ماسٹر غلام حیدر: برصغیر کو نورجہاں اور لتا جیسی آوازیں دینے والا موسیقار ڈاکٹر سے میوزک ڈائریکٹر کیسے بنے؟


ماسٹر غلام حیدر کا فلمی موسیقی میں ویسا ہی مقام ہے جو فزکس میں البرٹ آئن سٹائن اور آئزک نیوٹن کا ہے۔

انھوں نے آج سے 90 سال پہلے فلمی موسیقی کا جو ’ڈی این اے‘ یعنی فنی ہیت اور شکل وضع کی تھی لگ بھگ ایک صدی بعد بھی فلم کا پلے بیک میوزک اجزائے ترکیبی کے لحاظ اسی کا ’انڈہ بچہ‘ ہے۔

ماسٹر صاحب کا اعزاز ہے کہ انھوں نے برصغیر کی موسیقی کو ملکہ ترنم نورجہاں اور لتا منگیشکر جیسی صدیوں پر پھیلی مُدھر آوازوں کا تحفہ دیا۔ یہی نہیں بلکہ یہ ماسٹر غلام حیدر ہی تھے جنھوں نے شمشاد بیگم کو صرف 12 سال کی عمر میں متعارف کروایا جو بعدازاں متحدہ ہندوستان کی پہلی نامور فلمی گلوکارہ کے طور پر سامنے آئیں۔

شمشاد بیگم چونکہ اس خطے کی پہلی پلے بیک (پس پردہ) گلوکارہ تھیں اسی لیے ان کے بعد آنے والی گلوکاراؤں، جن میں نورجہاں اور لتا منگیشکر بھی شامل تھیں، نے شمشاد بیگم کے انداز سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے اپنے لازوال انداز گائیکی کی بنیاد رکھی۔

ماسٹر غلام حیدر نے 74 سال پہلے لتا منگشیکر کی صلاحیتوں کو اس وقت پہچانا تھا جب کمرشل مارکیٹ میں وہ ایک ’کورس گرل‘ تھیں۔ بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے لتا منگیشکر کو اپنے محسن کا احسان ایسے ہی یاد تھا جیسے یہ کل کی بات ہو۔

انھوں نے بتایا کہ ’یہ ان دنوں کی بات ہے جب ممبئی میں فلم ’شہید‘ کی تیاریاں کی جا رہی تھیں اور ماسٹر غلام حیدر اس کے میوزک ڈائریکٹر تھے۔ مذکورہ فلم اس دور کے مشہور فلمی ادارے فلمستان کے بینر تلے بنائی جا رہی تھی جس کے سربراہ ششیدھر مکھرجی تھے جنھوں نے میری آواز یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ آواز بہت باریک اور چبھتی ہوئی ہے، فلم بینوں کو پسند نہیں آئے گی۔‘

شیشدھر مکھرجی فلم انڈسٹری کے مشہور بنگالی خاندان کے سربراہ تھے جن کی پوتی بالی وڈ کی اداکارہ رانی مکھرجی ہیں۔

لتا منگیشکر نے بتایا کہ اس وقت ان کی عمر 18 سال تھی اور چار پانچ سال سے کورس میں گانے کے ساتھ ساتھ وہ مراٹھی فلموں میں چھوٹے موٹے کردار بھی کر رہی تھی۔

’کبھی ہیرو کی چھوٹی بہن اور کبھی ہیروئن کی سہیلی کا کردار مل جاتا تھا لیکن مجھے اداکاری کرنا پسند نہیں تھا۔ میرے اندر گانا گانے کی تمنا تھی لیکن کوئی چانس نہیں دے رہا تھا۔ انھی دنوں یہ ہوا کہ ایک پٹھان نامی بھلامانس جو سٹوڈیوز میں جونیئر آرٹسٹ سپلائی کرتا تھا وہ مجھے ماسٹر غلام حیدر صاحب کے پاس لے گیا۔ انھوں نے میرا آڈیشن لیا اور مجھے پاس کر دیا۔‘

’ماسٹر صاحب میرے آیڈیشن سے بہت خوش ہوئے تھے۔ انھوں نے مجھے کہا تھا کہ میں تمہیں پروموٹ کروں گا۔ پھر ماسٹر صاحب نے مکھرجی کو راضی کرنے کے لیے بہت زور لگایا اور یہ بھی کہا کہ میری گارنٹی ہے لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ ماسٹر صاحب نے شیشدھر کا فیصلہ سُنا تو برہم ہوئے بغیر نہ رہ سکے تاہم انھیں کہا کہ مکھرجی صاحب ویسے تو آپ کو اپنی رائے قائم کرنے کا پورا حق ہے لیکن میرے الفاظ نوٹ کر لیں ایک دن آئے گا کہ پروڈیوسر، لتا کے دروازے پر قطار باندھے کھڑے ہوں گے۔‘

لتا کے مطابق یہ کہہ کر ماسٹر غلام حیدر نے فلمستان کے دفتر میں شیشدھر کو اپنا استعفیٰ تھمایا اور اسی وقت میرے ساتھ بمبئی ٹاکیز سٹوڈیو کی جانب چل پڑے۔

بعدازاں شیشدھر کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور انھوں نے ‘فلمستان’ کے بینر تلے انارکلی اور ناگن سمیت اپنی تمام فلموں کے گانے لتا منگیشکر کی آواز میں ریکارڈ کیے۔

’سگریٹ کی ڈبیا پر ٹھیکا لگا کر گیت کی دھن بنا دی‘

لتا جی بتاتی ہیں کہ ’بمبئی ٹاکیز سٹوڈیو شہر کے مضافات میں ملاڈ کے علاقے میں تھا۔ میں ماسٹر صاحب کے ساتھ میںگور گاؤں ریلوے سٹیشن پر کھڑی ٹرین کا انتظار کر رہی تھی کہ فلم ‘مجبور‘ کے گیت کی پہلی دھن وہیں موزوں ہوئی۔ گیت کے بول تھے ‘دل میرا توڑا ،مجھے کہیں کا نہ چھوڑا۔۔۔‘

’ماسٹر صاحب 555 برانڈ کے سگریٹ پیتے تھے جس کی پیکنگ ٹین کے گول ڈبوں کی تھی۔ انھوں نے وہیں سگریٹ کی ڈبیا پر ٹھیکا لگا کر دھن موزوں (ترتیب) کر دی۔ وہ ایک، ایک مصرعہ سناتے رہے اور میں ان کے ساتھ گنگناتی رہی۔ ماسٹر صاحب نے فیصلہ کر لیا تھا کہ یہ گیت وہ مجھ سے ہی گوائیں گے۔’مجبور’ میں میرے چار گیت تھے جو سبھی بہت پسند کیے گئے۔ اس فلم کے بعد میں مجھے موسیقار کھیم چند پرکاش نے اپنی فلم ‘ضدی’ کے گیت گوائے اور پھر میں اس وقت کے تمام موسیقاروں کی پہلی پسند بن گئی تھی۔‘

’فلمی موسیقی میں میرے استاد اور محسن ماسٹر غلام حیدر ہیں۔ ماسٹر صاحب کو میں استاد اور ایک طرح سے والد کا درجہ دیتی ہوں۔ انھیں دنیا سے گئے ایک زمانہ ہو گیا ہے لیکن میری زندگی کا کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب ان کے لیے دعا نہ کی ہو۔‘

ماسٹر غلام حیدر کے بیٹے پرویز حیدر نے بی بی سی کو بتایا کہ سنہ 1970 میں وہ اپنی والدہ اور بھائی کے ساتھ لتا منگیشکر کی دعوت پر ممبئی گئے تھے ’جہاں لتا میری ماں کو اپنی ماں کے ساتھ بٹھاتی اور خود ان کے پیروں میں بیٹھا کرتی تھیں۔‘

’جگت گرو اور فلمی موسیقی کے بانی تھے‘

پرویز حیدر کے مطابق ملکہ ترنم نور جہاں بھی ساری زندگی ماسٹر غلام حیدر کا ذکر بڑے احترام سے کرتی رہیں۔ ان کے مطابق ’وہ بتایا کرتی تھیں کہ وہ بہت چھوٹی عمر میں کلکتہ چلی گئی تھیں وہاں سے لاہور آئیں تو ماسٹر غلام حیدر نے انھیں پنچولی سٹوڈیو بلایا۔ اس وقت موسیقی کی دنیا میں وہ بےبی نورجہاں کے نام سے پہچانی جاتی تھی۔‘

پرویز حیدر بتاتے ہیں کہ ’ماسٹر صاحب کو بتایا گیا تھا کہ ایک چھوٹی لڑکی ہے جو کلاسیکل اچھا گا رہی ہے۔ ماسٹر صاحب نے پوچھا بیٹی کیا سناؤ گی؟ نور جہاں نے انھیں پیلو کی ٹھمری سنائی جس کے بول تھے ’پیارے رسیا بیہاری، سنو بنتی ہماری’۔ ماسٹر صاحب نے بےبی نورجہاں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ بیٹی تم اپنی عمر سے بڑا گانا گاتی ہو، میں تمہیں انعام دیتا ہوں۔ تم میری نئی پنجابی فلم کا گیت گاؤ گی۔ گیت کی استھائی کلاسیکی انگ کی ہے تم وہ کہہ سکو گی؟ نورجہاں نے ماسٹر صاحب سے کہا آپ کہیے تو!‘

’وہ استھائی ’شالا جوانیاں مانے،آکھا نہ موڑیں، جی لے’ شروع ہی تان سے ہوتی ہے۔ نورجہاں بتایا کرتی تھیں کہ ماسٹر غلام حیدر نے یہ گیت پنجابی فلم ‘گل بکاؤلی’ کے لیے گوایا تھا جس کے بعد نور جہاں نے ان کی ایک اور پنجابی فلم ‘یملا جٹ’ سمیت بہت سی فلموں کے لیے کلاسیکی اور نیم کلاسیکی انداز کے گیت گائے۔‘

یہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ ماسٹر صاحب نے نور جہاں سے ایسی دھنیں بھی گوائیں جو سادہ اور عوامی مزاج کی تھیں۔ ’نور جہاں کہا کرتی تھیں کہ ماسٹر غلام حیدر جگت گرو تھے اور فلمی موسیقی میں ان کا رتبہ نائیک اور موجد کا ہے۔‘

ماسٹر غلام حیدر کو فلمی موسیقی کا بانی کیوں سمجھا جاتا ہے؟

ماسٹر صاحب کا سب سے بڑا کام اس خطے کی فلمی موسیقی کی ہیت کو واضح شکل دینا ہے۔

لگ بھگ ایک صدی پہلے ماسٹر غلام حیدر نے فلمی گیت کے لیے ساز اور آواز کا تال میل وضع کیا اور جنوبی ایشیا کی فلمی موسیقی آج تک اسی رستے پر رواں دواں ہے جو ماسٹر صاحب اور ان کے بعد ان کے بعض ساتھیوں نے متعارف کروایا تھا۔

یہ ماسٹر غلام حیدر کا کمال ہے کہ انھوں نے ایک فلمی گیت درج ذیل حصوں میں تقسیم کیا کہ ایک فلمی گیت کی عمومی شروعات میوزیکل انٹروڈکشن سے ہو گی پھر گیت کی استھائی یعنی مکھڑا گایا جائے گا۔ گیت کے مکھڑے کے دوران (بارپیس) اس گیت کو سجائیں اور سنواریں گے اور پھر استھائی کے بعد اور انترے سے پہلے(انٹرول پیس) آئیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

منگیشکر خاندان کے سربراہ جنھوں نے شرابی گرو کی شاگردی ٹھکرا دی

بڑے غلام علی خان: کلاسیکی موسیقی کے عظیم فنکار پاکستان چھوڑ کر انڈیا کیوں چلے گئے تھے

کیا رفیع کو ان کا حق مل سکا؟

ڈاکٹر غلام حیدر موسیقار ماسٹر غلام حیدر کیسے بنے

پرویز حیدر بتاتے ہیں کہ غلام حیدر 1906 میں سندھ کے شہر حیدرآباد میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن سے موسیقی سے دلچسپی رہی مگر انھوں نے تعلیم دانتوں کی ڈاکٹری کی حاصل کی اور دندان سازی کا اپنا کلینک بنایا۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ اپنے زمانے کی معروف فلم پروڈیوسر اور پنچولی سٹوڈیو کے مالک سیٹھ دل سکھ پنچولی دانتوں کے علاج کے لیے ان کے آئے۔ دورانِ گفتگو سیٹھ پنچولی نے بتایا کہ انھیں اپنی فلم کے لیے میوزک ڈائریکٹر کی تلاش ہے۔

پرویز حیدر نے بتایا کہ ’ڈاکٹر غلام حیدر نے اسی وقت کلینک میں ہی ہارمونیم کھولا اور سیٹھ پنچولی کو بہت سی دھنیں سنا دیں۔ یہیں سے والد صاحب کے میوزک کریئر کا آغاز ہوا اور انھیں پنچولی سٹوڈیو میں میوزک ڈپارٹمنٹ کا سربراہ بنا دیا گیا۔‘

’موسیقارِ اعظم کا خطاب‘

ماسڑ غلام حیدر نے لاہور کے بعد کلکتہ اور ممبئی کی بڑی فلم انڈسٹریز میں پس پردہ موسیقی کے میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے جس کی بنا پر انھیں اپنے عہد کا ‘موسیقارِ اعظم’ تسلیم کیا گیا۔

ماسٹر صاحب سے پہلے استاد جھنڈے علی خاں کو متحدہ ہندوستان میں پس پردہ موسیقی کا پہلا مستند اور نامور موسیقار قرار دیا جاتا ہے۔ استاد جھنڈے علی خاں برصغیر کے نامور موسیقار نوشاد کے استاد تھے۔ یہ وہی نوشاد ہیں جن کے حصے میں ماسٹرغلام حیدر کے بعد موسیقار اعظم کا اعزاز آیا جبکہ پاکستان میں خواجہ خورشید انور کو ان کا ہم پلہ قرار دیتے ہوئے پاکستانی موسیقار اعظم کا خطاب دیا گیا۔

ماسٹر غلام حیدر اپنے زمانے کا سب سے زیادہ معاوضہ وصول کرنے والا موسیقار بھی رہے۔ سنہ 1945میں فلمساز و ہدایتکار محبوب کی فلم ‘ہمایوں’ کے لیے انھوں نے اس زمانے میں ایک لاکھ روپیہ معاوضہ وصول کیا تھا جو ایک ریکارڈ ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایک معروف میوزک ڈائریکٹر کا معاوضہ دس ہزار سے زیادہ نہیں تھا۔

ان سے پہلے میوزک ڈائریکٹر کے لیے عام طور پر ‘پیٹی ماسٹر’ کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی اور یہ ماسٹر غلام حیدر ہی تھے جن کا نام متحدہ ہندوستان کی فلموں کے پوسٹرز پر میوزک ڈائریکٹر کے طور پر درج کیا گیا۔

ان کی مشہور فلموں میں سورگ کی سیڑھی، مجنوں، گل بکاؤلی، یملا جٹ، خزانچی، چوہدری، خاندان، ہمایوں، شمع، مہندی، منجدھار، مجبور، شہید، چل چل رے نوجوان، کنیز، شاہدہ، بےقرار، اکیلی، بھیگی پلکیں اور گلنار شامل ہیں۔ گلنار سنہ 1953 میں نمائش کے لیے پیش ہوئی اور اسی برس ماسٹر صاحب صرف 45 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔

یہ بھی پڑھیے

سلامت علی خان نے لتا منگیشکر کی شادی کی پیشکش کیوں ٹھکرائی

مہدی حسن: موٹر مکینک سے شہنشاہ غزل بننے کا سفر

لسوڑی شاہ کا نصرت، نصرت فتح علی خان کیسے بنا

لتا منگیشکر نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ جن دنوں ماسٹر غلام حیدر بیمار تھے تو ان کا معمول تھا کہ وہ باقاعدگی سے نورجہاں کو ٹیلی فون کر کے ماسٹر صاحب کی صحت کے بارے میں دریافت کرتی رہیں۔

’نور جہاں کی زبانی مجھے ماسٹر غلام حیدر کی طبیعت کے بارے میں آگاہی ملتی تھی۔ اس سے پہلے میرا اور نورجہاں کا معمول تھا کہ ہم دونوں ٹیلی فون پر ہی اگلی بات چیت کا دن طے کر لیتے۔ نور جہاں اپنے ہاں پاکستان کے بڑے بڑے موسیقاروں اور گانے بجانے والے حضرات کو بھی ساتھ لے آتیں اور ان سے بات چیت ہوتی رہتی تھی۔‘

’انھی دنوں پتا چلا کہ ماسڑ غلام حیدر کو کینسر ہو گیا ہے۔ میں نے نور جہاں سے درخواست کی ایک مرتبہ ماسٹر صاحب سے میری بات کروائیں۔ وہ نورجہاں کے گھر آئے تو میں نے ماسٹر صاحب کی بہت منت سماجت کی کہ آپ ایک مرتبہ انڈیا آ جائیں تاکہ ہم آپ کے مرض کے بارے میں سکینڈ اوپینیئن (دوسری رائے) لے لیں لیکن وہ نہ آئے۔ پھر یہ دکھ بھری اطلاع ملی کہ نو نومبر 1953 کو ماسٹر غلام حیدر دنیا چھوڑ گئے ہیں۔‘

لتا جی نے کہا کہ ماسٹر غلام حیدر بہت بڑے فنکار تھے۔ مجھ سے پہلے وہ نورجہاں جیسی گلوکارہ کے بھی استاد تھے اور وہی شمشاد بیگم کو بھی لائے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ وہ اس دنیا میں تھوڑے وقت کے لیے آئے لیکن ان کا کام اور نام آج بھی ہمارے دل و دماغ کے ساتھ تاریخ کے سیلولائیڈ پر زندہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments