قارئین مسلمان کون


قارئین بڑے دنوں سے ایک خلش تھی کہ ایک گتھی جو حل طلب ہے آپ کے سامنے رکھی جائے ہو سکتا ہے آپ ہی کوئی بہتر آراء مرتب کر دیں۔

عصر حاضر کے تقریباً سارے علماء سے کسی نہ کسی حوالے سے تعلق رہا، تحریر ہو یا تقریر سوالات کا حل کم اور الجھن زیادہ ہوئی۔

ھم پاکستان کے باسی ہیں جہاں ہر روز کسی نئی مشکل نے ہمیں گھیرا ہوتا ہے کبھی مذہبی منافرت کبھی طبقاتی منافرت اور اکثر سیاسی مخاصمت ان چیرا دستیوں سے ارض پاک کا عارض لہو رنگ ہی رہتا ہے

ایک تو پاکستان کے چاروں سمت ایسے ممالک وقوع پذیر ہیں

جو ارض وطن کے بہی خواہ نہیں حالانکہ ان میں دو ہمارے برادر اسلامی ملک ہیں جن کے ساتھ ہمارے تعلقات کوئی خاطر خواہ حد تک قابل اطمینان نہیں۔

طوالت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اصل مسائل کی طرف آتے ہیں ہم اور ہمارا اسلام۔

پاکستان اس وقت فرقہ واریت کی آماج گاہ بنا ہوا ہے نہایت احتیاط سے دیکھا جائے تو اس وقت چار ممالک جو آبادی کے لحاظ سے قابل ذکر ہیں لیکن کوئی بھی ایک دوسرے کے وار سے محفوظ نہیں۔ اب آتے ہیں اسلام میں پیدا شدہ مسا لک کی طرف

فقہ حنفی دو مسلکوں میں ہے۔
ایک دیوبندی
دوسرے بریلوی
تیسرے اہلحدیث
چوتھے شیعہ

ہر مسلک کے عقائد میں دوسرے مسالک کے پیروکار نقص نکالتے ہیں، بلکہ تکفیر تک کر ڈالتے ہیں۔ اگر نہایت ایمانداری سے تجزیہ کریں تو پھر مسلمان اور اسلام کہاں ہے۔ اور مسلمان کون؟

جبکہ اللہ پاک نے کلام مجید میں ہمیں مومن اور مسلمان کا خطاب دیا ہے اور فرما دیا کہ میں نے امت محمدی ﷺ کے لیے دین اسلام کو پسند فرمایا۔

لیکن جو اسلام ہمارے پاکستان میں رائج ہے وہ کون سا ہے؟ ہر کوئی ایک دوسرے پہ گن تانے ہوئے سچا اور سچا مسلمان ہونے کا دعویدار ہے چلیں مان لیتے ہیں سبھی ٹھیک ہیں لیکن جو نشانی حضرت محمد صلٰی اللہ علیہ و سلم نے بتائی اس پہ کوئی پورا اترتا ہے اور وہ کون۔ ؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ و سلم کا ارشاد پاک، مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے

اب اس نشانی اور کردار کا حامل مسلمان کہاں سے لائیں کوئی حل طلب مسئلہ درپیش ہوا غازیان اسلام سڑکوں پہ فساد فی الارض پھیلانے کو تیار اس میں کوئی مسلک بھی کسی سے کم نہیں، ہر کوئی اپنے سچے مسلمان ہونے کا ثبوت دیتا نظر آ رہا ہوتا ہے۔ سرکاری اور نجی املاک کو آگ لگانا دکانوں کو لوٹنا۔ غریبوں کے وسائل کو نذر آتش کرنا۔ موٹرسائیکل چھین کر دوسری کو اس کے اوپر رکھ کر آگ لگانا۔ لاکھوں کروڑوں روپے کی بسوں اور ٹرکوں کو جلا کر اپنے اسلامی کلیجے کو ٹھنڈک پہچانا۔

اے کاش ہمیں تھوڑی اسلامی احیاء کی سمجھ ہو تو سوچیں جو پیارا دین ہمیں بتاتا ہے کہ راستے کے پتھر کو بھی راہ سے ہتا دو کسی کو تکلیف نہ ہو ہو راستوں کے درمیان نہ بیٹھو کہ گزرنے والوں کو پریشانی نہ ہو لیکن ہم کیسے مسلمان ہیں اپنے پیارے نبی کی بات پے عمل نہیں کرتے اور جب بھی کسی بھی جماعت کی کال آتی ہے عوام بغیر سوچے سمجھے نکل پڑتے ہیں اپنے ہی ملک کا نقصان کرنے سوچتے نہیں کہ ہم اپنے ہی۔ گھر کو اگ لگا رہے ہیں دشمن کو ہم خود پے ہنسنے کا موقع دیتے ہیں ہم نے جب بھی آگ لگائی اپنے گھر کو، ملکی املاک کو نقصان پہنچایا، عوام نے عوام کا ہی نقصان کیا

ہمیشہ غریب اور لاچار کو مارا کبھی نہیں سوچا کہ جس غریب نے (چنگچی رکشہ) قسطوں پر لیا ہو گا اس کی کمائی کا جو واحد ذریعہ تھا غریب کے بچوں کو کھانا کہاں سے ملے گا وہ بوڑھے والدین کی دوائی کہاں سے لائے گا اس کی آنکھ کے آنسو کون پونچھے گا کاش ہم اپنی عقل کا استعمال کریں اپنے ملک سے محبت کریں دشمن ملک کو اپنے اوپر ہنسنے کا موقع نہ دین۔

اے کاش ہم وہ مسلمان بن جایں کہ جن کے بارے میں آقاء نامدار رسول انور شافع محشر محمد الرسول اللہ ﷺ نے مشرق کی طرف منہ کر کے فرمایا تھا مجھے اس سمت سے خوشبو آتی ہے۔

دعا ہے اللہ پاک ہماری اصلاح فرمائے تھوڑی سی ندامت اور استغفار ہمارے گناہ مٹا سکتی ہے۔
غالب نے کہا تھا۔
رکھیو غالب مجھے تلخ نوائی میں معاف
آج اک درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments