کارڈیف کی زیبا پر کیا گذری


ہم عورتوں کی کہانیاں شادی کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ میں بھی وہیں سے شروع کرتی ہوں۔ اکنامکس میں ماسٹرز کرنے کے بعد ایک کالج میں لیکچرر کی جاب کر رہی تھی اور ساتھ ہی کسی اچھے رشتے کا انتظار بھی۔ میری عمر کے ساتھ گھر والوں کی فکر بھی۔ اور پھر بالکل اچانک میری شادی ہو گئی۔
شادی نہ تو لو میریج تھی نہ ارینجیڈ۔ یہ ایک اتفاقیہ یعنی بائی چانس میریج تھی۔ ہمارے گھر کے سامنے مسز جواد کا گھر تھا ان کے ایک بھائی تھے آفاق جو یو کے کی ریاست ویلز کے شہر کارڈیف میں رہتے تھے۔ یوکے کی شہریت تھی۔ چھٹیوں میں پاکستان آئے اور گھر والوں کو ان کی دلہن کی تلاش ہوئی۔ شاید جلد بازی میں نظر مجھ پر پڑی اور رشتہ آ گیا۔ شادی ہو گئی۔
کچھ عرصہ بعد میں بھی کارڈیف پہنچ گئی۔ گھر بیٹھنا مجھے پسند نہ تھا۔ کام کی تلاش شروع کر دی۔ میں اپنا انگریزی لہجہ درست کرنے میں لگ گئی۔ مقامی زبان ویلیش بھی ہے۔ میں نے ایک نایئٹ اسکول میں داخلہ بھی لے لیا۔ وہیں میری ملاقات مدھو سے ہوئی۔
مدھو دیدی دس برس پہلے جالندھر سے یہاں بیاہ کر آئی تھی اور اب ایک اسٹور چلا رہی تھی جہاں وہ انڈیا سے کپڑے اور جیولری وغیرہ منگاتی۔ انہیں اسٹور کے لیئے ایک مددگار چاہیئے تھا جو اکاوینٹس وغیرہ بھی چیک کر سکے۔ مجھے کام کی پیشکش کی میں نے قبول کر لی۔ وہ جالندھری لہجے میں بات کرتیں میں لاہوری لہجے میں۔ مزا آتا تھا۔
پتہ ہی نہیں لگا کیسے تین سال گذر گئے۔ ایک دن مدھو دیدی نے مجھ سے کہا’’ او کڑیئے گود ہری نیں کرنی؟ کوئی کاکا کاکی نیں چایدا؟’’
’’ ہاں مدھو دیدی چاہیئے تو بس وقت ہی نہیں ملا’’ میں نے ہنسی میں بات ٹالی۔ سوچ تو میرے دل میں بھی تھی۔
شادی کی چوتھی سالگرہ آئی۔ ہم ڈنر پر گئے۔ میں نے بات چھیڑ دی۔
’’ چار سال آفاق اب تک تو ہمارا کوئی بے بی ہو جانا چاہئے تھا۔ ’’
وہ چونکا’’ ہاں بالکل۔ اب تو گھر والے بھی بار بار پوچھ رہے ہیں’’
’’ پھر ؟’’
’’ چلو تمہیں کسی گایئناکولوجسٹ کو دکھاتے ہیں ’’۔ اور ہم وہاں پہنچ گئے۔
میرا معایئنہ ہوا۔ کچھ ٹسٹ ہوئے۔ اگلے اپایئنٹمنٹ میں پتہ چلا کہ میری سب رپورٹس ٹھیک ہیں۔ مجھ میں کوئی نقص نہیں تھا۔ پھر ڈاکٹر نے آفاق کو مخاطب کیا۔
’’ آپ بھی اپنا چیک اپ اور ٹسٹ کروا لیں’’
آفاق کے ماتھے پر ایک بل آیا اور آنکھوں میں بے اعتباری لیکن انکار نہ کرسکے۔ ایک دوسرے اسپیشلسٹ سے وقت لیا، ٹسٹ کروائے اور پتہ چلا کہ آفاق کے سپرمز کمزور ہیں۔ رحم تک پہنچتے بے جان ہو جاتے ہیں اور حمل نہیں ٹہرتا۔ کئی پیچیدہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یا بچپن کی کوئی بیماری۔ اینڈروکالجسٹ نے باتیں تو بہت کیں، کسی ممکنہ آپریشن کی بات بھی کی لیکن خاص امید نہیں دلائی۔ ہارمونز کا ٹریٹمنٹ شروع ہو گیا۔ میں نے بھی کچھ ٹوٹکے کیئے۔ بیڈ روم کو نئے سرے سے سجایا۔ پھولوں کے گلدستے رکھے، موم بتیاں جلایئں اور کمرے میں خوشبو کے اسپرے کیئے۔ ایک سال اور گذر گیا اور کچھ نہ ہوا۔ پھر ایک اور سال آئی وی ایف سے بارآور ہونے کی کوشش کی۔ وہ بھی بے سود۔ اگلے اپاینٹمینٹ پر گئے تو ڈاکٹر نے صاف کہہ دیا کہ اگر بچہ چایئے تو یا اسپرم ڈونر پر انحصار کریں یا بچہ گود لے لیں۔ آپریشن کا پوچھا تو کہا اس میں بھی کوئی خاص امید نہیں۔

اینڈروکالجسٹ نے ایڈوتٹشن اور سرپم ڈونیشن کے بارے میں دو چار بروشر بھی دیئے کہ فرصت سے پڑھیں اور مل کر کوئی فیصلہ کریں۔ واپسی کا سفر کشیدگی میں گزرا۔ اگلے دو دن بھی تلخی رہی۔ تیسرا دن چھٹی کا تھا ناشتے کے بعد میں نے میز پر پڑے بروشر اٹھا کر آفاق کے سامنے رکھ دیئے۔ ماتھے پر بل ڈال کر انہوں نے مجھے دیکھا۔ میں نے بھی ایک بل ڈال لیا۔ ’’ کیا سوچا پھر’’؟
’’ کیا مطلب’’؟ وہ انجان سے بن گئے۔ پھر چڑ کر بولے’’ زیبا تم چاہتی کیا ہو آخر ؟’’
’’ میں بچہ چاہتی ہوں’’
’’ تم جانتی ہو میں نہیں دے سکتا’’ مجھے ان پر ترس آنے ہی والا تھا لیکن اس وقت ان کے جذبات سے بڑھ کر میری خواہش اہم تھی۔ میری عمر کی گھڑی ٹک ٹک کرتی تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔
’’ ہم بچہ ایڈوپٹ کر سکتے ہیں۔ بروشرز میں لکھا ہے سب’’
’’ کہاں سے ایڈوپٹ کروگی؟ چین سے کوریا سے؟ چپٹی ناک اور چھوٹی آنکھوں والا بچہ؟ جو کہیں سے بھی ہمارا نہ لگے؟’’ وہ کیسی چھوٹی باتیں کر رہے تھے۔
’’ انڈیا سے کر لیں وہ تو ہم جیسے ہی ہیں نا’’؟
’’ کافروں کا بچہ پالو گی؟ دشمنوں کا؟’’ یہ ان کا ایک نیا روپ تھا۔
’’ اچھا پھر پاکستان سے لے آتے ہیں؟’’
’’ کون دے گا تمہیں اپنا بچہ؟’’
’’وہ جو مایئں چھولوں میں ڈال دیتی ہیں۔۔۔ وہاں سے۔۔ شاید’’
’’ واٹ نان سنس۔۔۔ ایسا بچہ جس کے نہ باپ کا پتہ ہو نہ ماں کا۔۔ گناہ کی پیداور’’ لہجے میں اس قدر حقارت تھی کی میں کانپ کر رہ گیئ۔
’’ اچھا تو پھر کسی سپرم ڈونر۔۔۔۔ ’’ میری پوری بات سنے بغیر وہ گرجے۔
’’ تمہیں شرم نہیں آتی اتنی گھٹیا بات کرتے ہوئے۔ کسی اور مرد کا بچہ اپنے پیٹ میں پالو گی؟ اور مجھے اس کا باپ کہلواو گی؟’’ وہ پیر پٹکتے نکل گئے۔ آفاق کا یہ روپ میرے لیئے نیا تھا۔
اگلے دن میں نے پھر وہی قصہ چھیڑ دیا اور وہ بپھر گئے۔ ’’ مجھے بچہ نہیں چاہیئے۔۔۔ سمجھیں تم؟’’
’’ لیکن مجھے چاہیئے اور اگر مجھ میں کوئی نقص ہوتا تو آپ کیا کرتے؟’’’ میں نے جم کر کہا۔
’’ پھر جاو میں تمہیں آزاد کرتا یوں۔ کسی اور سے شادی کرو اس سے بچہ پیدا کرو’’
’’ افوہ ذرا آرام سے بات سن لو’’
اگلے ہی لمحے انگلی اپنے سینے پر رکھی پھر میرے سینے پر ’’ میں نے تمہیں طلاق دی۔۔۔ طلاق دی۔۔۔ طلاق دی۔۔ ’’ دو بول کا رشتہ تین بول میں اڑ گیا۔ میں منمناتی رہ گئی۔
آٖفاق اپنا تکیہ اٹھائے گیسٹ روم میں چلے گئے۔ صبح ناشتے پر بہت افسردہ اور دلگیر نظر آئے۔
’’ مجھے دکھ ہے۔۔۔ شرمندگی ہے۔۔۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ تمہاری خواہش جائیز ہے’’
’’ سنیئے پلیز ایسے طلاق نہیں ہوتی۔ تین بار کہنے سے بھی ایک ہی طلاق ہوتی ہے۔ ہم دوبارہ رجوع کر سکتے ہیں’’
’’ نہیں۔ اب یہ نہیں ہوسکتا۔ رات فون پر ایک عالم سے بات کی میرے مسلک کے مطابق تین طلاقیں ہو چکی ہیں۔ ’’ اف یہ مسلکوں کی مار۔
’’ آپ کچھ اور علمادین سے مشورہ کریں۔ کوئی راہ نکل ہی آئے گی’’
دو دن غائب رہے۔ واپس آئے تو چہرا تھکا ہوا اور گردن جھکی ہوئی۔
’’ لندن گیا تھا۔ کئی اماموں سے بات ہوئی۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہمارے بیچ طلاق ہو چکی ہے۔
ابھی رجسٹر نہیں کی۔ سب زبانی بات ہے۔ عدت تک تم میرے گھر میں رہ سکتی ہو۔ تمہارا خرچہ بھی میرے ذمے ہے۔
یہاں کے قانون کے مطابق سب کچھ آدھا آدھا کرنا ہوگا۔ گھر بک جائے گا۔ ہم دونوں اپنے اپنے لیئے فلیٹ خرید لیں۔ گاڑی تم رکھ لو۔ میں دفتر کے پاس کوئی جگہ لے لوں گا۔ جوایئنٹ اکاونٹ بھی ختم کرنا ہوگا۔ ٹیکس ریٹرن بھی اپنے الگ الگ بھرنے ہوں گے۔ وکیل کرنے پڑیں گے۔ کر لو گی یہ سب؟’’
’’ ہاں کرلوں گی’’ میرے جواب سے لگا انہیں مایوسی ہوئی ہے۔ وہ شاید مجھے بے بس سا دیکھنا چاہ رہے تھے۔
’’ تمہیں ابھی سیٹیزن شپ بھی نہیں ملی۔ طلاق کے بعد تمہارے یہاں رہنے کا جواز نہیں بنتا۔ واپس بھیج دی جاو گی۔
میں بہت شرمندہ ہوں۔ بس غصہ آ گیا تھا مجھے اسپرم ڈونر والی بات مان لینی چاہیئے تھی’’ زود پشیمان ہاتھ مل رہا تھا۔
’’ اب کیا کیا جا سکتا ہے۔ تیر کمان سے نکل چکا ہے’’

’’ زیبا ایک حل ہے اس مسلئے کا’’ وہ اٹکتے ہوئے بولے۔ مجھے پتہ تھا تھا کہ وہ کیا کہنے والے ہیں پھر بھی ان کے منہ سے سن کر میں پتھرا گئی۔

’’ ایک سینٹر ہے لندن میں جو ایسے مسائل حل کرتے ہیں۔ لوگوں کی مشکل وقت میں مدد کرتے ہیں۔ حلالہ سینٹر۔ عدت ختم ہوتے ہی ہم وہاں چلیں گے۔ انہوں نے بہت امید دلائی ہے۔ دو ہزار پونڈ، کوئی سوال جواب نہیں اور مکمل رازاداری۔ ’’

ہم عدت ختم ہوتے ہی حلالہ دفتر پہنچ گئے۔ ایک تاریک سے کمرے میں بوسیدہ سا فرنیچر اور کچھ انجانے چہرے۔ ایک کرسی پر مولانا صاحب تھے اور چند ہی لمحوں بعد ’’ دولہا’’ بھی آ گیا اور گواہ بھی۔
میرا نکاح پڑھا دیا گیا۔ ایک انیس سالہ نوجوان سے۔ میری عمر اس وقت چونتیس برس تھی۔ وہ بول چال سے کم تعلیم یافتہ لگ ریا اور میں ماسٹرز ڈگری ہولڈر تھی۔ شرعی مہر کے عوض نکاح کا مقدس فریضہ ادا ہو گیا۔ قاضی صاحب نے مبارکباد دی۔ آفاق بھی وہیں موجود تھے۔

پھر مجھے ایک معلمہ کے سپرد کیا گیاجو سر سے پیر تک برقعے اور نقاب میں تھیں۔ وہ مجھے ایک چھوٹے سے تاریک سے کمرے میں لے گیں۔ اور حلالہ کی تفصیلات بیان کیں
’’ ویسے تو صرف دخول ہی شرعی اعبار سے کافی ہوتا ہے لیکن شوہر کا جب تک جی چاہے۔ شوہر کو منع کرنا معیوب بھی ہے اور ناجائیز بھی’’ میں زمین میں گڑتی چلی گئی۔
’’یہ مرد والنٹیر ہیں۔ رضاکارنہ طور پر بلا معاوضہ یہ کام انجام دیتے ہیں۔ خدمت خلق ہے۔ ایک خاندان ٹوٹ کر دوبارہ جڑ جاتا ہے۔ ’’
پھر کہا’’ کچھ سج سنور لیں۔ خاوند کے لیئے سجنا جایئز بھی اور بیوی کا فرض ہے۔ خاوند کا دل مایئل بھی تو ہونا چاہیئے’’۔
میں نے بال سنوارے۔ لپ اسٹک لگائی اور سج دھج سے مقتل کی طرف روانہ ہوئی۔ سینٹر کے اوپر بنےایک نیم تاریک کمرے میں مجھے بھیج دیا گیا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ لڑکا کمرے میں داخل ہوا۔ صاف رنگت، اونچا قد اور چہرے پر ہلکی سی داڑھی اور سبز آنکھیں۔ میں کمرے کی واحد کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے مجھے سلام کیا ’’ میڈم بستر پر آجاو’’ لہجہ شمالی علاقے جیسا تھا۔ میں روبوٹ کی طرح بستر تک آ گئی۔ اس نے کپڑے اتارنے شروع کیئے میرا دل ڈوبتا گیا۔ اس کے ہاتھ اپنے بدن پر محسوس ہوئے تو میں جھٹک دیئے۔
’’یہ سب مت کرو’’
’’ شوہر کو منع کرنا منع ہے بی بی۔ ’’ اس کے لہجے میں سختی آ گئی اور ہرےکانچ جیسی آنکھوں میں وحشت کے لال ڈورے۔ میں اپنی ذلت میں ڈوبتی چلی گئی۔ رضا کار اپنا فریضہ ادا کر کے باہر نکل گیا اور میں اپنے ٹکڑے سمیٹنے لگی۔

آفاق کو مسیج کیا وہ آئے اور نظریں چرالیں۔ نیچے دفتر میں وہی گواہ موجود تھے۔ زبانی طلاق ہوئی۔ مجھے شرعی مہر بھی ادا کیا گیا جو میں نے میز پر رکھے چندے کے ڈبے میں ڈال دیئے۔ ۔ آفاق نے ایک لفافہ عالم صاحب کو دیا انہوں نے جزاک اللہ کہتے دراز میں ڈال دیا۔ اور کہا کہ آیئندہ کوئی ضرورت پڑے تو وہ خدمت کے لیئے حاضر ہیں۔ ہم لٹے لٹے سے واپس آ گئے۔
اب ایک اور عدت کا انتظار تھا۔ لیکن ایک ماہ بعد ہی مجھے علم ہو گیا کہ انہونی ہو چکی ہے۔ میں امید سے ہوں۔ ایک اور دریا کا سامنا تھا۔ اب کیا کروں؟ خوشی مناوں یا اپنا سر پیٹوں؟ آفاق کو بتایا تو وہ حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی۔ اب کیا کریں؟ کیا حلالہ سینٹر والوں کو مطلع کریں۔ بچے کو اپنا بنا کر پالیں؟ بچہ ضایئع کردیں؟ کئی گھنٹوں کی گفتگو کے بعد طے یہ ہوا کہ حلالہ سینٹر کو اس بات کا علم نہ ہو۔ مسلئہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ بچے کا باپ اپنا حق جتائے گا۔ بچہ ضائع کرنا بھی رد کردیا۔ اتنے برسوں بعد تو امید ہوئی ہے۔ آفاق نے کہا وہ اس بچے کو اپنا نام اور پیار دیں گے۔ ’’ دیکھو اس طرح تم سپرم ڈونر کے جھنجھٹ سے بھی بچ جاو گی۔ تمہارا بچہ میرا ہی ہوگا’’
آفاق نے ایک اور عالم دین سے اس صورت حال کے بارے میں پوچھا۔ عدت بچے کی پیدایئش تک ہو گی۔

میری ڈاکٹر نے خبر سن کر مبارکباد دی۔ پھر میرا جرنل بنایا۔ میری صحت کی ہسٹری لکھی اور کچھ سوال ایسے کیئے کہ مجھے پسینہ آگیا۔
’’ یہ عام سوال ہیں جو ہم ہر ماں بننے والی سے کرتے ہیں۔ سب کچھ راز میں رکھا جائے گا۔ تم گھبراو مت۔ ’’
’’ تمہارا شوہر ہی بچے کا باپ ہے؟’’ میں کانپ کر رہ گئی لیکن سچ کہنا ہی مناسب تھا۔
’’ نہیں’’
’’ کیا تمہرے شوہر کو یہ بات معلوم ہے کہ وہ بچے کے باپ نہیں ہیں؟’’
’’ جی’’
’’ تمہارا کویئ افیئر تھا یا کوئی زیادتی ہوئی ہے؟’’
’’ زیادتی ہوئی ہے’’
’’ ریپ کرنے والا ایک ہی تھا ایک سے زیادہ؟’’
’’ ایک’’
’’ تم اسے جانتی ہو؟۔۔ اسے یہ علم ہے کہ باپ بننے والا ہے؟’’
میں نے نفی میں جواب دیئے۔
’’ اس کا بلڈ گروپ کیا ہے جانتی ہو؟ کوئی بیماری جو اسے ہو؟’’
’’ نہیں میں کچھ نہیں جانتی۔ بس چند گھنٹوں میں یہ سب ہو گیا’’ میں رو پڑی۔
’’ تم نے ریپ کی رپورٹ پولیس میں لکھوائی؟’’ میں اسے کیا بتاتی کہ یہ ریپ حلال تھا۔
’’ نہیں۔۔۔ میں کرنا بھی نہیں چاہتی’’
’’ کیا تم اپنے بچے کو کو حقیقت بتاو گی؟’’
’’ جی۔۔ کسی اسٹیج پر بتایں گے جب وہ سمجھ سکے۔ ’’
’’ میرا مشورہ ہے کہ اپنا ایچ آئی وی ٹسٹ کروا لو’’ میرا دل اور بھی ڈوب گیا۔ ٹسٹ کرا لیا شکر کہ سب ٹھیک تھا۔

زونی پیدا ہوئی تو مجھ سے زیادہ آفاق خوش تھے۔ اس کی رنگت صاف اور آنکھیں ہرے کانچ جیسی جو مجھے اپنی ذلت کے لمحات یاد کراتی رہتیں۔ زونی ڈیڑھ دو ماہ کی ہوئی تو ایک بار پھر لندن کا سفر کیا۔ آفاق کے ایک دوست کی بیوی کے پاس زونی کو تین چار گھنٹے تک کے لیئے چھوڑا کہ ہمیں ایک ضروری کام ہے۔ وہی آسیب زدہ سا حلالہ سینٹر وہی منحوس سا ماحول۔ وہی بے رحم سے مولانہ صاحب۔ میں نے چادر سے خود کو اچھی طرح ڈھانپ رکھا تھا۔ مولانہ صاحب نے مجھے بغور دیکھا اور بولے’’ آپ بہت دیر سے آیں۔ آپ کی عدت تو کب کی ختم ہو چکی تھی۔ شاید چھے سات ماہ پہلے آپ حلالہ کے لیئے آیں تھیں’’
’’ جی میں پاکستان چلی گئی تھی ’’
’’ اتنا اہم معاملہ ادھورا چھوڑ کر آپ سیر کرنے چلی گیں؟’’
’’ بس جانا ضروری تھا’’ مجھے ان سوالوں سے الجھن ہو رہی تھی۔ مولانہ نے فون کر کے گواہ منگائے۔ نکاح ہو گیا۔ مبارکباد دی گئی۔ آفاق نے ایک اور لفافہ نکال کر مولانا کو دیا انہوں نے پھر جزاک اللہ کہہ کر دراز میں ڈالا اور پھر کہا’’ آیندہ کوئی بھی ایسا مسلئہ ہو ہمیں خدمت کا موقع دیں’’
میرا یہ حال کہ ’’ جو بیت گیا ہے وہ گذر کیوں نہیں جاتا’’۔ نکاح، طلاق، عدت کے بیچ لڑھکتی جینا بھی بھول گئی۔ میں اس اندھیرے کمرے کی بساند خود پر سے دھو ہی نہیں پائی۔ آفاق ہاتھ بھی لگاتے تو مجھے جیسے کرنٹ لگ جاتا۔ راہ چلتے اگر کوئی اس بندے جیسا حلیہ والا نظر آجاتا تو میں برف کی طرح ٹھنڈی اور یخ کی طرح منجمد ہو جاتی۔ خودکشی کا خیال بھی آیا۔ کبھی دل چاہتا ساری دنیا کو چیخ چیخ کے بتاوں کہ مجھ پر کیا گذری اور کبھی اس ڈر سے سانسیں بند ہونے لگتیں کہیں کسی کو کچھ شک نہ ہو جائے۔ دن تو کاموں میں مصروف رہتی لیکن رات میرے لیئے عذاب سے کم نہ ہوتی۔ زونی پر کبھی بے تحاشا پیار آتا کبھی ایک جھٹکے سے اسے خود سے پرے کرتی۔ آفاق نے چاہا مجھے کسی ماہر نفسیات کے پاس لے جایں لیکن پھر وہی بات وہاں کیا بتاوں گی؟ اپنی کہانی کسیے سناوں گی؟ اس حلال ریپ کی توضیح کیا دوں گی؟

ہم نے یہ راز اپنے تک ہی رکھا لیکن ہم جانتے تھے کہ ایک دن زونی کوحقیقت بتانی پڑے گی۔ وہ نو سال کی تھی جب ایک بار میں نے یونہی سرسری طور پر اسے کہا کہ اس کا اصلی باپ کوئی اور تھا لیکن ڈیڈی ہی اس کے ڈیڈی ہیں۔ اس نے اس بات پر کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ شاید وہ بات کو پوری طرح سمجھ ہی نہیں پائی تھی۔ ہمیں مناسب وقت کا انتظار تھا ۔ اور ایک دن مناسب وقت خودبخود آ گیا۔
وہ گیارہ سال کی تھی ہم تینوں لیوینگ روم میں بیٹھے تھے کہ زونی نے پوچھا’’ ممی میرے اصلی فادر کون تھے اور کہاں ہیں؟’’ میرا دل زور سے دھڑکا۔ آفاق نے بھی نظریں زونی پر گاڑ لیں۔ میں چپ رہی۔ اس نے دوسرا سوال کیا۔
’’ آپ نے میرے اصلی فادر کو چھوڑ کر ڈیڈی سے دوسری شادی کیوں کی؟ کیا وہ اچھے ہسبنڈ نہیں تھے؟’’
’’ میری پہلی شادی تو ڈیڈی سے ہی ہوئی تھی۔ ’’ میرا گلا خشک ہو رہا تھا۔ وہ سوال پر سوال کر رہی تھی۔ میں نے کن اکھیوں سے آفاق کی طرف دیکھا انہوں نے آنکھ کے اشارے سے کہا کہ کہہ دو آج سب کچھ۔ دل تو چاہ رہا تھا کہ ان سے کہوں آیئے آپ ان سوالوں کے جواب دیجیئے۔ حقیقت بیان کیجیئے۔ لیکن یہ ہمت بھی مجھے ہی کرنی تھی۔
’’ میری اور ڈیڈی کی شادی ہوئی تھی۔ ایک دن ڈیڈی نے غصے میں آ کر مجھے ڈایئورس کر دیا۔ ’’زونی کی ہری آنکھیں حیرت سے پھیل گیں۔
’’ پھر؟’’
’’ ڈیڈی بعد میں بہت پشیمان ہوئے۔ ’’
’’ انہوں نے سوری بول دیا اور آپ دونوں کی دوستی ہوگئی؟’’
’’ نہیں ہمارے مذہب میں صرف سوری کہنے سے دوبارہ دوستی نہیں ہو جاتی’’
’’ ہمارے مذہب میں سوری نہیں ہوتا؟’’ وہ حیران سی میرا منہ تک رہی تھی۔
پھر مجھے اسے وہ سب بتانا پڑا جو اس کی سمجھ سے کہیں بالا تر تھا۔ الفاظ گلے میں اٹک رہے تھے۔ زونی کی آنکھوں میں بے اعتباری تھی۔ ’’ آپ کو پنیشمنٹ ملی’’؟ میں نے سر جھکا لیا۔
’’ مسٹیک تو ڈیڈی نے کی تھی پھر آپ کو پنیشمنٹ کیوں ملی ؟’’
’’ ہمارے مذہب میں ایسا ہی ہوتا ہے سزا عورت کو ملتی ہے’’
اس کی ہری کانچ جیسی آنکھوں میں حیرانی تھی، تاسف تھا، اور خوف بھی۔ وہ مجھے سے لپٹ گئی اور روتے ہوئے بولی۔
’’ ممی میں بڑی ہو کر مسلم عورت نہیں بنوں گی’’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments