ کام کرتے ہیں جن سے غریب کو روکھی سوکھی روٹی تو ملے مگر وہ بے کار رہے۔ اس نمائش کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما ہو سکتا ہے، آپ خوب جانتے ہیں۔ اگر غریب علم و ہنر کا متلاشی ٹھہرا، امیر کو صاحب کہنے والا اور خدا کا درجہ دینے والا کون ہو گا؟ کون؟ میں آپ سے جواب طلب ہوں، کون؟

علی حسن اویس

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی حسن اویس

علی حسن اُویس جی سی یونی ورسٹی، لاہور میں اُردو ادب کے طالب علم ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے ضلع حافظ آباد سے ہے۔ مزاح نگاری، مضمون نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ تحقیقی آرٹیکل بھی لکھتے ہیں۔

ali-hassan-awais has 66 posts and counting.See all posts by ali-hassan-awais

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments