پانچ سوال، پانچ جواب


سوال نمبر 1 : کیا مذہبی گروہوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے نظریات کے تحفظ کے لیے دھرنے، احتجاج اور گھیراؤ جلاؤ کا راستہ اختیار کریں بالکل ویسے ہی جیسے سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد کے لیے یہ تمام طریقے استعمال کرتی ہیں؟

سوال نمبر 2 : اگر کوئی جماعت اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مذہب کو بنیاد بناتی ہے تو کیا اس کے بارے میں یہ کہنا مناسب ہو گا کہ وہ مذہب کا استعمال کر رہی ہے جس کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے؟

سوال نمبر 3 : کسی بھی احتجاج یا دھرنے کے دوران عوام کی جان و مال کے تحفظ پر مامور پولیس اور ریاستی اداروں کے اہلکار اگر بلوائیوں کے ہاتھوں مارے جائیں اور ریاست بعد ازاں احتجاج کرنے والوں کو معاف کردے تو کیا ان پولیس والوں کا خون بھی معاف سمجھا جائے گا؟

سوال نمبر 4 : اگر کوئی گروہ، سیاسی یا مذہبی، طاقت کے زور پر اپنے مطالبات منوانے کے لیے ریاست کی رٹ کو للکارے اور ریاست اس خوف سے کوئی اقدام نہ کرے کہ اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر خوں ریزی کا خدشہ ہو گا تو کیا ایسی صورت میں ریاست کے پاس مذاکرات کے ذریعے احتجاج ختم کرنے کے علاوہ کوئی طریقہ ہو گا؟

سوال نمبر 5 : کیا یہ بات درست ہے کہ ریاستی اہلکار اس حکم کو ماننے کے پابند نہیں جو بادی النظر میں آئین اور قانون کے مطابق تو ہو مگر اسلام کے صریحاً منافی ہو؟

جواب نمبر 1 : ہر فرد اور گروہ کو اپنے حقوق کے لیے پر امن احتجاج کا حق حاصل ہے، یہ احتجاج مذہبی مطالبات منوانے کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے اور سیاسی مطالبات کے لیے بھی، شرط صرف پر امن رہنے کی ہے۔ یہ بات سرے سے غیر منطقی ہے کہ سیاسی جماعتوں کا احتجاج، لانگ مارچ یا دھرنا دے کر حکومتیں الٹانا تو درست ہے مگر یہی کام اگر کوئی مذہبی گروہ کرے تو ناقابل قبول۔ اس حد تک مذہبی گروہوں کا استدلال درست ہے کہ اگر ماضی میں کسی جماعت نے یہ سب کام کیے تھے اور اس وقت وہ سب گھیراؤ جلاؤ اور دھرنے جائز تھے تو آج کی تاریخ میں وہی سب کام یکایک ناجائز کیسے ہو گئے۔ لیکن اگر کوئی مذہبی گروہ یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ پر تشدد احتجاج کی کوئی گنجایش نہیں تو پھر اس دلیل کے پیچھے نہیں چھپا جا سکتا کہ چونکہ فلاں جماعت نے ماضی میں یہ کام کیا تھا لہذا ہمارے لیے بھی یہ جائز ہو گیا۔

جواب نمبر 2 : کسی بھی احتجاج یا تحریک میں مذہب کا نام استعمال کرنا غلط نہیں اور نہ ہی کوئی بھی مطالبہ محض اس وجہ سے ناجائز ہوجاتا ہے کہ یہ مذہبی مطالبہ ہے۔ کوئی بھی فرد یا گروہ اپنے مذہبی، لسانی، سیاسی، علاقائی یا نسلی حقوق کی بنیاد پر ریاست سے کوئی بھی مطالبہ کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے دو شرائط ہیں۔

پہلی، اس کا یہ مطالبہ کسی دوسرے فرد یا گروہ کی حق تلفی یا اس کی آزادی سلب کرنے کا سبب نہ بنے۔ دوسرا، معاشرے میں اس مذہبی مطالبے پر بحث کرنے کی پوری آزادی ہو اور کسی شخص کو یہ خوف نہ ہو کہ اگر اس نے کسی گروہ یا جماعت کے مذہبی مطالبے پر سوال اٹھایا تو اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کسی کو مذہب کی آڑ میں سیاست کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس ملک میں مذہب کا نام نہیں لیا جانا چاہیے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چونکہ مذہبی معاملات میں ایک تقدیس کا پہلو ہوتا ہے اس لیے مذہبی مطالبات پر اس انداز میں بحث کرنا ممکن نہیں ہوتا جس انداز میں لسانی، سیاسی، علاقائی یا نسلی بنیاد پر ممکن ہوتا ہے۔

مثلاً اگر کوئی پنجابی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا مطالبہ کرے تو یقیناً اس پر سندھی اور پشتون تنقید کریں گے اور اپنا نقطہ نظر پیش کریں گے، جواب میں پنجابی بھی اپنی دلیل دے گا اور یوں بات چلتی رہے گی۔ لیکن جب کوئی اینکر پرسن اپنے پروگرام میں کسی مذہبی لیڈر سے اس کے مذہبی مطالبات پر سوال کرتا ہے اور جواب میں اسے یہ کہہ کر چپ کروا دیا جاتا ہے کہ میں تو آپ کو قرآن کی آیت سنا رہا ہوں اور آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ یہ مطالبہ کیسے غلط ہے تو ایسی صورت میں کہا جائے گا کہ وہ لیڈر مذہب کا استعمال کر رہا کیونکہ اب اس سے باز پرس نہیں کی جا سکتی۔

جواب نمبر 3 : ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنے فرض کی ادائیگی پر مامور پولیس والوں کو قتل کر دیا جائے اور اس کے ذمہ داران کو سزا نہ دی جائے۔ اگر پولیس والوں کے ورثا نے قاتلوں کو معاف نہیں کیا تو ریاست کیسے از خود معاف کر سکتی ہے؟ دوسری طرف یہی سوال مظاہرین کے بارے میں کیا جانا چاہیے کہ اگر پولیس والوں کی گولیوں سے مظاہرین ہلاک ہوجائیں تو اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ کسی بھی مظاہرے کو روکنے کے لیے سیدھی گولی چلنا آخری حربہ ہوتا ہے، ایسا صرف اس صورت میں کیا جاتا ہے جب خود پولیس پر سیدھی گولی چلائی جائے یا اسے یا کسی دوسرے شہری کو جان و مال کا خطرہ لاحق ہو۔

جواب نمبر 4 : مذاکرات کے ذریعے احتجاج ختم کرنے میں قطعاً کوئی حرج نہیں، طاقت کا استعمال اور وہ بھی اپنے شہریوں پر، کسی بھی ریاست کی آخری ترجیح ہونی چاہیے مگر اس اصول کے لیے بھی چند پیشگی شرائط ضروری ہیں۔ ریاست اپنے شہریوں میں تفریق نہیں کر سکتی یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ بلوچستان، اندرون سندھ یا فاٹا کے علاقوں میں اگر کوئی احتجاج کرے تو اپنی ’رٹ‘ قائم کرنے کی آڑ میں اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جائے لیکن اگر اس سے کہیں زیادہ پر تشدد احتجاج پنجاب میں ہو تو اسے پچکار کر چپ کروایا جائے۔

اسی طرح مذاکرات کے نتیجے میں معاہدہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں، دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے، لیکن ایک تو ایسے معاہدے خفیہ نہیں ہوتے اور دوسرے یہ معاہدے عوام کے منتخب کردہ لیڈر کرتے ہیں نہ کہ غیر نمائندہ ارب پتی تاجر۔ آخری شرط اس ضمن میں یہ ہے کہ کوئی بھی معاہدہ ریاست کے دستور اور قانون کے خلاف نہیں ہو سکتا اور دستور میں یہ درج ہے کہ ریاست میں کسی کو مسلح جتھے بنانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

یہاں مذہبی گروہوں کی ایک دلیل میں قدرے وزن ہے کہ ماضی میں ایک لسانی جماعت کے ڈیتھ سیل اور ٹارچر سیل بھی تھے، بچے بچے کو پتا تھا کہ کراچی میں بھتہ کون وصول کرتا ہے، بوری میں لاشیں بند کر کے کون پھینکتا ہے، لیکن اس سب کے باوجود ان کے نمائندے دھڑلے سے ٹی وی پروگراموں پر آتے تھے، ان کے لیڈر کی براہ راست تقریریں نشر کی جاتی تھیں اور بڑے سے بڑا طرم خان بھی چوں نہیں کرتا تھا۔ لیکن بات پھر وہی کہ اگر آپ سیاسی جماعتوں کی مثال دے کر خود کو بری الذمہ قرار دیں گے تو پھر ان میں آپ میں کیا فرق رہ جائے گا؟

جواب نمبر 5 : پاکستانی ریاست میں کسی کی یہ جرات نہیں کہ وہ کسی سرکاری اہلکار کو صریحاً خلاف اسلام کام کرنے کا کوئی حکم دے، ایسی کوئی مثال دور دور تک نہیں ملتی۔ اگر کوئی گروہ یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے دارالحکومت میں دھرنا دینے جا رہا ہے تو کیا ریاست دیگر شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی پابند نہیں ہوگی؟ یہ تو ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے، اس کے بارے میں یہ فتویٰ کیسے صادر کیا جا سکتا ہے کہ جو پولیس والے ڈیوٹی پر مامور تھے وہ حق و باطل کے معرکے میں باطل کے ساتھ کھڑے تھے یا کہ کہنا کہ ان کا فیصلہ قیامت کے دن ہو گا یا یہ بتانا کہ شہید پولیس والے جنت میں جائیں گے۔ اگر فیصلہ قیامت پر چھوڑنا ہے تو باقی معاملات بھی قیامت تک موخر کیوں نہ کر دیے جائیں، پھر انہیں نمٹانے کی اتنی جلدی کیوں ہے؟ اور اگر شہید پولیس والوں نے جنت میں جانا ہے تو اس وقت دنیا میں ان کے جو بال بچے ہیں وہ کہاں جائیں؟ ان کے لیے تو بیٹھے بٹھائے قیامت بھی آ گئی اور یہ دنیا جہنم بھی بن گئی۔

کالم کی دم: اگر یہ سوالات بی اے کے پرچے میں پوچھے جائیں اور کوئی طالب علم ان کا یہی جواب لکھے جو خاکسار نے لکھا ہے تو مجھے یقین ہے کہ وہ امتیازی نمبروں سے فیل ہو جائے گا۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 497 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments