”ابھی بھی میں چور ہوں؟“


پرانے دور کی ایک خوبصورتی یہ بھی تھی کہ تب چور ہوتے تھے، ڈاکو نہیں ہوتے تھے۔ ڈکیتیاں نہیں ہوتیں تھیں۔ کبھی کبھی کہیں چوری ہوجاتی تھی۔ چوری کرنا بھی آسان نہیں تھا۔ کئی چور مشکلات سے تنگ آ کر چوری کرنے سے توبہ کرلیتے تھے۔ بس تھوڑی بہت ہیرا پھیری کرتے رہتے تھے۔ کبھی کبھی ان کے اپنے ساتھ بھی ہیرا پھیری ہوجاتی تھی۔ ایک چور کہیں چوری کرنے کے لیے گیا۔ کافی دیر انتظار کرتا رہا۔ جب رات گہری ہو گئی تو دیوار پھلانگی۔

ایک گھرمیں داخل ہو گیا۔ گھر کا مالک اکیلا تھا۔ صحن میں گہری نیند سو رہا تھا۔ چور نے سر سے پگڑی اتاری اور زمین پر بچھا کر ایک کمرے کے اندر چلا گیا۔ ارادہ تھا، جو چیز آسانی سے ہاتھ لگے، وہ اٹھا لے اور پگڑی سے گٹھڑی کا کام لے۔ تھوڑا سامان اٹھا کر جب آیا تو پگڑی غائب تھی۔ ادھر ادھر دیکھا۔ اپنی قمیض اتاری۔ سامان قمیض کے اوپر رکھا۔ خود دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ صاحب خانہ بدستور گہری نیند میں تھے۔ دوسرے کمرے سے سامان اٹھایا۔

واپس آیا۔ سامان موجود تھا قمیض مگر غائب تھی۔ پریشان ہوا دھوتی اتار کر نیچے رکھی اور باقی گھر سے سامان اٹھانے چلا گیا۔ کچھ سامان اٹھا کر آیا تو صاحب خانہ نے یک دم پوری قوت سے پکڑ لیا۔ مضبوطی سے جکڑ لیا اور شور مچانا شروع کر دیا ”چور“ ، ”چور“ ، ”چور“ ۔ کپڑوں سے محروم بے بس آدمی نے حیرت سے گھر کے مالک کی طرف دیکھا۔ اپنے ننگے بدن پر ہاتھ پھیرا۔ نہایت معصومیت سے سوال کیا ”ابھی بھی میں چور ہوں؟“ ۔

کسی زمانے میں ایک آدمی کے ہاتھ بھاگتے چور کی لنگوٹی لگ گئی تھی۔ اس آدمی کی خوشی دیدنی تھی۔ یہاں صورت حال کچھ ایسی تھی کہ ایک آدمی سو رہا تھا اور تقدیر نے اس کے دامن میں ایک سالم چور اور اس کے پورے کپڑے ڈال دیے تھے۔ ہیرا پھیری کا تو پتہ نہیں۔ چور اپنے کپڑوں سے بہر حال گیا تھا۔ صاحب خانہ شور مچا رہا تھا۔ مسکرا رہا تھا۔ چور بیچارہ بس روئے جا رہا تھا۔

موجودہ نسل کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ چوروں کی جگہ اب ڈکیت لے چکے ہیں۔ وہ نہ شور مچاتے ہیں اور نہ ہی شور مچانے کی اجازت دیتے ہیں۔ ڈکیتوں کو ہیرا پھیری کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ سیدھا سیدھا کام کرتے ہیں۔ ڈکیتی کی، سارا سامان پار۔ اگر بندہ بک جھک کرے تو بندہ بھی دنیا کے اس پار۔ جہاں گیا کوئی کبھی واپس نہیں آتا۔ اگرچہ ان کے خلاف رپورٹ تو کوئی زندہ بھی نہیں لکھواتا۔ کون کھولے ایسا کھاتہ، جس میں ہو گھاٹا ہی گھاٹا۔

لوگ تو اب ان چوروں کی یاد میں باقاعدہ روتے ہیں جو راتوں کو جاگتے تھے۔ پہلے پہل راتوں کو جاگنے والے صرف چور اور سگ ہوتے تھے۔ یہ مگر گئے دنوں کی بات ہے۔ ماضی کی کہانی ہے۔ اب تو ہر کسی نے یہی ٹھانی ہے کہ راتوں کو جاگنے والے الو اور کتے کی، اگر مغرب میں عزت ہے توہم کیوں نہ جاگیں۔ سگ خود بھی یہ سمجھتے تھے کہ ان کی عظمت کی وجہ اس وقت جاگنا ہے، جب باقی مخلوق خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہوتی ہے۔ سگوں کا مقام ہمارے بلھے شاہ کی نظر میں بھی بہت اونچا تھا۔

کتے کئی لوگوں کو بھی کاٹ کر بہت سے بھی زیادہ اوپر پہنچا دیتے تھے۔ اگرچہ اس دور میں ہسپتالوں کی بہتات نہ تھی۔ اس لیے بہت سارے لوگ اوپر جانے میں ناکام بھی ہو جاتے تھے۔ چوروں کی قسمت ذرا زیادہ بری ہوتی تھی۔ اگر کبھی کتے کسی دیگر ضروری کام میں مصروف ہوتے تھے تو چوروں کو مور پڑ جاتے تھے۔ تب ہمارے ہاں گھر گھر مور رکھنے کا رواج تھا۔ اب مور رکھے نہیں جاتے، بس ”ڈومور“ کیا اور کروایا جاتا ہے۔

پرانے چور بہت وضع دار ہوتے تھے۔ چوری کے لئے جاتے ہوئے بدن پر تیل ملنا ضروری سمجھتے تھے۔ تیل اور تیل کی دھار دیکھتے رہتے تھے۔ کسی آدمی کا ہاتھ ان کے بدن پر پڑتا تھا تو اسے اچھا بھی لگتا تھا اور بعض اوقات اندھیرے میں یہ گیان بھی حاصل ہو جاتا تھا کہ اس کے اردگرد کوئی چور ہے۔ آج کل تو جس کے پاس تیل ہو اس کو کوئی کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔ جو کہتا ہے وہی کہتا ہے۔ باقی زمانہ بس سہتا ہے۔ پہلے نو من تیل کا مالک رادھا کو نچانے پر مجبور کر دیتا تھا۔

آج کل جس کے پاس تیل ہو، اس کے سامنے ساری دنیا خود بخود ناچ رہی ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بہت سارے لوگوں کے تلوں میں اب تیل نہیں اور ان کی اتنی عزت بھی نہیں جتنی کسی زمانے میں تیلیوں کی ہوتی تھی۔ پہلے لوگوں کے من میں چور ہوتا تھا۔ اب یہ بیماری ختم ہو گئی ہے۔ کوئی بھلے چو ر ہو، ڈاکو ہو، اس کے من میں چور نہیں ہوتا ”گٹ مور“ ہی ہوتا ہے۔

ہمارے چور بلند اخلاقی معیار پر فائز ہوتے تھے۔ اخلاقیات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ جہاں ضرورت محسوس کرتے تھے کوتوال کو ڈانٹ دیتے تھے۔ بھلے کوتوال ان کو الٹا لٹکا دیتا تھا، پھر بھی ڈانٹتے رہتے تھے۔ اب نہ وہ چور رہے ہیں اور نہ ہی وہ کوتوال۔ گئے زمانے میں چور داڑھی رکھ کر اس میں تنکا پھنسا لیتے تھے تاکہ لوگوں کو ان کی شناخت میں کوئی مشکل درپیش نہ آئے۔ آج کل صورت حال بالکل مختلف ہے۔ اندازہ ہی نہیں ہوتا کون چور ہے اور کون تھکن سے چور ہے۔

غالبؔ تصوف پر عبور رکھتے تھے۔ مسائل تصوف بیان کرنے میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا۔ لوگ راہ سلوک میں ان کے مقام سے واقف تھے۔ وہ انتہائی عاجز انسان تھے۔ نمود و نمائش سے پرہیز کرتے تھے۔ انہیں ڈر تھا لوگ کہیں انہیں ”ولی“ نہ سمجھنے لگ جائیں۔ اس لیے وہ ”بادہ خوار“ بن گئے اور آخری دم تک یہ عادت نہ چھوڑی۔ ”ولی“ کہلوانا مناسب نہ سمجھا۔ شاید وہ جانتے تھے کہ کچھ عرصہ بعد یوسفیؔ صاحب فرمائیں گے کہ حالات کے بارے میں اچھی بات کہنے والا انسان ”ولی“ ہے یا حالات کا ذمہ دار۔

پرانے دور کے چور بھی اب خود کو ”ولی“ سمجھتے ہیں۔ ڈکیتوں کا طرز عمل دیکھ چکے لوگ بھی اب چوروں کو ”ولی“ سمجھتے ہیں۔ پہلے دور اور موجودہ دور میں بہت فرق ہے۔ پہلے سو دن چور کے ہوتے تھے اور ایک دن شاہ کا ۔ اب ہر دن شاہ جی کا ہوتا ہے۔ پہلے کام چور کے لئے بھی نوالہ حاضر ہوتا تھا اب تو بعض اوقات سارے دن کے کام کاج کے بعد نوالہ نصیب نہیں ہوتا۔ ہمارے شاعر بھائی تو بہت عرصہ پہلے ہی محو حیرت تھے کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔

تب بھی اکثر اوقات آنکھ جو کچھ دیکھتی تھی، لب پر لایا نہیں جا سکتا تھا کیونکہ فساد خلق کا اندیشہ ہوتا تھا۔ کئی لوگ جن کو ”ولی“ سمجھا جاتا تھا، وہ خلوت میں لڑکھڑاتے پھرتے تھے۔ وجہ سب کو معلوم تھی۔ کوئی دیکھ لیتا تھا تو اسے خود کو سنبھالنے کا حکم دیتے تھے۔ یہ بتانا بھی ضروری سمجھتے تھے کہ وہ چوری اور ڈکیتی سے گریز کرتے ہیں۔ آج کل کے اکثر شرفا خود تو سنبھلے رہتے ہیں، دوسروں کو سنبھلنے کا موقع کبھی نہیں دیتے۔

چوری اور سینہ زوری آج کے دور کا طرۂ امتیاز ہے۔ شرفا کا اعجاز ہے۔ کھلا راز ہے۔ پیسے والا لوگوں کی رائے سے بے نیاز ہے۔ ہر فعل کا مجاز ہے۔ غریب کے لیے زندگی فقط تگ و تاز ہے۔ سکون کا لمحہ شاذ ہے۔ وہ چوری بھی نہیں کر سکتا اور اب چوری بھی نہیں کھا سکتا۔ اتنا مگر گنگنا سکتا ہے۔ :

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments