جاہلیت پارٹی


یہ وہ منتشر لیکن حد درجہ تباہ کن جاہلیت ہی ہے جس نے اس ملک کی تباہی اور بربادی میں نہ صرف سب سے بڑا کردار ادا کیا بلکہ جب بھی یہ بدنصیب ملک آگے کی طرف بڑھنے لگا تو اس کا راستہ کاٹنے اور اسے منہ کے بل گرانے میں اسی جاہلیت پارٹی نے سب سے زیادہ حصہ ڈالا

یہ ایک ایسی ”پارٹی“ ہے جس کا نہ کوئی انتخابی نشان ہے نہ جماعتی منشور نہ ہی کوئی پارٹی لیڈر اور نہ کوئی باقاعدہ تنظیم۔

لیکن سیاستدانوں فوجی ڈکٹیٹروں اور سول انتظامیہ کی نسبت اس ”پارٹی“ کے جرائم انتہائی خوفناک ہیں

کیونکہ ہر اندرونی و بیرونی سازشی منصوبوں خطرناک عزائم اور ظالمانہ کارروائیوں کو ہمیشہ اسی جہالت پارٹی نے مدد اور سہارا فراہم کیا۔

گویا یہی جہالت ہی ہے جو اس ملک کی تباہی کا سب سے بڑا مجرم ٹھہرتا ہے

اس ملک کے ہر محسن کو جب بھی راستے سے ہٹانے کا معاملہ درپیش ہوا تو غدار کافر کرپٹ اور ایجنٹ کا جھوٹا لیکن کراہت بھرا بیانیہ اسی جاہلیت پارٹی کے بے شعور اور بے لگام غول کے ذریعے ہی آگے بڑھایا گیا۔

قائد اعظم کو کافر اعظم کہا گیا تو حقائق سے بے خبر جاہلیت پارٹی تب بھی اسی نعرے کی گردان کرتی رہی

خواجہ ناظم الدین فیروز خان نون اور حسین شہید سہروردی جیسے عظیم رہنماؤں کی قربانیوں کو خاکستر کرنے کے لئے اسی جہالت کے ”ایندھن“ سے کام لیا گیا

مادر ملت فاطمہ جناح ایک بد ترین ڈکٹیٹر کے مقابل آئیں تو ان پر بھی یہی جہالت چھوڑ دی گئی اور انہیں غدار کہا گیا

منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایجی ٹیشن سے پھانسی تک اسی جذباتی جاہلیت نے اپنی خدمات اور اپنے کندھے پیش کیے

بے نظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک پیش کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تو کونوں کھدروں سے اسی جاہلیت کو جھاڑ پونچھ کر نکالا گیا اور ان میں جذبات کی ہوا بھر دی گئی

اور پھر آمرانہ قوتوں کے تخلیق کردہ نواز شریف خلاف توقع جمہوریت اور آئین و قانون کی بالادستی کے راستے پر نکل پڑے تو مدتوں سے بیکار اور ڈمپ کیے ہوئے جاہلیت کو پرانے نعروں کافر اعظم غدار لا دین اور سیکورٹی رسک جیسا نیا نعرہ یعنی چور ڈاکو کے ساتھ سامنے لایا گیا جو ایک خوفناک تبدیلی کے باوجود بھی اس سے منحرف ہوئے کو تیار نہیں۔

چونکہ اس جاہلیت پارٹی کا شعور سمجھ بوجھ حقائق کا ادراک زمانے کی تبدیلی آمرانہ ہتھکنڈوں میڈیا ٹرائل کی ڈرامہ بازی اسٹیبلشمنٹ کی چالبازیوں ملکی مفاد عوام کی سود و زیاں میں تفریق کرنے اور سیاسی حرکیات کو سمجھنے سے کوئی سروکار نہیں ہوتا بلکہ اپنے نقصان اور غیروں کے فائدے کے لئے ایک احمقانہ جذباتیت کے ساتھ استعمال ہونا ہی ان کی جبلت ہے اسی لئے ان کی سمت بلکہ بے راہ روی کا تعین بھی وہی قوتیں کرتی ہیں جو اس جاہلیت کو زندہ رکھنے کے لئے مخصوص حالات اور فضائیں تخلیق کر کے اسی کے بطن سے نئی جاہلیت کو نہ صرف پروان چڑھاتے ہیں بلکہ نیا نعرہ بھی ان کے دماغوں اور منہ میں ٹھونس دیتے ہیں جنہیں یہ بلا سوچے سمجھے دہراتے رہتے ہیں۔

مثال کے طور پر گزشتہ ایک عشرے سے چور ڈاکو کے نعرے پر لگائے گئے اس غول کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ پرویز مشرف اس ملک کا واحد آدمی ہے جسے اعلی عدالت نے نہ صرف غدار ڈکلیئر کیا بلکہ اسے گھسیٹ کر لانے اور پھانسی دینے کا حکم بھی دیا

لیکن اس عدالت اور اس عدالتی فیصلے کا کیا بنا؟ اور کیوں بنا؟

جہالت پارٹی کو اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ ترقی کی راہ پر گامزن ملک کا بیڑہ کس نے اور کن مقاصد کے لئے غرق کیا؟

جہانگیر ترین سے زلفی بخاری اور عاصم باجوہ سے عامر کیانی تک جیسے لوگوں سے اس ملک کو کیا نقصان پہنچا اور انہیں کا اصل ٹھکانہ کہاں ہونا چاہیے؟

اس غول کے لئے یہ بات نہ تو قابل غور ہے اور نہ ہی قابل تشویش کہ اس ملک میں قانون سب کے لئے یکساں کیوں نہیں؟

کسی آمر نے کبھی جیل کا پھاٹک تک نہیں دیکھا (عدالتی احکامات کے باوجود بھی ) جبکہ سیاستدانوں حتی کہ منتخب وزراء اعظم تک جیلوں کال کوٹھڑیوں پھانسیوں اور گولیوں کا نشانہ کیوں بنتے رہے ہیں۔

جہالت پارٹی کے لئے یہ بات بر گز اہم نہیں کہ کشمیر کا سودا کس نے کیا اور مظلوم کشمیری سفاک ہندوستانی سپاہ کی رحم و کرم پر کس نے اور کن مقاصد کے لئے تنہا چھوڑے

تباہی سے دوچار معیشت خوفناک مہنگائی پٹرول چینی گھی بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ بھی جاہلیت پارٹی کا درد سر نہیں

کراچی کا بندوق بردار اور بوری بند الطاف حسین اچانک کہاں سے نمودار ہوا تھا۔ اور تیس سال تک اسے کیوں نہیں روکا گیا اور پھر کراچی اس کے چنگل سے اچانک کیوں اور کیسے نکلا؟

طاہر القادری سے تحریک لبیک تک کہاں سے اور کیسے نمودار ہوتے ہیں

جہالت پارٹی کے پاس یہ بات سوچنے کے لئے نہ تو دماغ ہے اور نہ ہی وقت کہ ستر سال گزرنے کے بعد بھی یہ ملک مسلسل نازک دور سے کیوں گزر رہا ہے

نہ یہاں جمہوریت پنپ رہی ہے نہ آئین و قانون کی بالادستی قائم ہو رہی ہے اور نہ ہی کرپشن رک رہی ہے
اس غول کو نہ تو میڈیا کی آزادی سے دلچسپی ہے اور نہ ہی حق و صداقت پر مبنی صحافت سے
علم شعور مطالعہ اور با خبری کی بجائے بہتان طرازی الزامات اور گالم گلوچ ہی اس طبقے کا اولین ترجیح ہے

میڈیا کی آزادی پسند ہے بشرطیکہ ان کی خواہش مطابق بات کریں پھر بے شک آپ کی کرپشن اور ٹاوٹ صحافت سے بنائے گئے فارم ہاؤسز لگژری لائف سٹائل لمبی لمبی گاڑیاں حتی کہ ذاتی جہاز بھی خون پسینے کی کمائی مانے جائیں گے لیکن اگر کوئی صحافی ان کی خواہش کے برعکس یا با الفاظ دیگر مبنی بر حقیقت بات کرے تو لفافہ کرپٹ اور بکاؤ ہی ٹھہرے گا

پرویز مشرف سے کشمیر کے واقعات تک ہوتے ہوئے بھی غداری کا لیبل صرف ان لوگوں پر چسپاں کرتے رہیں گے جن کے نام اس غول جاہلیت کو تیسرے درجے کے صحافیوں اور اس سے بھی کم تر میڈیا کے ذریعے ازبر کرائے گئے ہیں

فارن فنڈنگ کیس بنی گالہ میڈیسن گھپلے چینی سکینڈل پشاور بی آر ٹی مالم جبہ پنڈی رنگ روڈ سکینڈل پاپا جونز کرونا فنڈ تحائف و توشہ خانے کے ساتھ ساتھ جہانگیر ترین علیمہ خان خسرو بختیار رزاق داود عامر کیانی اور زلفی بخاری کے معاملات پر مٹی پاؤ اور صرف نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو چور ڈاکو کہتے رہیں کیونکہ ان کی ذہنی تخلیق ان میڈیائی ٹاوٹوں نے کی جنہیں مخصوص ایجنڈے دے کر میڈیا پر بٹھایا گیا تا کہ جاہلیت پارٹی پھلے پھولے۔

ثاقب نثار سے سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال جیسے بدقماشوں سے جاہلیت پارٹی کا کیا لینا دینا؟ کیونکہ میڈیائی ٹاوٹوں نے اس سلسلے میں جہالت پارٹی کی ”دماغ سازی“ ہی نہیں کی اور اپنے طور پر سوچنے کے لئے ان کے پاس ذہن کہاں۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments