رویوں کا فرق: شیخ دین محمد اور شیمپو


شیکسپیئر نے کہا تھا کہ نیم یعنی نام میں کیا رکھا ہے۔ لیکن اسے معلوم نہ تھا کہ دنیا میں بعض معاشرے ایسے ہیں جہاں نیم میں نہ سہی، سر نیم میں بہت کچھ رکھا ہوتا ہے۔ رشتوں کے اشتہارات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں، نام نہیں ذات برادری کی اہمیت ہوتی ہے۔ تمام جدتوں اور نئی روشنیوں کے باوجود چھوا چھوت، اونچ نیچ، اور نسلی عصبیت اب بھی باقی ہے۔ حیرت تب اور ہوتی ہے جب ایسے لوگ بھی اس طرح کی عصبیت میں مبتلا پائے جاتے ہیں جو تمام روایتی و رسمی بندشوں سے آزاد ہو چکے ہوں۔

ایک اشتہار میں دیکھا کہ ایک صاحب کو اپنے بیٹے کے لئے شوہر کی تلاش تھی (جی، کتابت کی غلطی نہیں ہے۔ بیٹا ہی لکھا ہے، بیٹی نہیں ) لیکن لڑکا ان کی اپنی برادری کا ہو۔ تمام رسم و رواج ٹوٹ گئے لیکن اپنی ذات برادری کی خواہش بچی رہی۔ مساوات کی تعلیم کے علم بردار بھی برصغیر میں اس مرض سے نہ بچ سکے۔ کمیونسٹ ہوں، عیسائی یا مسلمان، سب نے نام و نسب کی بنیاد پر عصبیت سیکھ لئے۔ اشراف و ارذال بنا لئے، گندا اور حقیر کہنا سیکھ لیا لیکن اپنی کتابوں سے مساوات و برابری نہ سمجھا پائے۔ یہ بیماری محلہ بسانے، شادی بیاہ، حتی کہ مساجد بنانے تک میں نظر آ جائے گی۔

پیشہ وری کو گندا اور حقیر سمجھا گیا۔ اس کے پیچھے برہمنیت کے ساتھ وہ زمیندارانہ نظام بھی تھا جس میں دھوبی نائی موچی درزی وغیرہ پیشوں سے وابستہ لوگوں کے لئے تعلیم اور مادی فوائد کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ جس کام میں مادی فوائد نہ ہوں، اسے معاشرے میں پسماندہ ترین لوگ ہی اپناتے ہیں اور انھیں حقیر سمجھا جاتا ہے۔ نائی جراحی کرتا تھا تو گندا کام تھا، لیکن سرجن پڑھا لکھا ہوتا ہے اور پیسے والا ہوتا ہے تو اس پیشہ میں عار نہیں رہا۔ بہت سے ایسے کام ہیں جو پہلے تحقیر آمیز سمجھے جاتے تھے لیکن اس میں پیسہ آ گیا تو باعث عزت سمجھے جانے لگے۔

ہمارا اشرافیہ پیشہ ور قوموں سے نسلا بعد نسل خدمات لیتا رہا اور بدلے میں اتنا ہی دینے کا نظام کیا کہ جیتے کھاتے رہیں اور ان کے بچے بھی اسی کام میں بنے رہیں۔ ان کو اپنے برابر بٹھانا تو دور ان کی اولاد کو بھی اپنے برابر بیٹھنے کے لائق نہیں بننے دیا جاتا تھا۔ داستان گو کہتے ہیں کہ چائل تحصیل سے ایک نائی کا بیٹا بمبئی چلا گیا۔ چند سال بعد لوٹا تو عروس البلاد کی ہوا لگی تھی، زمیندار صاحب کے یہاں حاضری دینے کا خیال نہیں آیا۔

کارندوں نے کان بھرے۔ زمیندار نے حاضری کا حکم دیا۔ لونڈا حویلی پہنچا، باہر چارپائیاں بچھیں تھیں، بیٹھ گیا۔ زمیندار کو ناگوار ہوا۔ کہا نائی کی اولاد سید زادوں کے برابر بیٹھے گا! نیا لڑکا، بمبئی میں رہا تھا تو یہاں کے آداب سے ناواقف تھا، کچھ جواب دے دیا۔ سید صاحب نے حکم سنایا، اس گستاخ کو الٹا کر کے کھونٹا ٹھونک دو ۔ مستعد خدام نے حکم کی تعمیل کی۔ اس عمل میں اس کی موت ہو گئی۔ پولیس ایک دو بار آئی۔ سید صاحب نے خدام سے پوچھا کہ پولیس کیوں چکر لگا رہی ہے۔

بتایا گیا کہ نؤا کے لونڈے نے سرکار کے حضور بے ادبی کی تھی، سرکار نے سزا سنا دی اور اس کی موت ہو گئی۔ اسی کی تفتیش ہے۔ فرمایا تو کیا عدالت جانا ہو گا؟ جی سرکار۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ عدالت حویلی پر ہی لگ جائے؟ سرکار کا حکم ہو اور عدالت کے آنے جانے ٹھہرنے حقہ پانی کا خرچ اٹھایا جائے تو یہ ممکن ہے۔ اس طرح عدالت حویلی پر ہی لگی۔ ممکن ہے مبالغہ آرائی ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ اونچ نیچ کی مناسبت سے یہ طے ہوتا تھا کہ کس کو کہاں بیٹھنے کی اجازت ہے یا نہیں ہے۔

ایسے امیر خاندانوں کو جانتا ہوں کہ سارا خانوادہ مع اہل و عیال و رشتہ دار نوکر چاکر نائی باورچی کے ساتھ پورا جہاز کرائے پر لے کر حرمین گیا۔ سال بھر قیام رہا۔ حج و زیارات کے ساتھ ہی درس و تدریس کے حلقے بھی لگے، لیکن نائی باورچی و دیگر خدام جیسے گئے تھے ویسے ہی لوٹ آئے۔ کسی کتاب کی ایک سطر بھی نہ پڑھ سکے۔ حج و عمرہ تو خیر کر لیا۔ یہ بھی ضرور ہوا کہ پہلے مولا بخش کھانا پکاتے تھے، اب حاجی مولا بخش کے ساتھ ساتھ ان کی بہوئیں بھی خادمائیں لگ گئیں، لیکن یہ نہ ہوا کہ ان کے بچوں کو مدرسہ بھیج دیا جاتا۔ مجھے نہیں معلوم کہ کسی نواب، زمیندار، یا شیخ المشائخ کی خدمت میں زندگی گزار دینے والا کوئی نائی علم حاصل کر کے صاحب تصنیف بھی ہوا ہو۔

اب جو حالات بدلے ہیں تو افسوس کہ یہ بہتری اسلامی مساوات کی برکت سے نہیں آئی بلکہ ہوائے حریت و جدید جمہوریت کی وجہ سے ایسا ممکن ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دولت اور تعلیم پر جمہوری عمل کا کچھ اثر ضرور ہوا ہے۔ ایک خاموش انقلاب کے ذریعہ پیشہ ور پسماندہ طبقوں سے کروڑوں لوگ متوسط طبقے میں شامل ہوئے ہیں، اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے ہیں۔ ہندوستان میں زیادہ، پاکستان میں کچھ کم۔ پاکستان کے ایوانوں میں اب بھی پیرزادے، صاحبزادے، مخدوم زادے، زمین زادے خوب نظر آتے ہیں۔ جمن، لڈن، نینوا نائی کے بیٹوں کو ابھی وہاں پہنچنے میں شاید وقت ہے۔

انگریزوں نے تعلیم کو عام کرنے کی کوشش کی۔ جامعات، کلیات و مدارس قائم کیے ۔ اچھوتوں کو فوج اور انتظامیہ میں جگہ دی۔ اس سے ہر طبقے میں ترقی کا مزاج بنا اور ڈاکٹر امبیڈکر جیسے نابغۂ روزگار ظہور پذیر ہوئے۔ امبیڈکر اپنے عہد کے غیر منقسم ہندوستان میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے آدمی تھے۔ ان کی ساری تحریریں اور تقریریں چالیس جلدوں میں شائع ہوئی ہیں۔ اصلاً مطالعۂ قانون و معیشت، تصنیف و تحقیق کے آدمی تھے لیکن ہندوستان میں جو حالات تھے اس پر خاموش نہیں رہ سکتے تھے۔

جب اچھوتوں نے مہاڑ میں تالاب کا پانی چھو کر اسے ”ناپاک“ کر دیا تو برہمنوں کے لئے وہ ناقابل استعمال ہو گیا۔ اب اس کو پھر سے ”پاک“ کرنے لئے بہت سے منتر پڑھتے ہوئے 108 گھڑے گوبر، گو موتر، گائے کا دودھ، دہی، گھی وغیرہ تالاب میں ملایا گیا۔ ایسے زہر آلود ماحول میں امبیڈکر کے لئے قلم و کتاب تک محدود رہنا ممکن نہ تھا کیوں کہ عملی اقدام کرنا ناگزیر ہو گیا تھا۔

اس رویے کے برعکس بہار کا ایک حجام انگریز بہادر کی خدمت میں رہا۔ کچھ انگریزی سیکھ لی، ترقی کرتے کرتے فوج میں عہدہ بھی حاصل کیا۔ جب صاحب بہادر فوج سے سبکدوش ہو کر جانے لگے تو اپنے اس پرانے نائی کو بھی برطانیہ عظمی لے گئے۔ وہاں انھوں نے باقاعدہ سکول میں داخلہ دلا کر انگریزی کی پڑھائی کرائی۔ نتیجہ، وہ انگریزی میں کتاب لکھنے والے پہلے ہندوستانی بنے۔ ان کا نام شیخ دین محمد تھا۔ ان سے پہلے کسی ہندوستانی نے انگریزی میں کوئی تصنیف شائع نہیں کی تھی۔

بطور حجام سر دبانے، چمپی مالش کرنے کے ماہر تھے تو انگلستان میں حمام کھولے جہاں باحیثیت لوگ چمپی کرانے، بھاپ لینے آتے۔ چمپی میں اتنی شہرت ہوئی کہ ہسپتال بعض مریضوں کو ان کے پاس بھیجتے۔ شاہ برطانیہ جارج چہارم اور ان کے بعد شاہ ولیم کی چمپی کے لئے شاہی محل بلائے جاتے۔ حمام اور چمپی کے لئے مختلف تیلوں اور جڑی بوٹیوں سے ایک مادہ تیار کرتے۔ المختصر اسی چمپی/چمپو سے انگریزی کا لفظ شیمپو بنا۔ وہ چمپی مالش کرتے اور جڑی بوٹیوں (ریٹھا وغیرہ) سے بال دھوتے۔

اس عمل کو شیمپوئنگ کہا گیا۔ بعد میں انیسویں صدی کے وسط سے یہ لفظ محدود معنی میں استعمال ہونے لگا اور آج یورپ، ایشیا و افریقہ کی پچاسویں زبانوں میں انگریزی سے مستعار لفظ کی حیثیت سے رائج ہے۔ چمپی/چمپو اصلا سنسکرت سے مشتق ہے۔ اس میں دبانے کا مفہوم ہے۔ جسم یا سر کی مالش میں زور دبانے پر ہی ہوتا ہے۔ چاپنا، چپکانا، چھاپنا سب اسی قبیل سے ہیں۔ یہ سارے کام دبانے سے ہی ہوتے ہیں۔

روایتی طور پر اکثر نائی کثیر المہارت ہوتے تھے۔ بال کاٹنا، جراحی کرنا، ختنہ کرنا تو ان کے ذمہ ہوتا ہی تھا۔ رشتوں کے لئے پیغام رسانی بھی کرتے، مرنے جینے اور دعوتوں کا اعلان کرتے اور چھوٹی موٹی تقریب میں کھانا بھی پکا دیتے۔ دین محمد صاحب بھی کھانا پکانا جانتے تھے تو لندن میں برطانیہ عظمی کا پہلا ہندوستانی ریستوران ہندوستانی کافی ہاؤس کے نام سے انھوں نے ہی کھولا اور ہندوستانی کری متعارف کرایا۔ ان کا ایک پوتا فریڈرک عالمی شہرت کا ڈاکٹر ہوا۔ تو یہ ہوتے ہیں رویوں میں فرق کے مختلف نتائج۔ ہمارے اشراف نے ان کو نائی بھنگی ہی رہنے دیا تھا جب کہ دین محمد لندن میں شیمپوئنگ سرجن کہے جاتے تھے۔

اس سے ذہنوں کی بلندی کا پتہ چلتا ہے
نام ذروں کے تم اپنے مہ و اختر رکھنا

میں سماجیات کا طالب علم نہیں ہوں، میری اصل دلچسپی الفاظ کے سرے تلاشنا ہے، لیکن شیمپو کی کہانی میں کچھ پراگندہ خیالات بھی رقم ہو گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments