افسانہ۔ ”کھلے تھے جو گلاب مرجھانے کے لیے“


”نیلے اور سرخ رنگ کے پورے چاند کی رات تھی۔ ہم دونوں سرسوں کے کھیت کے کنارے بیٹھے تھے جس کے پیلے رنگ کے پھول ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا کے چلنے سے جھوم رہے تھے۔ گاؤں والے کہتے تھے، رات کو کھیتوں کی طرف نہیں جانا چاہیے۔ بھوت پریت وہاں گھوم رہے ہوتے ہیں۔ بھلا، عشق سے بھی بڑا بھوت کوئی ہوتا ہے؟“

”تم، میری محبوبہ، ملن و وصال میں اس لیے رکاوٹیں تھیں کہ تم ایک مقدس ذات اور مقدس خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور میں ایک عام سا شخص۔ تقدس کے پردوں میں چھپے بھیڑیے غربت کی کوکھ سے جنم لینے والی جہالتوں اور نابینا عقیدتوں کا استحصال کرتے آئے ہیں۔ تڑپتی اور سسکتی انسانیت کو دکھوں، غموں اور اذیتوں سے نجات دلانے کے لیے مذہب، وطن، ذات پات اور روحانیت کے نام پہ پائے جانے والے خود ساختہ تقدس کو ختم کرنا ہو گا۔“ ”ریاست سے بڑا دہشت گرد اور انسان سے بڑا درندہ کوئی نہیں ہوتا۔“

”ہاں، میں نے خود ساختہ تقدس پہ تمہاری محبت کو ترجیح دی لیکن میں کیا کرتی میرا خاندان اپنے تقدس کا شجرہ صدیوں پیچھے لے جاتا تھا۔ کہا، ایک عام شخص کا تقدس کو چھونا بہت بڑا گناہ ہے۔ پھر بھی میں نے اپنا سب کچھ چھوڑا، صرف تمہارے لیے۔“

”دادا کہتا تھا جب سرحد کے اس پار سے ایک لٹا پٹا خاندان گاؤں میں پہنچا اور انھوں نے بتایا کہ اس دیس میں ان کے سامنے ان کی عورتوں کی آبروریزی کی گئی اور پھر درندے انھیں اپنے ساتھ لے گئے۔ اسی وقت گاؤں کے نوجوانوں نے گاؤں میں دو سو سال سے رہنے والے دوسرے مذہب کے گھرانے کی بہو اور اس کی کم سن بیٹیوں کو اٹھایا اور ان کو کماد کے کھیتوں میں لے گئے۔ گھنٹوں، وہاں سے چیخ و پکار کی آوازیں آتی رہیں لیکن“ تقدس ”کی وجہ سے کوئی بھی ان کی مدد کو تیار نہ ہوا۔ بچیاں تو کھیت میں ہی مردہ پائی گئیں۔ ان کی ماں نے باہر آ کر کنویں میں چھلانگ لگا کے خو کشی کر لی۔“

”میرے محبوب، تمہارے قتل کے بعد جب عدالت نے تمہارے قاتلوں کو باعزت بری کر دیا تو پھر میں نے بھی خود کشی کر لی اور یہاں تمہارے پاس چلی آئی۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments