پابلو نیرودا، امن، محبت اور انقلاب کا شاعر


ہسپانوی زبان کے سب سے بڑے شاعر اور مارکسی دانشور پابلو نیرودا کو 1971 ء میں ادب کا نوبل ایوارڈ ملا تو دنیا بھر کے ترقی پسند ادیبوں، شاعروں، انسانی حقوق کے علمبرداروں، امن، آزادی، انصاف اور سماجی برابری کے لیے برسرپیکار سیاسی و سماجی کارکنوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہو گیا۔ یہ ایوارڈ انہیں ایک ایسے ادب کی تخلیق پر دیا گیا تھا جس کے ذریعے انہوں نے اپنے خطے کی عوام میں بنیادی انسانی قدروں کو اجاگر کرنے، انہیں خواب دیکھنے اور ان کی تکمیل کے ذریعے تقدیر بدلنے کا راستہ دکھایا تھا۔

اس سے قبل پابلو نیرودا کو بین الاقوامی امن ایوارڈ، لینن امن ایوارڈ سمیت بہت سے دیگر اعزازات سے بھی نوازا گیا تھا۔ ایک ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے ان کا تخلیق کردہ ادب پرانی وضع، پرانے انداز، دقیانوسی خیالات، رویوں اور طریقوں کو رد کر کے نئے اصول، قواعد، اصلوب، طرز اور رجحانات کو ترتیب دیتا ہے۔ اس لیے پابلو نیرودا نے نہ صرف ادب کی دنیا میں اعلی مقام حاصل کیا بلکہ دنیا بھر میں جدید دور کی شاعری کو اعلیٰ مقام دلوانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔

چلی، براعظم جنوبی امریکہ کے مغربی سمندری کنارے اور انڈس پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع ایک لمبی پٹی نما ملک ہے، جس کی کل آبادی تقریباً 2 کروڑ اور رقبہ 219، 930 مربع میل ہے، جو کہ پاکستان کے رقبے کا تقریباً 65 فیصد ہے۔ قدرتی وسائل ز سے مالا مال چلی دنیا میں تانبا پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس لیے برصغیر کی طرح چلی بھی ایک عرصہ تک سامراجی کالونی رہا اور تقریباً 300 برس تک اس پر اسپین کا غاصبانہ قبضہ رہا۔

یوں تو کلونیل دور (نوآبادیاتی نظام) صدیوں سے ہی چلا آ رہا ہے، لیکن جدید نوآبادیاتی نظام کی بنیاد یورپین ممالک کی جانب سے سمندری راستوں کی دریافت کے ساتھ ہی پندھرویں صدی کے آغاز میں ہی پڑ گئی تھی، جب انہوں نے 1488 ء میں افریقہ کے جنوبی ساحلوں اور 1492 ء میں امریکہ کا سمندری راستہ دریافت کیا۔ ان دریافتوں کی بدولت پرتگال، اسپین، ڈچ ریپبلک، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے دنیا کے غریب اور کمزور ممالک پر قبضے کر کے انہیں اپنی کالونیاں بنانے اور ان کے معدنی ذخائر و خام مال کو بے دردی سے لوٹنے کا عمل شروع ہو گیا تھا۔

1540 ء میں سپین نے اس علاقے پر قبضہ کر کے اپنے کالونی بنا لیا، جسے اب چلی کہتے ہیں۔ غیر ملکی تسلط کے خلاف چلیں عوام نے 1810 ء سے 1826 ء تک آزادی کی بھرپور جنگ لڑی۔ چلی نے اسپین سے آزادی کا اعلان تو 18 ستمبر 1818 ء کو کر دیا تھا، لیکن آزادی کی تکمیل کو وقت لگا اور بعد ازاں 1830 کی دہائی میں چلی ایک نسبتاً مستحکم آمرانہ جمہوریہ کے طور پر دنیا کے نقشے پر نمودار ہو گیا۔

بیسویں صدی میں 1970 ء کی دہائی تک چلی میں جمہوریت کا عمل دیکھا گیا، جس سے ملک میں تیزی سے صنعت کاری ہوئی، شہری آبادی میں اضافہ ہوا اور ملکی معیشت کو وسعت دینے کے لیے تانبے کے ذخائر کو ترقی دی گئی، جس سے کان کنی بڑھی اور برآمدات میں اضافہ ہوا۔ 1960 ء اور 1970 ء کی دہائیوں کے دوران ملک نے شدید بائیں بازو اور دائیں بازو کی سیاسی پولرائزیشن اور ہنگامہ آرائی کا سامنا کیا۔ یہ ترقی 1973 میں چلی میں امریکی آشیرباد سے ہونے والی فوجی بغاوت کے ساتھ اختتام پذیر ہو گئی جس نے سلواڈور ایلینڈے کی جمہوری طور پر منتخب بائیں بازو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور بدنام زمانہ ڈکٹیٹر آگسٹو پنوشے کی 16 سالہ فوجی آمریت قائم ہو گئی۔ ڈکٹیٹر پنوشے نے 3,000 سے زائد سیاسی کارکنوں کو ہلاک یا لا پتہ کر دیا۔ اس کی حکومت بعد ازاں 1990 ء میں، 1988 ء میں ہونے والے ریفرنڈم کے نتیجے میں ختم ہوئی اور اس کی جگہ سینٹر لیفٹ اتحاد نے ملک کا نظام سنبھالا اور 2010 ء تک حکومت کی۔

پابلو نیرودا کا اصلی نام ریکارڈو ایلیسر نیفتالی رئیس باسوالٹو تھا اور وہ 12 جولائی 1904 ء کو جنوبی چلی کے قصبے پارل میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک ریلوے ملازم اور والدہ سکول ٹیچر تھیں۔ پابلو نیرودا کی پیدائش کے دو ماہ بعد ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا جس کے چند روز بعد ہی ان کے والد ٹیموکو منتقل ہو گئے اور دوبارہ شادی کر لی۔ اس طرح پابلو نیرودا نے اپنا بچپن اور جوانی ٹیموکو میں گزاری۔ پابلو نیرودا نے 1914 ء میں پہلی نظم لکھی تو ان کے والد نے سخت مخالفت کی لیکن اس کی ٹیچر اور ہسپانوی زبان کی مشہور شاعرہ و ماہر تعلیم گیبریلا میسٹرل سمیت بہت سے لوگوں نے حوصلہ افزائی کی جس کی بدولت 13 برس کی عمر میں ہی ان کی شاعری کی پہلی کتاب شائع ہو گئی۔ 1924 ء میں ایک بہت کم عمر پابلو نیرودا نے اپنی نظموں کی ایک شاہکار کتاب شائع کی جس سے اس کی شہرت بنی، جو کرۂ ارض کی سب سے مشہور شاعری کی کتابوں میں سے ایک ہے، جس کا نام ہے ”اکیس محبت کی نظمیں اور ایک مایوسی کا گانا“ ہے۔

پابلو نیرودا نے 1923 ء میں اپنے طویل کیریئر کا آغاز ایک سفارت کار کے طور پر لاطینی امریکی روایت میں کیا، جس کے مطابق نامور شاعروں کو سفارتی ذمہ داریوں سے نوازا جاتا تھا۔ برما میں اعزازی قونصل کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد ، نیرودا کو 1933 ء میں ارجنٹائن کے شہر بیونس آئرس میں چلی کا قونصل نامزد کیا گیا۔ وہاں رہتے ہوئے انہوں نے ہسپانوی شاعر فیڈریکو گارسیا لورکا سے دوستی شروع کی۔ اس سال کے آخر میں میڈرڈ منتقل ہونے کے بعد پابلو نیرودا نے ہسپانوی مصنف مینوئل التولاگوئیر سے بھی ملاقات کی اور دونوں نے مل کر 1935 ء میں کبللو وردے پیرا لا پویسیا کے نام سے ایک ادبی جریدے کی بنیاد رکھی۔

1936 ء میں ہسپانوی خانہ جنگی کے آغاز نے نیرودا کی شاعرانہ اور سیاسی ترقی کو متاثر کیا لیکن انہوں نے ادبی تخلیق کا عمل جاری رکھا۔ اس نے خانہ جنگی کے خوفناک سالوں کی تاریخ بھی رقم کی جس میں جنگی محاذ سے لے کر گارسیا لورکا کی پھانسی بھی شامل تھی۔ اس خانہ جنگی نے انہیں ایک انقلابی راہنما کے طور پر متعارف کرایا اور ان کی شاعری کا رخ بھی بدل ڈالا۔ بعد ازاں وہ پیرس چلے گئے اور چلی میں ہسپانوی ریپبلکن مہاجرین کو آباد کرنے میں مدد کرتے رہے۔

پابلو نیرودا 1938 ء میں چلی واپس آ گئے اور انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کی تجدید کی اور بھرپور انداز میں لکھنا بھی شروع کر دیا۔ 1939 ء میں انہیں ایک بار پھر سفارتی ذمہ داریاں دیتے ہوئے میکسیکو میں چلی کا قونصل نامزد کر دیا گیا اور پابلو نیرودا کو چار سال کے لیے اپنے وطن کو دوبارہ چھوڑنا پڑا۔ اس وقت تک وہ ایک زبردست انقلابی بن چکے تھے اور 1943 ء میں چلی واپس آنے پر وہ کمیونسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن منتخب ہو گئے اور کمیونسٹ پارٹی میں بھرپور کام شروع کر دیا۔

انہوں نے چلین سینٹ میں عوام کے ایک مندوب کے طور پر امریکی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے ذریعے چلی کی معیشت پر تسلط، ملکی وسائل اور عوام کی لوٹ کھسوٹ اور حکومت کی طرف سے محنت کش طبقے کی آزادیاں سلب کرنے کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی۔ انہوں نے تانبے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی جانب سے کمیونسٹ پارٹی کی زیر قیادت ہڑتالوں کو کچلنے کے لیے صدر کے آمرانہ اقدامات کی بھر پر مذمت کی تو ریاستی حکمرانوں نے ان پر بغاوت کے الزامات لگانا شروع کر دیے، اور اپنے قومی شاعر کو اس قدر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا کہ وہ جلاوطنی پر مجبور ہو گئے۔

اس عرصے کے دوران انہوں نے جو کچھ لکھا اور شائع کیا اس نے پابلو نیرودا کی وطن پرستی اور قومی آزادی کے لیے گرانقدر خدمات پر ایسی مہر لگا دی جسے آج بھی ان کی جلاوطنی کے دور کی ڈائری سمجھا جاتا ہے۔ بعد ازاں 1952 ء میں چلین حکومت نے بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کے پیش نظر بائیں بازو کے ادیبوں اور سیاسی شخصیات کو گرفتار کرنے کا حکم واپس لے لیا تو پابلو نیرودا چلی واپس آ گئے۔ اس عرصہ میں پابلو نیرودا کو متعدد باوقار اور عالمی اعزازات ملے، جن میں 1950 میں بین الاقوامی امن ایوارڈ، 1953 میں لینن امن ایوارڈ اور سٹالن امن ایوارڈ، اور 1971 میں ادب کا نوبل ایوارڈ شامل ہیں۔ اس دوران انہوں نے تخلیقی عمل جاری رکھا اور سفارتی ملازمت دوبارہ شروع کر دی۔ بعد ازاں فرانس میں دو سالہ سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے کے دوران انہیں پراسٹیٹ کینسر کی تشخیص ہو گئی تو انہوں نے اپنے سفارتی کیریئر کا خاتمہ کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور علاج کے لیے اپنے ملک واپس لوٹ آئے۔

پابلو نیرودا کی شاعرانہ تخلیقات حیران کن ہیں، جن میں ہزاروں نظمیں، کچھ مہاکاوی، کچھ مختصر، اب تو بارسلونا کے گلیکسیا گٹنبرگ کی جانب سے ان کے مسابقتی کاموں کی سیریز بھی جمع کی گئی ہیں جو پہلے ہی پانچ انسائیکلوپیڈک جلدوں کو بھر چکی تھیں اور 6,000 سے زیادہ صفحات پر مشتمل تھیں، اور اب مزید جلدوں کی توقع ہے۔ اگر کوئی ایسی چیز ہے جو اس کے بڑے جذبے کو یکجا کرتی ہے تو وہ ہے دنیا کے لیے اس کی محبت، چھوٹی چھوٹی چیزوں اور ہسپانوی خانہ جنگی جیسی اہم تاریخی پیش رفت کے لیے ان کا جذبہ۔ جب وہ نوبل ایوارڈ وصول کرنے کے لیے سٹاک ہوم میں اپنے ہوائی جہاز کی سیڑھیاں اتر رہے تھے تو ایک صحافی نے نیرودا سے پوچھا کہ ان کے خیال میں ”سب سے خوبصورت لفظ“ کیا ہے۔ پابلو نیرودا نے توقف کیا، پھر بولا محبت۔ جتنا زیادہ آپ اسے استعمال کریں گے، یہ اتنا ہی مضبوط ہوتی جائے گی۔

پابلو نیرودا نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ سفر کرنے، ادبی تخلیق، رو پوشی، جلا وطنی یا پھر ٹریڈ یونین اور سماجی انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کے لیے سیاسی جدوجہد کرتے گزارا۔ انہوں نے عالمی امن کانفرنسوں، مصنفین کی مختلف کانفرنسوں، لینن امن انعام کے پینلز میں، مشرقی یورپ اور جنوبی امریکہ کی ادبی اور تعلیمی اکیڈمیوں کے لیے سخت محنت کی۔ انہوں نے آمروں اور ظالموں کی جانب سے ادیبوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف بھر پور آواز اٹھائی۔

وہ ترک کمیونسٹ شاعر ناظم حکمت، فلسطین کے انقلابی شاعر محمود درویش، کولمبیا کے ناول نگار گیبریل گارشیا مارکیز، چلی کی شاعرہ گیبریلا میسٹرل، فرانسیسی شاعر پال ایلوارڈ، میکسیکن کے مورالسٹ ڈیاگو رویرا، کیوبا کے شاعر نکولس گیلن اور برازیلین جیسے عالمی شہرت یافتہ روشن خیال ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ ایک دلکش دنیا کے خواب بنتے رہے۔

پابلو نیرودا ہمیشہ سے ایک ایسے انسان تھے جنہوں نے اقتدار سے زیادہ عوام کا لطف اٹھایا۔ رنگون (اس وقت برطانوی ہندوستان کا حصہ) میں ایک نوجوان قونصلر اہلکار کے طور پر نیرودا نے نوآبادیاتی ذات پات کے نظام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے برطانوی حکام سے کنارہ کشی اختیار کی اور مقامی برمی لوگوں کے ساتھ صحبت رکھی، جس کی وجہ سے انگریزوں نے اسے اپنے سماجی اداروں سے نکال دیا۔ انہوں نے کئی سال بعد لکھا کہ میں مشرق میں اپنی زندگی عارضی نوآبادیات کے ساتھ گزارنے نہیں آیا تھا، بلکہ اس دنیا کی قدیم روح کے ساتھ اس بڑے بے بس انسانی خاندان کے ساتھ زندگی گزارنے آیا تھا۔ اس لیے اس نے عوامی انداز میں بازاروں، محلوں اور گلیوں میں پناہ لی۔ یہی وجہ تھی کہ پابلو نیرودا 1920 ء کی دہائی میں سیلون سے لے کر 1960 ء کی دہائی میں اٹلی تک جہاں بھی گئے، انہوں نے اقتدار کے مقدس اور خاموش ایوانوں سے کہیں زیادہ لوگوں کی متحرک دنیاؤں کو تلاش کیا۔

پابلو نیرودا اپنے خطے کے ایک ایسے منفرد ترقی پسند ادیب، محبت کے پیامبر شاعر اور انقلابی رہنما تھے، جنہوں نے نہ صرف چلی اور لاطینی امریکہ کے مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے طبقات کو بہتر مستقبل کے خواب دیکھنے اور ان کی تکمیل کا سیاسی شعور اجاگر کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا، بلکہ دنیا بھر میں سامراج مخالف، قومی آزادی کی تحریکوں کو تقویت بخشی اور ان کے لکھے گئے محبت، مساوات، امن اور آزادی کی نظموں اور نغموں کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی۔

ان کی نظموں میں ہر قسم کے ذائقے موجود ہیں، جن میں چلی کا رنگ برنگا آسمان، ہر آن متغیر سمندر، جنگلوں اور چٹیل میدانوں سے بھری ہوئی زمین اور اس کے بدلتے ہوئے رنگ و موسم، انسانی دلوں کی گرمی، اپنی محبوبہ اور بعد میں بیوی متلدا کے لیے بے پناہ محبت، چلی کی تانبے کی کانوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کا گہرا درد، کھیتوں میں پسینے سے شرابور نیم برہنہ کسانوں کی محرومیاں اور سپین میں جنرل فرانکو کی فوج کے خلاف لڑنے والی انٹرنیشنل بریگیڈ میں شامل سپاہی، ادیب، صحافی اور فن کار، یہ سب ان کی نظموں کے موضع ہیں۔

انہوں نے اپنی شاعری کا آغاز 12 برس کی عمر میں محبت کی نظموں سے کیا، لیکن وقت کے ساتھ وہ ایک بڑے ترقی پسند انقلابی ادیب و شاعر بن کر ابھرے اور اپنے تخلیق کردہ ادب کے ذریعے عوامی خدمت کرنے لگے، حقائق بیان کرنے لگے، لوگوں کا حوصلہ بلند کرنے لگے۔ ان کا تخلیق کردہ ادب اور شاعری معاشرے میں تشدد، سامراجی تسلط، آمرانہ سوچ، جبراً اطاعت، سیاسی قبضے، سماجی استحصال، انسانی برائیوں اور کمزوریوں کے رد عمل کے نتیجے میں لکھی جانے لگیں۔ ان کی شاعری عوام کے خواب دیکھنے اور کامیابی حاصل کرنے کے جذبے کو ابھارنے لگی اور عوام میں بنیادی انسانی حقوق سے متعلق آگاہی پیدا کرنے لگی۔

پابلو نیرودا کی ادبی خدمات اور سماجی تبدیلی کے لیے جدوجہد کی اہمیت تو اپنی جگہ ہے ہی مگر چلی کے سیاسی و سماجی حالات بھی ہم سے زیادہ مختلف نہیں رہے۔ وہاں پر بھی ایک لمبا عرصہ سامراجی قبضہ، مارشل لاء اور نیم ڈکٹیٹرشپ کا دور دورا رہا، جس کی بدولت وہاں سیاسی، سماجی، جمہوری اور انسانی حقوق ناپید رہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پابلو نیرودا کو برصغیر کے ترقی پسند شاعروں اور ادیبوں سے بے پناہ محبت تھی۔ ان کی فیض احمد فیض، جوش ملیح آبادی، علی سردار جعفری اور سید سبط حسن سمیت برصغیر کے بہت سے ترقی پسند شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ گہری دوستی، نظریاتی ہم آہنگی، خط و کتابت اور ملاقاتوں کا سلسلہ تھا۔

پابلو نیرودا کے اسلوب شاعری نے عالمی سطح پر شاعروں اور ادیبوں کو متاثر کیا ہے اور تیسری دنیا کے ممالک نے بطور خاص اس کا اثر لیا ہے۔ برصغیر پاک و ہند سے پابلو نیرودا کا رابطہ ایک انقلابی شاعر کی حیثیت سے 1929 ء میں ہو چکا تھا، جب وہ انڈین نیشنل کانگریس پارٹی کی کانفرنس میں شرکت کے لیے چلی سے کلکتے آئے تھے، لیکن ان کا بھر پر تعارف اس وقت ہوا جب وہ 1950 ء میں دوبارہ آئے۔ اردو، ہندی اور بنگلہ دیشی ادبی حلقوں نے ان کی بھرپور پذیرائی کی اور ان زبانوں میں ان کی نظمیں ترجمہ ہوئیں اور کتابیں شائع ہوئیں۔

1971 ء میں پابلو نیرودا کے لیے نوبل ایوارڈ کا اعلان ہونے تک ان کی زندگی میں ہی 38 شعری مجموعے چھپ کر لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہو چکے تھے۔ پابلو نیرودا کا گراں قدر کام 600 صفات پر مشتمل ان کے شہرہ آفاق نظم کینٹو جنرل ہے۔ اب تو ان کی کتابوں کا دنیا بھر کی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے، اردو میں بھی متعدد کتابیں موجود ہیں۔

برصغیر کے نامور ترقی پسند ادیب علی سردار جعفری نے ایک مرتبہ پابلو نیرودا کی شخصیت بارے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ میں پابلو نیرودا کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کی فکر میں تھا کہ 1948 ء میں ایک دن خبر آئی کہ پولینڈ کے شہر وارسا میں فرانس کے مشہور نوبل انعام یافتہ سائنسدان جیولیوکیوری کی رہنمائی میں ایک بین الاقوامی امن کانفرنس منعقد ہوئی ہے، جس میں پکاسو نے اپنے پرانے دوست اور عظیم شاعر پابلو نیرودا کو خراج تہنیت پیش کیا ہے اور ان لوگوں کی مذمت کی ہے جن کے ظلم کی وجہ سے یہ عظیم شاعر ڈیڑھ برس سے روپوش ہے۔

پابلو نیرودا سے اب میرا شوق ملاقات بہت بڑھ چکا تھا اور ایک دن ایسا آیا جس میں ملاقات کے امکانات پوشیدہ تھے۔ 1949 ء کا سال شروع ہو رہا تھا۔ ہندوستان کے کئی ادیبوں کے ساتھ میرے پاس بھی بین الاقوامی امن تحریک کی طرف سے پیرس میں منعقد ہونے والی امن کانفرنس کا دعوت نامہ آیا تھا۔ میں جانے کے منصوبے بنا رہا تھا کہ 21 جنوری کو حکومت بمبئی نے مجھے بغیر کسی الزام کے گرفتار کر لیا اور بغیر مقدمہ چلائے جیل میں بند کر دیا۔

وہ زمانہ ہندوستان میں افراتفری اور انتہا پسندی کا تھا۔ میری گرفتاری پر ہندوستان کے مختلف گوشوں سے ادیبوں اور شاعروں نے احتجاج کیا اور یکایک 15 دن کے بعد مجھے رہا کر دیا گیا۔ اس فضا میں پاسپورٹ حاصل کرنے اور پیرس جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ بعد ازاں مجھے اپریل 1949 ء میں دوبارہ گرفتار کر کے آرتھر روڈ جیل بھیج دیا گیا۔ اس جیل یاترا میں جو کتابیں میری رفیق رہیں ان میں نرودا کی ریزیڈینس آن ارتھ بھی تھی، جس پر آج تک آرتھر روڈ اور ناسک سنٹرل جیل کے جیلروں کے دستخط ہیں۔

پیرس کی امن کانفرنس اپریل 1949 ء کے آخر میں منعقد ہوئی اور مئی میں یہ اطلاع ملی کہ پابلو نیرودا کی روپوشی ختم ہو گئی ہے۔ نامور روسی ادیب ایلیا اہرن برگ نے اپنے ایک مضمون میں اس کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ ’پیرس کی امن کانفرنس ختم ہو رہی تھی، یہ اس کا آٓخری اجلاس تھا کہ 25 اپریل 1949 ء کو یکایک ہال کے اندر ایک لہر سی دوڑ گئی۔ پابلو نیرودا اسٹیج کی سیڑھیوں پر چڑھ رہا تھا۔ وہ امریکہ کی پولس کی نگرانی سے بچ کر نکل آیا تھا اور سٹیج کے پلیٹ فارم پر اس طرح چڑھ رہا تھا جیسے سپاہی میدان جنگ میں آگے بڑھتا ہے۔

اسے احساس تھا کہ امن عالم کے لئے، انسانی وقار کے لئے اور شاعری کے حسن کے لئے امن عالم اور انسانیت کی بقا کی عظیم جنگ شروع ہو چکی ہے۔ اس نے اپنی ایک نئی نظم سنائی اور اسکاٹ لینڈ کے کان کنوں نے اور کوریا کی ایک استانی نے اور جیولیوکیوری نے اور پولینڈ کے ایک ریل مزدور نے اور سوویت یونین کے مشہور ہواباز مرسا ایو نے، غرض مختلف ملکوں اور مختلف پیشوں کے لوگوں نے بڑے شوق سے کانوں کی سمجھ میں نہ آنے والی لیکن دل کی سمجھ میں آنے والی زبان سنی۔ پھر فرانس کا ایک مزدور ضبط نہ کر سکا اور اس نے مسرت کا نعرہ بلند کیا۔ پابلو نیرودا۔ یہ واقعی پابلو نیرودا ہے‘ ۔

پابلو نیرودا کی شاعری جس قدر حسین اور مترنم ہے، اتنی ہی انقلابی بھی ہے۔ کسی زمانے میں اس کے سر پر موت کی تلوار لٹک رہی تھی اور وہ دیس بدیس مارا مارا پھر رہا تھا۔ اب اس کے سر پر شہرت اور عظمت کا تاج ہے اور وہ خواب آلود لہجے میں بات کرتا ہے، جیسے کہیں دور پانی برس رہا ہو یا صنوبر اور چیر کے درختوں سے ہوا آہستگی کے ساتھ گزر رہی ہو۔ وہ اسپین کی خانہ جنگی میں بارود کی بو سونگھ چکا تھا اور خون کا رنگ دیکھ چکا تھا، لیکن اس کا سانس دنیا کے نہ جانے کتنے ملکوں کے پھولوں کی خوشبو سے بسا ہوا تھا اور یہ خوشبو اس کے نغموں میں منتقل ہوتی جا رہی تھی۔ پابلو نیرودا کی ایک خوبصورت نظم جو ہمیشہ میرے دل کو چھو جاتی ہے اس کا اردو ترجمہ کچھ اس طرح ہے :۔

کہو تم عدالت میں جانے سے پہلے
کہو تم وزارت میں جانے سے پہلے
کہو تم سفارت میں جانے سے پہلے
دکھاؤ ہمیں اپنے اعمال نامے
قیامت کے دن اور خدا پر نہ چھوڑو
اسی چوک میں خون بہتا رہا ہے
اسی چوک میں قاتلوں کو پکڑ کر۔ سزا دو، سزا دو، سزا دو، سزا دو۔

پابلو نیرودا کی شاعری میں جا بجا سچے اور حقیقی ادب کی گہرائی ملتی ہے۔ ادب کے کسی عالم نے کیا خوب کہا تھا کہ شاعری میں معشوق کی اہمیت نہیں ہوتی، بلکہ عاشق کی اہمیت ہوتی ہے۔ محبوب کیسا ہی ہو، دیکھا یہ جاتا ہے کہ عشق کیسا ہے؟ اس میں کتنی گرمی ہے؟ کتنی تڑپ کتنا سوز و گداز اور پھر یہ سوز و گداز شعر بنا ہے کہ نہیں؟ تجربہ سچا ہے یا رسمی؟ یہ کہنا یا سمجھنا کہ پابلو نیرودا کی شاعرانہ خوبی اور برتری کا کوئی تعلق ان کی ترقی پسندی یا انقلابی زندگی سے نہیں تھا، بالکل غلط ہے، کیونکہ پابلو نیرودا کی زندگی کی سب سے بڑی خصوصیت ہی یہ ہے کہ وہ ایک عالمگیر وحدت تھی اور ان کی شاعری کو ان کی پوری شعوری زندگی کے اس اشتراکی نصب العین سے الگ کر کے دیکھا ہی نہیں جا سکتا، جس کے لیے وہ زندہ رہے اور جس کے لیے انہوں نے اپنی ساری ذہنی، روحانی اور جسمانی صلاحیتیں وقف کر دی تھیں۔ پابلو نیرودا کے ہاں انقلاب سیاسی موقف اور منشور ہی نہیں تھا بلکہ محبت کا ایک ناگزیر تقاضا ہے۔

پابلو نیرودا نے اپنی آخری سانس تک ایک عالمی شہرت حاصل کرنے والے ادیب، شاعر، مارکسی دانشور اور انقلابی راہنما کے طور پر جدوجہد کرتے گزاری۔ جب 11 ستمبر 1973 ء کو چلی کی فوج نے امریکی سامراج اور سی آئی اے کی آشیرباد سے بدنام زمانہ جنرل آگسٹو پنوشے کی قیادت میں اپنے ملک کے صدر سلواڈور ایلنڈے کی منتخب سوشلسٹ حکومت کا تختہ الٹ دیا، اور آئندے کو گولی مار کر راتوں رات کسی گم نام جگہ پر مٹی میں دبا دیا، تو ان دنوں پابلو نیرودا اپنے ملک کے فرانس میں سفیر تھے اور کینسر کے علاج کے لیے اپنے ملک آئے ہوئے تھے۔

اسی فساد و یورش کا فائدہ اٹھا کر ظلم کے خفیہ ہاتھوں نے سینٹیاگو میں پابلو نیرودا کا کام بھی تمام کر دیا۔ ان کے گھر اور کتابیں نذرآتش کر دی گیں۔ پابلو نیرودا کے انتقال کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور کمیونسٹ پارٹی چلی نے دعویٔ کر دیا کہ فوجی جنتا نے پابلو نیرودا کو زہر دیا ہے اور ان کے قتل کی غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔ بعد ازاں تحقیقاتی کمیشن بھی بنے اور ان کمیشنوں نے ان کے قتل کے امکان کو رد بھی نہ کیا، لیکن وہ تحقیقات آج تک نتیجہ خیز نہ ہو سکیں۔ آج پابلو نیرودا کے سر پر شہرت اور عظمت کا تاج ہے اور ان کے تخلیق کردہ ادب کی خوشبو آج بھی دنیا کو مہکا رہی ہے اور بلا لحاظ رنگ، نسل، مذہب، زبان اور سرحدوں کی حدود کے دنیا بھر کے شاعروں، ادیبوں اور انقلابی کارکنوں کی راہنمائی کر رہی ہے۔

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

پرویز فتح برطانیہ کے شہر لیذز میں مقیم ہیں اور برٹش ایروسپیس انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ وہ برطانیہ میں ساوتھ ایشین ممالک کے ترقی پسندوں کی تنظیم ساوتھ ایشین پیپلز فورم کورڈینیٹر ہیں اور برطابیہ میں اینٹی ریسزم اور سوشل جسٹس کے لئے سرگرم ہیں۔

pervez-fateh has 55 posts and counting.See all posts by pervez-fateh

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments