ڈسکہ ضمنی انتخاب میں دھاندلی: کون جواب دہ ہوگا؟


اس سال کے شروع میں ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں دھاندلی کے بارے میں الیکشن کمیشن کی رپورٹ ملک کے انتخابی طریقہ کار، مقامی انتظامیہ کی بے بسی اور سیاسی حکمرانوں کی بدنیتی اور مداخلت کا پول کھولتی ہے۔ اس رپورٹ کو سیاسی الزام تراشی کا موضوع بنانے کی بجائے سنجیدگی سے اس کے تمام پہلوؤں پر غور کرکے ان تمام کمزوریوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے جس سے اس ملک میں انتخابی عمل ہر بار بداعتمادی کا شکار ہوتا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان اس وقت تو قوم کو یہ باور کروانے میں مصروف ہیں کہ ان کی حکومت دنیا کی ان چند بہترین حکومتوں میں شامل ہے جس نے کورونا کی وجہ سے سامنے آنے والی مشکلات کے باوجود قوم کو کسی بڑے معاشی بحران کا شکار نہیں ہونے دیا ۔ فی الوقت وہ اپنا زور بیان یہ ثابت کرنے پر صرف کرتے ہیں کہ مہنگائی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھنے کا اثر پاکستان میں بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ حکومت نے اپنی مستعد پالیسیوں کے ذریعے جسے عمران خان سمارٹ لاک ڈاؤن کا نام بھی دیتے رہے ہیں ، عوام کو مہنگائی کی شدت سے محفوظ رکھنے کی عملی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں 120 ارب روپے کا امدادی پیکیج دے کر مہنگائی کا اثر زائل کرنے کے لئے غریب خاندانوں کو بنیادی ضروت کی چیزوں پر سبسڈی دے کر ایک ذمہ دار اور عوام دوست حکومت ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ تاہم انہیں شکوہ ہے کہ اپوزیشن اس صورت حال کو ناجائز طور سے حکومت کے خلاف استعمال کرتی ہے حالانکہ ملکی معیشت کو جن بڑے چیلنجز کا سامنا ہے وہ ماضی میں حکومت کرنے والے دو خاندانوں کی بدعنوانی کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت تو ان مسائل کو ختم کرنے کی کوشش کررہی تھی کہ بیچ میں کورونا کی مشکل آ گئی۔

ملک میں مہنگائی کی صورت حال سے شروع ہونے والی الزام تراشی کی تازہ ترین مہم سے پہلے البتہ عمران خان اور ان کے ساتھی انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کی بات کرتے رہے ہیں۔ وزیر اعظم ملک میں الیکٹرانک مشینوں کے ذر یعے ووٹنگ کا نظام متعارف کروانا چاہتے ہیں جو کہ ان کے نزدیک پاکستان میں انتخابات سے پیدا ہونے والے تنازعات کو ہمیشہ کے لئے ختم کردے گا۔ وہ اس حد تک اس نظام کو غلطی سے پاک اور دیانت دارانہ انتخابی عمل کے لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ اس حوالے سے ان کے قریب ترین ساتھیوں نے الیکشن کمیشن اور اس کے سربراہ پر براہ راست حملے کرنے اور اپوزیشن کا ’ترجمان‘ ہونے کا الزام لگانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اسی پاداش میں اب وفاقی وزرا فواد چوہدری اور اعظم سواتی الیکشن کمیشن کے سامنے پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں عمران خان نے پارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس میں تحریک انصاف کے لیڈروں کو اس موقع پر ان دونوں وزیروں کی اخلاقی مدد کرنے اور الیکشن کمیشن میں پیشی کے دوران ان کے ساتھ جانے کی ہدایت کی تھی۔

اس دوران ملک میں آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری کا معاملہ طے ہونے کے بعد تحریک لبیک پاکستان کے احتجاج اور لانگ مارچ کی صورت میں ایک نیا گرما گرم موضوع زیر بحث تھا ، اسی لئے وزیر اعظم کی اس ہدایت پر کوئی خاص رد عمل سامنے نہیں آیا اور نہ ہی یہ سوال کیا جا سکا کہ کیا وجہ ہے کہ ملک کا وزیر اعظم ایک خالص فنی و قانونی معاملہ میں الیکشن کمیشن جیسے خود مختار ادارے پر دباؤ ڈالنےکے لئے پارٹی لیڈروں کو اکسا رہا ہے۔ وزیر اعظم اگر واقعی انتخابات کی شفافیت پر یقین رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ عوام کے ووٹوں کو کسی جعل سازی اور بیرونی مداخلت کے بغیر شمار کیا جاسکے تاکہ کسی شک و شبہ کے بغیر صرف وہی لوگ منتخب قرار دیے جائیں جنہیں کسی بھی حلقے کے ووٹروں کی اکثریت اپنا نمائیندہ بنانے کی رائے دیتی ہے۔ اس صورت میں تو ملک کے وزیر اعظم کو خود مختار الیکشن کمیشن کا سب سے بڑا ترجمان ہونا چاہئے تھا اور اگر ان کے کچھ ساتھی کسی تنازعہ کی وجہ سے الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر پر الزام تراشی کے مرتکب ہوئے تھے تو کمیشن کی کارروائی سے پہلے انہیں خود ان کی سرزنش کرتے ہوئے کسی بھی ایسی گفتگو سے منع کرنا چاہئے تھا جو الیکشن کمیشن کی خود مختاری اور دیانت داری کے بارے میں شبہات پیدا کرتی ہے۔

عمران خان شفاف انتخابات کے وکیل ہونے کے باوجود الیکشن کمیشن کی خود مختاری اور چیف الیکشن کمشنر کے وقار پر حرف زنی کرنے والے وزیروں کے بارے میں کوئی کارروائی نہیں کرسکے البتہ انہوں نے الیکشن کمیشن کی طرف سے ضابطہ کی کارروائی شروع ہونے پر اب پارٹی قیادت کو فواد چوہدری اور اعظم سواتی کی اخلاقی مدد کرنے اور الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالنے کا مشورہ و ہدایت دی ہے۔ اس افسوسناک طرز عمل سے اپوزیشن کے اس الزام کو تقویت ملتی ہے کہ حکومت کسی بھی قیمت پر ووٹنگ میں الیکٹرانک مشینیں متعارف کروا کے انتخابات میں دھاندلی کا ایک نیا راستہ تلاش کرنا چاہتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے متعدد تکنیکی وجوہ کی بنیاد پر الیکٹرانک مشینوں کے استعمال پر اعتراضات کئے ہیں جبکہ اپوزیشن دیگر ملکوں کے تجربات کا حوالہ دے کر یہ کہنے کی کوشش کرتی رہی کہ اس طریقے سے پاکستان میں انتخابی شفافیت کی بجائے دھاندلی کلچر کو فروغ حاصل ہوگا۔ کوئی رائے درست یا غلط ہوسکتی ہے لیکن جب حکمران جماعت اور حکومت یکساں شدت سے کسی ایک معاملہ پر دلیل اور مکالمہ سے بات سمجھنے کی بجائے الزام عائد کرنے اور یہ کہنے پر اتر آئے کہ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کی مخالفت کرنے والے دھاندلی کی پیداوار ہیں اور اس نظام پر اعتراض اٹھانے والا چیف الیکشن کمشنر اپوزیشن کا ’ایجنٹ‘ ہے تو اس سے اپوزیشن کی نیک نیتی سے پہلے حکومت کے ارادوں کے بارے میں شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ خاص طور سے جب یہ ہنگامہ ایک ایسے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف برپا کیا جارہا ہو جسے موجودہ وزیر اعظم نے ہی مقرر کیا ہے۔

عمران خان اور حکومت اس طرز عمل سے یہی تاثر قوی کرنے کا سبب بنے ہیں کہ وہ ہر ادارے کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔ جو عہدیدار ان کی مرضی کے برعکس کوئی رائے دیتا ہے تو فوری طور سے اس کی نیت پر شبہ ظاہر کرکے اپنی رائے ٹھونسنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے علاوہ یہی طرز عمل قومی احتساب بیورو کے چئیرمین کی تقرری اور اس عہدہ سے علیحدگی کے بارے میں اختیار کیا گیا ہے۔ حکومت قاعدے کی رو سے جسٹس (ر) جاوید اقبال کی مدت پوری ہونے پر نیا چئیرمین نامزد کرنے کی بجائے انہیں برقراررکھنے پر اصرار کر رہی ہے ۔ اب ایک نئی ترمیم کے ذریعے چئیرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل سے واپس لے کر وزیر اعظم کو تفویض کرنے کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ یعنی جو عہدیدار عمران خان کے سیاسی عزائم میں معاونت کرے ، اس کی مدد کے لئے ہر غیرقانونی اور غیر اخلاقی اقدام کرنا ممکن ہے لیکن جو چیف الیکشن کمشنر کی طرح خود مختاری سے اپنی رائے دینا چاہے ، اسے الزام تراشی کے ذریعے ہراساں کیا جائے۔

ملک میں احتساب کے ذمہ دار ادارے کے حوالے سے حال ہی میں سینیٹ کمیٹی کو یہ اطلاعات بھی فراہم کی گئی ہیں کہ نیب نے 800 ارب روپے سے زائد وصول کی ہوئی رقوم سرکاری خزانے میں جمع نہیں کروائیں۔ اس کے باوجود حکومت نے نیب سے استفسار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ یہ کثیر رقم کہاں گئی اور نہ ہی نیب کا آڈٹ کرنے کا کوئی اقدام کیا گیا ہے۔ یوں نیب کے علاوہ حکومت کی نیت کے بارے میں شبہات قوی ہوتے ہیں۔ اگر اپوزیشن ان شبہات کو سیاسی ایجنڈے کے طور پر استعمال کرتی ہے تو عمران خان کس منہ سے اسے غلط قرار دیں گے؟

اب ڈسکہ کے ضمنی انتخابات کے بارے میں الیکشن کمیشن کی رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ اس انتخاب میں سرکاری امیدوار کو جتوانے کے لئے اعلیٰ سطح پر موجود عہدیدار ملوث تھے اور مقامی پولیس ان کا آلہ کار بنی ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے 20 پریزائیڈنگ افسروں کو غائب کردیا گیا اور پورے انتخاب کو مشکوک بنایا گیا۔ الیکشن کمیشن نے شکایات اور معلومات سامنے آنے پر اس حلقے کا یہ انتخاب کالعدم قرار دیا تھا اور نئے انتخاب میں سرکاری امیدوار کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ اب اس دھاندلی زدہ کالعدم کردہ ضمنی انتخاب کی رپورٹ سے صرف انتخابی نظام کے نقائص ہی نمایاں نہیں ہوئے بلکہ حکومت کی بدنیتی اور غیر قانونی ہتھکنڈے بھی سامنے آئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیر اعظم ذاتی طور پر اس دھاندلی اور بے اعتدالی کی ذمہ داری قبول کریں اور خود کو احتساب کے لئے پیش کریں۔

مغربی شفاف جمہوریت کے جو اصول عمران خان پاکستانی عوام کو ازبر کرواتے ہوئے اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بناتے رہے ہیں، ان کی روشنی میں تو انہیں ڈسکہ ضمنی انتخاب میں رونما ہونے والے واقعات کی براہ راست ذمہ داری قبول کرنی چاہئے اور پنجاب میں اپنی ہی پارٹی کے وزیراعلیٰ سے باز پرس کرنی چاہئے کہ انہوں نے دیانت اور شفافیت کے منشور پر داغ لگانے والا کام کیوں کیا۔ اس کے برعکس اگر مروجہ طریقہ کے مطابق جوابی الزام تراشی سے کام چلانے اور ایک بار پھر الیکشن کمیشن کے نقائص نکالنے کی کوشش کی گئی تو پاکستانی عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ملک میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہؤا ہے۔ عمران خان ایک کرپٹ نظام کو اپنے سیاسی اقتدار کے لئے استعمال کرنے میں اسی طرح شاداں و فرحاں ہیں جس کی نشاندہی وہ سابقہ حکمرانوں کے طرز عمل میں کرتے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments