ادھر ہم، ادھر تم: نیا بیانیہ


ادھر ہم، ادھر تم کا نعرہ شہید ذوالفقار علی بھٹو سے منسوب ہے جو پاکستان کے مخصوص سیاسی پس منظر اور حالات کے بعد سامنے آیا۔ اس نعرے کی پیچھے درد اور بیانیے کی تاریخ بڑی ہولناک ہے۔ بھلا کب کوئی کسی کو یہ بتاتا ہے کہ بس اب بہت ہو گیا، اب ہماری راہیں جدا ہونے والی ہیں، ہمارے درمیان تفریق کی واضح لکیر کھنچی جانے والی ہے۔ بھلا کوئی کسی کو کب یہ جتلاتا ہے کہ ہمیں تم سے کوئی سرکار نہیں، اب ہمارے مفادات میں بڑا ٹکراؤ ہے، اب ساتھ گزرا مشکل ہو گیا ہے۔ بٹوارے کی ایسی واضح لکیریں کب ابھر کر ہمارے سامنے آتی ہیں، تب جب مکالمے کی راہیں مسدود ہو جائیں، جب بگاڑ کی نہ سلجھنے والی صورتحال پیدا ہو جائے یا پھر ایک فریق دوسرے سے بالکل مایوس ہو جائے۔

مملکت خداداد پاکستان میں بھی اب یہی صورتحال بنتی جا رہی ہے کہ امیروں اور غریبوں کے درمیان فرق بہت بڑھ چکا ہے۔ اشرافیہ، ان کے زیر پرستی متحرک مافیاز اور انہیں تحفظ فراہم کرنے والوں نے ملک میں دستیاب وسائل پر اس قدر مضبوطی سے اپنے شکنجے گاڑ لیے ہیں کہ غریب عوام کی کمر جھک کر دوہری ہو چکی ہے۔ اب انہیں سیدھا ہونے کے لیے اپنا راستہ خود تلاش کرنا ہو گا۔ انہیں اپنی راہیں خود متعین کرنا ہوں گی۔ وہ اس نظام اور اس کی پروردہ اشرافیہ سے مایوس ہو چکے ہیں۔ عام پاکستانی میں اب مزید گھاس کھانے اور اس پر زندہ رہنے کی سکت باقی نہیں رہی ہے۔ اب انہیں اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔ اس لیے یہ وقت ہے کہ 22 کروڑ عوام پر مسلط بے رحم، ستم گر اور سگ فطرت اشرافیہ کو واضح پیغام دیا جائے کہ ادھر ہم، ادھر تم۔

ہمارے وسائل پر قابض اشرافیہ نے عام آدمی سے اپنی راہیں بہت پہلے ہی جدا کر لی ہیں۔ شاید ان کے دل میں کوئی چور تھا کہ انہوں اپنے اور اپنے بچوں کے تحفظ کا سارا سامان پہلے ہی تیار کر لیا۔ انہوں نے اونچی فصیلوں والی اپنی محفوظ پناہ گاہیں اور کالونیاں بنا رکھی ہیں، ان کے لیے شفا خانے الگ، ان کے بچوں کے سکول الگ، ان کی بیویوں کے لیے شاپنگ پلازے الگ، ان کی شاہراہیں الگ، انہیں بنیادی سہولیات کی فراہمی کا نظام الگ، ان کی چال ڈھال، رہن سہن، سب کچھ عام آدمی سے الگ تو پھر کیوں نہ کہا جائے کہ ادھر ہم، ادھر تم۔

جب معاشروں میں سانجھ ختم ہو جائے تو وہ جلد زوال پذیر ہو جاتے ہیں۔ غریب کی اولاد بس اشرافیہ کے بچے کچھے ٹکڑوں پر پلنے کے لیے رہ گئی ہے۔ غریب کے بچے اشرافیہ کے رحم و کرم پر جی رہے ہیں۔ ان کے لیے بس چند ٹکے کی نوکریاں ہی باقی بچی ہیں کہ وہ بڑے صاحبوں کے گن مین بنیں، ان کے جوتے پالش کریں، ان کی گاڑیاں صاف کریں، ان کے محلات تعمیر کریں یا پھر ان کی کوٹھیوں پر چوکیداری کا فریضہ سر انجام دیں۔ غریبوں کے کام کرنے کے اوقات مقرر نہیں، ان کے سونے کے لیے محفوظ چھت میسر نہیں، کام کرنے والی جگہوں پر مزدورں کو تحفظ فراہم نہیں، سیٹھ جب چاہے انہیں کان سے پکڑ کر نوکری سے باہر نکال دے۔ وہ انصاف کے لیے کس کے دروازے پر دستک دیں۔ انصاف کا ترازو تو پہلے ہی ایک جانب جھک چکا ہے اور جھکاؤ بھی انہیں کی طرف جو عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔ ایسا کب تک چلے گا، اگر ایسا ہے تو پھر ہم کیوں نہ کہیں، ادھر ہم، ادھر تم۔

سیانے کہتے ہیں کہ قانون اندھا ہوتا ہے، اس کی نظر میں سب برابر ہیں مگر اس اندھیر نگری میں قانون کہاں ہے، اسے غریب کی حالت زار کیوں دکھائی نہیں دیتی۔ اب تو لگتا ہے کہ قانون اندھا ہی نہیں، بہرہ بھی ہے، گونگا بھی ہے۔ اسے غریب کی چیخیں سنائی دینا بند ہو گئی ہیں۔ قانون کے رکھوالوں کا ضمیر بس قلم کاروں اور میڈیا والوں کے جھنجھوڑنے سے جاگتا ہے۔ اب تو برقی ڈبوں میں محبوس، رنگ برنگی ٹائیاں، بھڑکیلے سوٹ، رنگین ٹوپیاں اور پگڑیاں پہننے والے بھی وہی بولی بولتے ہیں جس کے لیے انہیں اشتہار ملے۔

غریب کے پاس انہیں دینے کے لیے کچھ بھی تو نہیں ہے۔ غریب تو ان کے لیے ایک تازہ ترین خبر کی طرح ہیں جن کے احوال کا چرچا بس نئی خبر کے آنے تک گرم رہتا ہے۔ عام آدمی جائے تو جائے کہاں، فقط خدا کا سہارا باقی رہ جاتا ہے، وہی امید کی کرن ہے لیکن کیا کریں خدا کے گھر پر بھی تو دو رکعت کے اماموں کا قبضہ ہے جنہیں استنجا کرنے کے طریقے بتانے سے فرصت ہی کب، کیا کسی نے دیکھا کہ ملاں نے کبھی عوام کو صاف پانی کی فراہمی کی بات کی ہو۔

یہ مضمون اشرافیہ کے لیے نہیں لکھا گیا ہے۔ ویسے بھی مجھے یقین ہے کہ وہ اردو مضامین کم ہی پڑھتے ہیں۔ ہاں البتہ پاکستان پر مسلط، اشراف کے کارندوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ اس گستاخی پر ناراض نہ ہوں۔ وہ ان بے ربط اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں سے کسی خطرے اور سازش کی بو نہ سونگھیں۔ ہمیں اشرافیہ سے کوئی لینا دینا نہیں وہ تو ویسے بھی ہمارے لیے غیر متعلقہ ہو چکے ہیں۔ یہ چند سطور تو عوام الناس کی حالت زار کا نوحہ ہیں۔ یہ پڑھ کر شاید وہ جاگ جائیں، شاید ان کے اندر کوئی امید کی کرن پھوٹے۔ شاید وہ بھی زندگی کی جنگ لڑنے کے لیے تیار ہو جائیں۔

ہم عوام اتنے کمزور ہوچکے ہیں اب ہاتھی والوں سے لڑنے کے قابل نہیں رہے مگر اب تو یہ حال ہے کہ ستم گر لوٹنے والوں کے لیے بد دعا کرنے سے بھی خوف کھاتے ہیں۔ نہ جانے کیوں آج رہ رہ کر ملامتی فرقے کے شاعر ن۔ م راشد کی آزاد نظم ”پہلی کرن“ یاد آ رہی ہے جس میں وہ کسی خدا کے جنازے، ایک غریب ماں کے سینے سے چمٹی ہوئی چھپکلی اور نسلوں کی زنجیر پا کا ذکر کرتا ہے۔ آپ بھی یہ نظم پڑھیے اور اپنے دل کی آگ ٹھنڈی کیجیے :

کوئی مجھ کو دور زمان و مکاں سے نکلنے کی صورت بتا دو
کوئی یہ سجھا دو کہ حاصل ہے کیا ہستی رائیگاں سے
کہ غیروں کی تہذیب کی استواری کی خاطر
عبث بن رہا ہے ہمارا لہو مومیائی
میں اس قوم کا فرد ہوں جس کے حصے میں محنت ہی محنت ہے نان شبینہ نہیں ہے
اور اس پر بھی یہ قوم دل شاد ہے شوکت باستاں سے
اور اب بھی ہے امید فردا کسی ساحر بے نشاں سے
مری جاں شب و روز کی اس مشقت سے تنگ آ گیا ہوں
میں اس خشت کوبی سے اکتا گیا ہوں
کہاں ہیں وہ دنیا کی تزئین کی آرزوئیں
جنہوں نے تجھے مجھ سے وابستہ تر کر دیا تھا
تری چھاتیوں کی جوئے شیر کیوں زہر کا اک سمندر نہ بن جائے
جسے پی کے سو جائے ننھی سی جاں
جو اک چھپکلی بن کے چمٹی ہوئی ہے تیرے سینۂ مہرباں سے
جو واقف نہیں تیرے درد نہاں سے
اسے بھی تو ذلت کی پابندگی کے لیے آلۂ کار بننا پڑے گا
بہت ہے کہ ہم اپنے آبا کی آسودہ کوشی کی پاداش میں
آج بے دست و پا ہیں
اس آئندہ نسلوں کی زنجیر پا کو تو ہم توڑ ڈالیں
مگر اے مری تیرہ راتوں کی ساتھی
یہ شہنائیاں سن رہی ہو
یہ شاید کسی نے مسرت کی پہلی کرن دیکھ پائی
نہیں اس دریچے کے باہر تو جھانکو
خدا کا جنازہ لیے جا رہے ہیں فرشتے
اسی ساحر بے نشاں کا
جو مغرب کا آقا تھا مشرق کا آقا نہیں تھا
یہ انسان کی برتری کے نئے دور کے شادیانے ہیں سن لو
یہی ہے نئے دور کا پرتو اولیں بھی
اٹھو اور ہم بھی زمانے کی تازہ ولادت کے اس جشن میں
مل کے دھومیں مچائیں
شعاعوں کے طوفان میں بے محابا نہائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments